Enjoy intersting short stories

Monday, 28 May 2018

POST MAN


🌸   ڈاکیا   🌸
تحریر۔ راجہ ابرار حسین عاجز

               وہ جزیرہ  شھر سے دور پہاڑوں اور سمندر میں گھرا ھوا تھا ۔ سمندر  کھاڑی کی شکل میں جزیرے کے اندر تک آ گیا تھا۔ کھاڑی کے ایک طرف کچھ آبادی تھی۔ جبکہ دوسری طرف پہاڑیوں کا  سلسلہ تھا۔ پہاڑی سلسلے کی دوسری طرف ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔
            اس جزیرے کی آبادی شائید دو سو کے لگ بھگ تھی۔ لوگوں کی آمدو رفت کشتیوں کے ذریعے ھوتی۔ اپنی ضرورت کی اشیاء لینے کے لیۓ جزیرے کے مکینوں کو پہاڑی کی دوسری طرف موجود قصبے میں جانا پڑتا تھا۔ ھنری اس جزیرے کا واحد  ڈاکیا تھا۔ جزیرے کے لوگوں کی ڈاک  لانا اور  لے جانا ۔ ڈاک بانٹنا ۔سب کام وہ خود ھی کیا کرتا۔ وہ سرکاری ملازم نہیں تھا ۔گورنمٹ وھاں کوئ ڈاکیا نہیں رکھنا چاھتی تھی ۔ کیونکہ ڈاک کی ترسیل کے اخراجات بہت زیادہ تھے ۔ اور ڈاک بہت کم ہوتی تھی ۔ ہنری نے اپنے آپ کو اس کام کےلیۓ پیش کر دیا تھا۔ سرکار کی طرف سے اسے بہت معمولی مشاھرہ دیا جاتا۔لیکن ھنری اس کام سے خوش اور مطمئن تھا۔
           ھنری پینسٹھ سال کا ایک بوڑھا آدمی تھا۔ اتنی عمر کے با وجود اس کی ہمت اور طاقت جوانوں کی طرح تھی ۔ اس کا  سفید رنگ چمکدار تھا۔بڑی سی الجھی ہوئ داڑھی جس کے سارے بال سفید ھو چکے تھے۔ سر کے بال گھنگھریالے تھے۔اور بالوں میں ابھی کسی کسی جگہ ہلکی سی سیاھی دکھائ دے جاتی تھی۔ اس کے ھاتھ پاؤں مضبوط تھے ۔ جزیرے کی آب و ھوا  تبدیل ھوتی رھتی تھی ۔۔ عموماً گہرے بادل چھاۓ رھتے ۔ اور دن میں ایک آدھ بار بارش بھی ھو جاتی۔ بارش کے بعد ھوائیں چلنا شروع ھو جاتیں۔ اور موسم دلفریب ھو جاتا۔ سال کے زیادہ تر حصے میں سردی پڑتی۔
             ھنری کا گھر سمندر سے تھوڑی فاصلے پر ایک چٹان پر بنا ھوا تھا۔ گھر لکڑی اور پتھروں سے بنا ھوا تھا۔ چھت ، دیواریں۔کھڑکیاں اور دروازہ سب اس نے خود ھی بنا لیۓ تھے۔  ایک کھڑکی سمندر کی طرف کھلتی تھی ۔ ھنری شام سے زرا پہلے کھڑکی کے پاس بیٹھ جاتا اور سمندر کی طرف دیکھتا رھتا۔ سمندر سے آنے والی ٹھنڈی ھوا سے اس کے بال لہراتے رھتے۔دور  سمندری بگلے اڑتے ھوۓ نظر آتے۔ بگلے غوطہ لگا کر مچھلیاں پکڑتے اور دوبارہ  فضا میں اڑان بھر جاتے ۔ ان کو دیکھنا اور انکی کیں کیں کی آوازوں کو سننا ھنری کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ کافی دیر بیٹھنے اور سمندر کا نظارہ کرنے کے بعد جب تھک جاتا تو کھڑکی بند کرتا اور سونے کے لیۓ چلا جاتا۔
       ہنری اس گھر میں اکیلا رھتا تھا ۔ برسوں پہلے اس کی بیوی مر گئ تھی ۔ اس کے مرنے کے بعد ھنری کے بس دو کام رہ گۓ تھے ۔ جزیرے کے لوگوں کی ڈاک اکٹھی کرنا اور منزل پر پہنچانا۔۔اور واپس آ کر کھانا کھانے کے بعد کھڑکی کے سامنے بیٹھ جانا۔ کبھی وہ اپنے لکڑی کے کیبن سے باھر نکل آتا ۔ سمندر کے پانی کے قریب پتھروں پر بیٹھ  کر چھوٹے چھوٹے روڑے پانی میں پھینکتا رھتا۔ اس سمندر کے ساحل پر ریت کم تھی اور پتھر زیادہ تھے۔ سمندر اس جگہ زیادہ گہرا نہیں تھا۔یہاں سمندر ایک کھاڑی کی شکل میں جزیرے کے اندر تک آ گیا تھا۔کھاڑی کی دوسری طرف پہاڑوں کا ایک سلسلہ دور تک پھیلا ھوا تھا۔ یہ خشک اور بنجر پہاڑ تھے ۔ اور ان کا رنگ سیاھی مائل تھا۔ شام کے وقت پہاڑ  ، پانی اور پانی پر منڈلاتے ھوۓ سمندری بگلے  مسحور کن منظر پیش کرتے ۔ ھنری ان مناظر سے دیر تک لطف اندوز ھوتا رہتا۔
           ھنری کے گھر کے باھر ایک ڈبہ لٹکا ھوا تھا۔ یہ ھنری کا لیٹر بکس تھا۔ جزیرے کے لوگ اپنے خط اس ڈبے میں ڈال دیتے۔ ھنری دوسرے دن وہ خط نکالتا ۔ پہاڑیوں کی دوسری طرف قصبہ تھا۔ ڈاک وھاں تک پہنچانی ھوتی تھی ۔ ھنری اپنی کشتی نکالتا اور چپوؤں سے کشتی کو دھکیلنا شروع کر دیتا۔ دوسرے کنارے پر پھنچنے کے بعد وہ ڈاک کا تھیلا نکالتا ۔ اور ایک مخصوص جگہ پر کھڑا ھو جاتا۔ اس کا کام بس یہیں تک تھا۔ اس سے آ گے مارتھا کا کام شروع ھو جاتا۔۔مارتھا لگ بھگ پچاس سال کی تھی۔ اس کی صحت قابل رشک تھی ۔ وہ پہاڑوں کے بیچوں بیچ بنی ھوئ سڑک پر سائیکل چلاتی ھوئ آتی۔ ھنری کے پاس پہنچ کر سائیکل سے اترتی ۔ اس کے چہرے پر ایک مہربان سی مسکراھٹ ھوتی ۔۔ وہ ھنری کا حال پوچھتی ۔ اس سے ڈاک لیتی ۔۔ اگر کوئ خط دینے والا ھوتا تو ھنری کے حوالے کرتی ۔پھر اپنی سائیکل پر بیٹھ کر آگۓ روانہ ھو جاتی۔ ھنری کھڑا اسے دیکھتا رھتا ۔جب اس کی سائیکل پہاڑوں میں اوجھل ھو جاتی ۔ تو ھنری بھی واپسی کی راہ لیتا ۔
           کل جب مارتھا نے ھنری سے ڈاک لی تو ایک چھوٹا سا پیکٹ ھنری کے ھاتھ میں تھما دیا۔ اس میں رنگ بھری ٹافیاں تھیں۔ ھنری کے چہرے پر مسکراھٹ بکھر گئ۔ اس نے مارتھا کا شکریہ ادا کیا ۔ ایک ٹافی منہ میں ڈال لی ۔ دونوں تھوڑی دیر کھڑے رھے اور اس کے بعد مارتھا چلی گئ۔
          آج ھنری  بہت خوش لگ رھا تھا۔ ٹافیاں منہ میں رکھتے وقت  با ر بارمارتھا کا چہرہ اس کی نگاھوں کے سامنے پھر جاتا۔ شام کو وہ باھر نکلا اور سمندر کے کنارے پتھروں پہ چلنا شروع کر دیا۔ اس کی نگاھیں زمین پر جمی ھوئیں تھیں۔ اسے کسی ایسی چیز کی تلاش تھی جو وہ اگلے روز مارتھا کو دیتا۔ اس نے کئ پتھروں کو اٹھا کر بغور دیکھا۔ لیکن کوئ بھی اسے پسند نہیں آ رھا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مارتھا کو ایسا ھی کوئ خوبصورت پتھر دینا چاھیے۔ جیسی خوبصورت وہ خود تھی۔ نیلی آنکھوں والی مارتھا شائید ھنری کے بوڑھے دل کو گد گدانے لگی تھی ۔ تلاش کرتے کرتے ھنری کو ایک گول سفید رنگ کا پتھر نظر آگیا۔ ھنری نے محسوس کیا کہ یہ پتھر مارتھا کو دینے کے لیۓ مناسب ھے۔ھنری نے پتھر اٹھا کر جیب میں ڈال لیا ۔ اور سرشاری کی ایک کیفیت میں واپس اپنے کیبن میں آگیا۔
           دوسری صبح ھنری  جاگا  اور جانے کی تیاری شروع کر دی ۔ آج دینے کیلیۓ کوئ ڈاک نہ تھی۔ لیکن ھنری کو تو جانا ھی تھا۔ وہ اپنی کشتی کھیتا ھوا دوسرے کنارے تک پھنچا اور چلتا ھوا اپنی جگہ پہنچ گیا۔ سفید پتھر اس کی جیب میں تھا۔ اس نے پتھر کو نکال کر دیکھا اور پھر جیب میں ڈال لیا ۔ اس پر خوشی اور مسرت کی کیفیت طاری تھی ۔ اس کے بال ھوا میں لہرا رہے تھے۔ اس نے پرانا سا  اوور  کوٹ پہن رکھا تھا اور گلے میں مفلر لپیٹ رکھا تھا ۔ دھوپ کے باجود ھوا میں خنکی تھی ۔ پھر پہاڑی کی اوٹ سے مارتھا کی سائیکل نمودار ھوئ ۔ آہستہ آہستہ سائیکل قریب پہنچی ۔ مارتھا نے   سایکل روکی اور نیچے اتر کر ھنری کے پاس آئ۔
"""کیسے ھو ھنری ۔ لاؤ مجھے ڈاک دے دو"  ھنری بولا"" آج جزیرے سے کوئ ڈاک نہیں ھے ۔کیا تم کوئ خط لائ ھو مارتھا""""""
"""""ھاں آج ایک خط ھے جو تمھارے نام ھے ""
مارتھا نے خط ھنری کے ھاتھ میں تھما دیا۔ ھنری نے وہیں کھڑے کھڑے خط کھولا اور پڑھنا شروع کر دیا۔خط دو لائینوں پر مشتمل تھا۔ خط میں معلوم نہیں ایسی کیا بات لکھی تھی کہ پڑھتے ھی ھنری کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ مارتھا نے محسوس کیا کہ کوئ اچھی خبر نہیں ھے۔۔۔اس کے پوچھنے پر ھنری نے بتایا"""
"حکومت نے جزیرے کے لیۓ ڈاک سروس بند کر دی ھے ۔ اور لکھا ھے کہ  بطور پوسٹ مین ھنری کی خدمات کی مزید ضرورت اب نہیں رہی۔""
مارتھا تھوڑی دیر تک گم صم کھڑی رہی۔ھنری بھی خاموش کھڑا رہا۔مارتھا کو سمجھ نہیں آرھی تھی کہ وہ کیا بولے۔۔چند لمحوں بعد وہ آہستہ سے اپنی سائیکل کی طرف بڑھی اور سر جھکاۓ  ھاتھ سے کھینچتی ھوئ سڑک پر آگے بڑھ گئ۔ ھنری کے قریب سے گزرتے ھوۓ اس نے دیکھا ۔ ھنری کی آنکھوں میں ھلکی سی نمی آگئ تھی۔ مارتھا نے سر جھکا کر اس کا کاندھا تھپتھپایا اور آہستگی سے آگۓ بڑھ گئ۔۔ھنری اسے جاتا ھوا دیکھتا رہا ۔ جب مارتھا نظروں سے اوجھل ھو گئ تو ھنری بھی جزیرے کی جانب کشتی پر لوٹنے لگا۔ آج اس سے چپو نہیں چلاۓ جا رھے تھے۔ اس کی نظریں دور پہاڑوں پر جمی ھوئ تھیں ۔ اور دونوں ھاتھ الٹے سیدھے چپو چلانے میں مصروف تھے۔ اسے یک لخت ھی دنیا ایک ویران اور ڈراونی  سی لگنے لگی تھی ۔ اس کا دل ایک سخت پتھر کی طرح ھو گیا ۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کا دل دھڑکنا چھوڑ دے گا۔ اس کا جھریوں سے اٹا ھوا چہرہ تن گیا تھا ۔ اور آنکھیں پتھرا سی گئ تھیں ۔ اسے اب جا کر علم ھوا کہ مارتھا کے ساتھ روزانہ چند لمحوں کا تعلق کس قدر گہرا تھا ۔ اس نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ منہ ھی منہ میں بڑ بڑا رھا تھا
       "" ۔  بوڑھے ! اس عمر میں ایسی باتیں اچھی نہیں ھیں۔ اور مارتھا کے ساتھ اس کا تعلق بہت مختصر رھا ھے ۔ اس لیۓ اب اگر اس سے ملنا بند ھو چکا تو اس پر زیادہ پریشان ھونا ٹھیک نہیں۔ ۔ اور پھر شائید مارتھا کو بھی معلوم نہیں ھو گا کہ میں اس کے بارے میں کن خیالات میں مبتلا ھو چکا ھوں۔""
بوڑھا ھنری خیالوں میں الجھا ھوا کنارے تک پہنچ آیا۔ اپنے قدم گھیسٹتے ھوۓ وہ کیبن تک پھنچا ۔ ایک چوڑے سے لکڑی کے تختے پر اس نے لکھا ۔""  آئیندہ ڈاک سروسز بند ھو گئ ھے"" تختے کو لکڑی سے باندھ گھر کے باھر نصب کر دیا ۔
      واپس کیبن میں آیا۔ اور بے جان سا ھو کر بستر پر گر گیا۔ اس میں ھلنے جلنے کی طاقت ختم ھو چکی تھی۔ ھاتھ پاؤں ساکت تھے۔ صرف سانس چل رہی تھی ۔ اور دل دھڑک رہا تھا۔ اس کی دھڑکن ڈوب رہی تھی ۔ اس نظریں کھڑکی کے شیشے پر چپک گئ تھیں۔ باھر سمندری بگلوں کی کیں کیں کی آوازیں آ رہی تھی ۔ اس کے کان یہ آوازیں سن رھے تھے۔ لیکن وہ چپ چاپ لیٹا رھا۔ اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ کھڑکی کے پاس جاتا اور سمندر سے لطف اندوز ھو سکتا۔
  صبح جزیرے والے جب ڈاک دینے آۓ تو انھوں نے دیکھا کہ ڈاک خانہ بند ھونے کا بورڈ لگا ھوا ھے ۔ اور ھنری بھی کہیں نظر نہیں آ رھا۔ انھوں نے کیبن میں جاکر ھنری کو دیکھنے کا فیصلہ کیا ۔ کیبن میں پہنچے تو ان کی آنکھیں حیرت اور خوف سے چھپکنا بھول گئیں۔ ھنری کا جسم اوندھا پڑا تھا اور وہ مر چکا تھا۔ لوگوں نے اس کا جسم سیدھا کیا۔  اس کے پاوں سے جوتے اتارے ۔ اسکی آنکھوں اور کھلے ھوۓ منہ کو بند کیا۔ اسکی ایک  مٹھی زور سے بھنچی ھوئ تھی ۔ ایک آدمی نے زور لگا کر اسکی مٹھی کھولی ۔ لوگوں نے دیکھا کہ بوڑھے ھنری کی مٹھی کھلتے ھی ایک سفید رنگ کا گول سا پتھر مٹھی سے نکل کر زمین پر گر گیا تھا۔۔۔۔
The End

Friday, 4 May 2018

صوبیدار خدا داد خان۔۔۔آف ڈب ضلع چکوال


                                                   صوبیدار خدا داد خان۔۔۔آف ڈب ضلع چکوال   



تحقیق وتحریر= راجہ ابرار حسین عاجز

اگر ھم اسلام آباد سے لاھور کی طرف موٹر وے پر سفر کر رہے ھوں تو بلکسر انٹر چینج کے بلکل ساتھ ھماری نظر ایک بورڈ پر پڑتی ھے۔۔۔۔اس بورڈ پر لکھاھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
well come to Dabb
village of Subedaar Khuda dad khan
The first muslim receipient of victoria cross
22 km
                 یہ صوبیدار خدا داد خان کا ھلکا سا تعارف ھے۔۔۔جن کو برطانیہ کی طرف سے پہلی جنگ عظیم میں بہادری کا کارنامہ دکھانے پر وکٹوریہ کراس دیا گیا۔۔۔وکٹوریہ کراس   برطانیہ کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ھے۔۔
           خدا داد خان 20 اکتوبر 1888 میں چکوال کے ایک گاؤں ڈب میں پیدا ھوا۔۔اس کا تعلق ایک راجپوت گھرانے سے تھا۔ فوج میں  سپاھی بھرتی ھونے پر  خدا داد خان کو جس بٹالین میں بھیجا گیا اس کا نام تھا
129 Duke of Connaught's Own Baluchis, British Indian Army
آج کل پاکستان میں اس بٹالین کو
11th Battalion۔۔ The Baloch Regiment of Pakistan Army
کہا جاتا ھے۔
                 خدا داد خان کے فوج میں جانے کے کچھ عرصہ بعد پہلی جنگ عظیم چھڑ گئ۔۔پہلے پہل یہ جنگ ۔۔۔۔آسٹریا ھنگری اور سربیا کے درمیان تھی ۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں 32 ملک شامل ھو گۓ۔ ایک طرف اتحادی فوجیں تھیں جن میں برطانیہ فرانس اٹلی امریکہ اور روس کی افواج تھیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں جرمنی بلغاریہ۔آسٹریا۔ھنگری اور خلافت عثمانیہ کی افواج تھیں
              1914 میں شروع ھونے والی اس  عالمی جنگ میں حصہ لینے کیلۓ خدا داد خان کی بٹالین فرانس پہنچ گئ۔۔خدا داد خان اس وقت ایک سپاہی اور مشین گن آپریٹر تھا۔جرمن فوجیں بیلجیم اور فرانس کی طرف پیشقدمی کر رہی تھیں۔۔جرمن چاھتے تھے کہ وہ فرانس اور بیلجیم کی دو اہم بندر گاہوں پر قبضہ کر لیں۔ یہ فرانس کی بندر گاہ Boulogne
اور بیلجیم کی بندر گاہ Nieuport تھی۔ ان بندر گاہوں پر قبضے کیلۓ جو جنگ لڑی گئ اس کو
                                    ۔ First battle of Ypres کہا جاتا ھے۔ برطانوی د ستے اس محاذ پر شدید دباؤ کا شکار تھے۔۔129 بلوچ رجمنٹ کو فوری طور اس جنگ میں بھیج دیا گیا-  Gheluvelt
 نامی گاوں کے قریب   Hollebeke سیکٹر میں جرمن دستوں اور بلوچ رجمنٹ کی دو کمپنیوں کا آمنا سامنا ھوا۔
         بلوچ بڑی بہادری سے لڑے۔ اس فوج میں مشین گنوں کے دو گروپ تھے۔۔۔جو مسلسل فائرنگ کر رھے تھے ایک گروپ میں سپاھی خدا دادخان تھا۔۔جرمنوں نے اپنا  پورا زور اس جنگ میں لگا ڈالا۔۔شدید گولا باری سے بلوچ رجمنٹ کے زیادہ تر سپاھی مر گۓ یا شدید زخمی ھوگۓ۔۔بلوچوں کی ایک مشن گن توپ کا گولا لگنے سے خاموش ھو گئ ۔ وہاں تمام سپاھی مر چکے تھے۔۔۔۔لیکن دوسری مشن گن سے مسلسل فائرنگ جاری تھی۔۔
  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔      یہ خدا داد خان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
              اس کے تمام ساتھی مر چکے تھے اور    خدا  داد خان بھی شدید زخمی ھو چکا تھا۔لیکن اس نے فایرنگ جاری رکھی ۔۔۔۔اور اکیلا جرمن فوج کے سامنے ڈٹا رہا۔
      اب رات ھو چکی تھی اور دوسری مشین گن بھی خاموش ھوگئ۔۔۔جرمن فوج نے سمجھ لیا کہ یہ سپاہی بھی مر چکا ھے۔۔۔۔مگر خدا داد خان زندہ تھا۔وہ رینگتا ھوا پیچھے موجود اپنی رجمنٹ میں پہنچ گیا۔۔۔۔
              پورا دن جرمن فوج آگے نہ بڑھ پائ تھی۔جس کا نقصان ان کو یہ ھوا۔کہ برطانیہ اور ھندوستان کی تازہ دم فوج اس محاذ پر پہنچنے میں کامیاب ھو گئ۔
          خدا داد خان کو انگلینڈ بھیج دیا گیا ۔اور وہ تین ماہ ھسپتال میں زیر علاج رہا۔جنگ کے اختتام پر برطانیہ کے بادشاہ  جارج پنجم  نے سپاہی خدا داد خان کو وکٹوریہ کراس کے اعزاز سے نوازا۔۔۔وکٹوریہ کراس انگلینڈ کا سب سے بڑا فوجی نشان ھے۔جو اس فوجی کو دیا جاتا ھے جس نے بہادری کا حیرت انگیز کارنامہ سر انجام دیا ھو۔۔۔خدا داد خان برصغیر کا پہلا سپاہی تھا جس کو یہ اعزاز دیا گیا۔
  خدا داد خان فوج سے بطور صوبیدار ریٹائر ھوا۔۔۔فوج کی طرف سے اس کو منڈی بہاالدین میں زمین الاٹ کی گئ۔۔۔۔1971 میں صوبیدار خدا داد خان انتقال کر گیا۔۔۔۔اس کا اعزاز وکٹوریہ کراس اس کے آبائ گاوں ڈب ضلع چکوال میں اس کے گھر میں رکھا ھے۔ آرمی میوزیم راولپنڈی میں خداد داد خان کا مجسمہ نصب ھے۔۔1916 میں خدا دادخان پر ایک ڈرامہwipers  بھی بنایا گیا
ھائیڈ پارک لندن کے میموریل گیٹ پر خدا داد خان کا نام کندہ کیا گیا ھے۔
اس کے علاوہ خدا داد خان کو مندرجہ ذیل فوجی اعزازات بھی ملے۔

1- 1914 Star + clasp "5th Aug - 22nd Nov

2- 1914"British War Medal

3- ( 1914-19 )Victory Medal

 4- 1914-20 )India General Service Medal

5 - ( 1908-1935 )1 clasp:"Afghanistan NWF 1919"General Service Medal  

6-1918-1962 )1 clasp:"Iraq"

7-King George V Silver Jubilee Medal ( 1935 )

8-King George VI Coronation Medal(1937 )

9- Queen Elizabeth II Coronation Medal

Thursday, 29 March 2018

k2 the savage mountain ....قاتل پہاڑ

                                                            قاتل پہاڑ   K-2      

1-اگست 2008 کو    کے -ٹو چوٹی کو سر کرتے ھوۓ کوہ پیمائ کی تاریخ  کا سب المناک حادثہ رونما ھوا۔یہ اسی کی روداد ھے۔ 
                 
                     کے ٹو k-2 دنیا کی دوسری بڑی پہاڑی چوٹی ھے۔یہ پاکستان کے شمالی  علاقوں کے پہاڑی سلسلے   کوہ قراقرم میں واقع ھے۔اسکی بلندی 8611 میڑ ھے۔۔
                       کوہ پیماؤں کا کہنا ھے کہ ماونٹ ایورسٹ کے مقابلے میں کے ٹو پہاڑ  پر چڑھنا اور اسے سر کرنا زیادہ مشکل ھے۔  کے ٹو کو پہاڑوں کا پہاڑ ۔ یا کبھی وحشی پہاڑ   savage mountain بھی کہتے ھیں۔۔۔ ماونٹ ایورسٹ کو آج تک لگ بھگ تین ھزار بار سر کیا جا چکا ھے۔اس کے مقابلے میں کے ٹو کو تین سو بار سر کیا گیا ھے۔۔
                         کے ٹو کو ایک انگریز  جغرافیہ دان  Godwin Austen نے دریافت کیا۔لہذا اس  انگریز کے نام پر اس چوٹی  کا نام Godwin Austen رکھا گیا۔۔مگر یہ کے ٹو کے نام سے ھی مشہور ھے۔ کے ٹو پر چڑھنے کی بے شمار کوششیں ھوئ مگر پہلی بار یہ 31 جولائ 1954 میں سر ھوئ۔ ایک اطالوی کوہ پیماؤں کا گروپ اس پر چڑھنے میں کامیاب ھوا۔ جس میں ایک پاکستانی کرنل محمد عطااللہ بھی شامل تھے۔ .اگرچہ کرنل چوٹی پر نہ پہنچ سکا۔
                 ❤❤❤   کے ٹو پہاڑ  کے سب سے مشکل حصے کو بوتل نیک (bottle neck)   کہتے ھیں۔ یہ ایک سیدھی چڑھائ ھے۔ جو ھر وقت برف سے ڈھکی رھتی ھے۔یہاں برف کے بڑے بڑے تودے گرتے رہتے ھیں اور طوفانی ھوائیں چلتی ھیں جو برف کے تودوں کو لڑھکاتی رہتی ھیں۔۔انھیں avalaches کہتے ھیں۔ اگر کوئ کوہ پیما ان کی زد میں آ جاۓ تو وہ سیکنڑوں فٹ گہری کھائ میں جا گرتا ھے ۔اور پھر ھمیشہ کیلیۓ برف کے نیچے دفن ھو جاتا ھے۔
                       کےٹو پر چڑھنے کےلیۓ معتدل موسم کا انتظار کیا جاتا ھے۔عموماً جون تا اگست کے دوران موسم ٹھیک ھوتا ھے۔   کے ٹو پر ھونے والے حادثات میں سب سے خطرناک حادثہ 1 اگست 2008 کو ھوا ۔اس میں 11 کوہ پیما اپنی جان کی بازی ھار گۓ۔
              چوٹی پر کوہ پیمائ کرنے کیلیۓ جس مقام سے آغاز کیا جاتا ھے اُسے بیس کیمپ Base camp کہتے ھیں۔ اسی طرح مختلف فاصلوں پر بھی کیمپ لگاۓ جاتے ھیں۔۔ان کیمپوں میں کوہ پیما آرام کرتے ھیں۔۔۔تھکاؤٹ دور کرتے ھیں۔اور مہم کے اگلے حصے کے لیۓ خود کو تیار کرتے ھیں۔
 جولائ 2008  کے اختتام تک کوہ پیماؤں کے کچھ گروپ کیمپ فور پر اکھٹے ھو گۓ۔اس گروپ میں ایک امریکن ٹیم۔ ایک فرانسیسی ٹیم۔ ایک نارویجیئن ٹیم۔ایک سربیئن ٹیم  اور ایک کورین ٹیم کے کوہ پیما شامل تھے۔ تین آزاد کوہ پیما بھی اس سارے گروپ میں شامل تھے۔۔۔ان میں دو میاں بیوی بھی تھے۔ دو پاکستانی پورٹر جہان بیگ اور کریم مہربان بھی اس مہم میں حصہ لے رہے تھے۔ جو     کے ٹو اور دوسری بلند چوٹیوں پر چڑھنے کی مہارت رکھتے تھے۔
              جمعہ1- اگست 2008 کو مہم شروع ھوئ

                  کوہ پیماؤں نے اپنے مددگار شرپاؤں( Sherpas) کے ساتھ ملکر پہاڑ پر چڑھنے کیلیۓ رسیاں لگانی شروع کر دیں۔ چٹان کے اندر مخصوص قسم کے ھُک اور سکریو گاڑے جاتے ھیں۔رسیاں ان ہکُوں میں پھنسائ جاتی ھیں اور ان کے سہارے اوپر بڑھا جاتا ھے۔
              ایک سپینی کوہ پیماہ Alberto zerain بھی اس دوران  اُن سے آن ملا ۔ ایک پاکستانی پورٹر۔ شاہین بیگ۔  جو سربیا کی ٹیم کے ھمراہ تھا ۔وہ اچانک بیمار ھو گیا اور بیس کیمپ میں  واپس آگیا۔ وہ شاید بخار میں مبتلا تھا-   ایک بہت بڑی غلطی یہ ھوئ کہ  رسیاں ختم ھوگئ تھیں اور  ۔bottle neck تک رسیاں نہ باندھی جا سکیں۔ حالانکہ یہ چوٹی کا سب سے خطرناک حصہ ھے اور یہاں حفاظتی  رسوں کے بغیر چڑھنا بہت مشکل ھوتا ھے۔
                ان حالات میں سے گزرتے ھوۓ کوہ پیماؤں نے چوٹی کی جانب چڑھنا شروع کر دیا۔ انکی رفتار سست تھی۔کیونکہ بہت بڑی تعداد اس معرکے میں حصہ لے رہی تھی۔ لگ بھگ چوبیس کوہ پیما بیک وقت رسیوں کو تھامے چل رہے تھے۔  کسی ایک کو بھی کوئ مسلہ ھوتا تو سبھی کو رکنا پڑتا تھا۔یہ ایک تکلیف دہ مرحلہ تھا۔۔بہت سارے کوہ پیماؤں پر بیزاریت اور تھکاوٹ طاری ھونے لگی۔
                   
               ایک سربئین کوہ پیما Dren mendic نے اپنا سیفٹی کلپ حفاظتی رسے سے الگ کر دیا۔ وہ شائد نارویجئین ٹیم کو راستہ دینا چاھتا تھا۔ یہ اس کی ایک  بھیانک غلطی تھی ۔نیچیے مہیب چٹانیں منہ کھولے کھڑی تھیں۔اس کا  پاؤں  پھسلا اور وہ پہاڑ سے نیچے لڑھکنے  لگا۔اس کا بچنا ناممکن تھا۔ تقریباً  سو میڑ نیچے پہنچنے کے بعد اس کا جسم کسی چٹان سے لگ کر رک گیا۔۔۔۔کوہ پیماؤں کا کہنا تھا کہ اس کے جسم میں حرکت نظر آ رہی تھی۔ کچھ آدمیوں کو نیچے بھیجا گیا مگر معلوم ھوا کہ وہ مر چکا ھے۔ اس کے جسم کو کیمپ میں پہنچانے کا فیصلہ ھوا۔ایک  پاکستانی پورٹر جہان  بیگ بھی اس ریسکیو آپریشن میں شامل تھا
برف سے ڈھکی ھوئ برفانی چوٹی پر کسی دوسرے  زخمی کوہ پیما کو ریسکیو کرنا اور زخمی کو بیس کیمپ تک پہنچانا بہت مشکل کام ھوتا ھے۔۔برفانی ڈھلوانوں پر چپکے ھوۓ کوہ پیما اپنے آپ کو بڑے مشکل سے بیلنس رکھ پاتے ھیں۔
 یہاں بھی یہی ھوا۔۔ نیچے اترتے ھوۓ اچانک جہان بیگ  اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ اور وہ پہاڑی ڈھلوان پر گہری کھائ  کی طرف لڑھکنے لگا۔۔اس نے سنھبلنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ھو سکا۔ آن کی آن میں اس کا جسم گہری کھائ میں غائیب ھو گیا۔  یہ دوسری موت تھی جو اس دن کے ٹو پر ھوئ۔
             اوپر موجود کوہ پیماؤں نے  چوٹی کی طرف بڑھنا جاری رکھا۔۔مگر وہ بہت لیٹ ھو چکے تھے۔ رات ھو چکی تھی اور کے ٹو پر ایک مہیب اندھیرے کی چادر تن چکی تھی۔درجہ حرارت گر چکا تھا۔۔۔سردی کی وجہ سے خون رگوں میں جمتا ھوا محسوس ھو رہا تھا۔اس پر مزید ستم یہ کہ ایک ٹریفک جام کا منظر تھا۔
                         پہلا کوہ پیما جو چوٹی پر پہنچا وہ  Alberto Zerain تھا۔نارویجئن ٹیم کے دو کوہ پیما شام پانچ بجے کے قریب چوٹی پر پہنچے۔ڈچ ٹیم بھی چوٹی پر شام سات بجے کے قریب پہنچ گئ۔ کل ملا کر تقریباً 18 کوہ پیما چوٹی پر پہنچے۔
                      اب  نیچے اترنا تھا۔۔جب کوہ پیما بوتل نک  Bottle Neck کے پاس پہنچے تو  ایک کوہ پیما پھسلا اور برف میں انھدیروں میں غائیب ھو گیا۔۔وہ رالف با ۓ Rolf Bae تھا۔۔جو اپنی بیوی  Cecile Skog کے ساتھ چوٹی فتع کرنے کے بعد واپس آ رہا تھا۔
                    گرتی ھوئ برف نے رسوں کو توڑ پھوڑ دیا تھا۔واپسی ایک بہت مشکل مرحلہ ثابت ھو رہی تھی۔ Skog اپنی ٹیم کے ساتھ کیمپ فور میں پہنچ گئ۔لیکن بارہ کے قریب کوہ پیماہ ابھی بھی Death Zone  میں رسیوں میں جکڑے ھوۓ موجود تھے۔  درجہ حرارت منفی 40  ڈگری تک گر چکا تھا۔ اور ھوا میں آکسیجن کی مقدار خطرناک حد تک کم ھو چکی تھی۔سانس لینا بہت مشکل ثابت ھو رہا تھا۔
رسیوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت سارے کوہ پیما اپنا راستہ گم کر چکے تھے۔۔وہ نیچے تو آ رہے تھے مگر انھیں معلوم نہ تھا کہ کدھر کو جا رہے ہیں۔وہ بس اندھاد ھند نیچے اتر رہے تھے۔
اس شدید خطرناک صورتحال میں تین کوہ پیماؤں نے فیصلہ کیا کہ اب رک کر صبح کا انتظار کیا جاۓ۔یہ Van Rooijin ,  Confortola  ,  McDonnell  تھے۔
دوسری صبح جب وہ نیچے اتر رہے تھے ۔انھوں نے کورئین کوہ پیماؤں   کو رسیوں میں جکڑا ھوا دیکھا جو بھت بری حالت میں تھے ۔ وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رھے تھے۔Confortola اور McDonnell نے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔مگر دو گھنٹے کی جدو جہد کے بعد بھی ان کو آزاد نہ کرا سکے۔McDonnell نے ان کو چھوڑا اور نیچے اترنے لگا۔ وہ کچھ بیمار بھی لگ رہا تھا۔۔وہ اونچائ پر ھونے والے بخار میں مبتلا ھو چکا تھا۔۔وہ خود نہ سمجھ پایا کہ وہ کیا کر رہا ھے۔ مگر وہ کبھی کیمپ 4 تک نہ  پہنچ سکا ۔خیال یہ ھے کہ راستے میں کسی برفانے تودے کی زد میں آ کر وہ اپنی جان گنوا بیٹھا۔                confortola بھی نیچے اترتے ھوۓ راستے میں پھنس گیا ۔اس کی خوش قسمتی تھی کہ کیمپ میں موجود ایک پورٹر Pemba  نے اسے دیکھ لیا اور اسکی جان بچا لی۔ پھنسے ھۓ کورین کوہ پیما نہ بچ سکے۔۔Pemba نے ایک بار پھر بہادری کا مظاھرہ کیا اور Death زون میں موجود Rooijin کو بھی بحفاظت کیمپ 4  تک لے آیا۔۔وہاں سے پاکستان آرمی کے ھیلی کاپڑ کے ذریعے ان دونوں کو نیچے اتار لیا گیا۔…
   Pemba                       کو اسکی بہادری کی بنا پر ایک ہیرو کا اعزاز دیا گیا۔  ایک پاکستانی پورٹر مہربان کریم بھی اس مہم اپنی جان گنوا بیٹھا۔۔اسکی لاش کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ کل گیارہ کوہ پیماہ اس مہم میں مارے گۓ۔اس حادثے کو   کےٹو  پر ھونے والا سب سے ھلاکت خیز حادثہ کہا جاتا ھے

Tuesday, 13 March 2018

پیپل کا درخت ---- ---- Sacred fig


تحریر!!!!! راجہ ابرار عاجز
🌴🌴 پیپل کا درخت 🌴🌴
وہ پیپل کا بہت پرانا اور بوڑھا درخت تھا۔ایک بڑے سے کچے تالاب کے کنارے وہ درخت دور ایسے دکھای دیتا جیسے پانی کے اوپر چھتری سی تنی ھوی ھے۔۔۔گھنی شاخیں۔۔ چاروں طرف پھیلی ھوئ تھیں۔۔خوبصورت پتے اور اس پر بیٹھے طرح طرح کے پرندے۔۔۔۔۔ اپنی اپنی بولیاں بولتے۔۔
ھوا چلتی ْْْ تو پتوں سے یوں سرسرا کر گزرتی ۔معلوم ھوتاــ جیسے بوڑھے پیپل سے سرگوشیاں کر رہی ھے۔۔پھل آنے کے موسم میں پورا درخت گول گول سرخ رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھلوں سے لد جاتا۔
درخت کے قریب ھی ایک سڑک گزرتی ھے۔۔پاس والے گاؤں کے بچے سکول سے چھٹی کر کے آتے اور اس کی گھنی چھاؤں کے نیچے کچھ پل کے لیۓ سستاتے۔۔۔کچھ منچلے اس کی شاخوں سے پھل توڑتے ۔۔تالاب کا ٹھنڈا پانی پیتے اور پھر گاؤں کی طرف چل دیتے۔۔درخت بھی بچوں کو دیکھ کر مسرور ھوتا۔
پیپل کے اس درخت کے نیچے کسی نے کچھ چوڑے پتھر رکھ دیۓ تھے۔۔امتداد زمانہ سے وہ پتھر گھس گھس کر خوبصورت سلوں کی شکل اختیار کر گۓ تھے۔۔۔لوگ وہاں بیٹھتے اور اپنی تھکن اتارتے۔۔۔
کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ پیپل کتنا پرانا ھے۔۔لوگ اس کو ہمیشہ سے اسی طرح ھرا بھرا اور پھلتا پھولتا دیکھتے چلے آ رہے تھے۔۔اس کے نیچے پھیلی ھوی پانی کی بَن کا نام بھی پیپل والی بَن پڑ گیا تھا۔۔
پیپل کے قریب ہھی کچھ لوگوں نے اپنے ڈیرے بھی بنا لیۓ تھے۔۔وہ خود بھی اس بن کا پانی پیتے اور اردگرد کے گھروں سے آنے والے مویشی بھی اسی بن سے پانی پیتے۔۔
پھر یوں ھوا کہ کسی نے اس پانی کے تالاب کو گہرا کرانے کا سوچا۔۔۔تالاب گہرا کرا دیا گیا۔۔
مگر اب اس کا پانی جلدی سوکھ جاتا۔۔
سکول کے بچوں نے بھی پیپل کے نیچے بیٹھنا چھوڑ دیا۔۔اب وہ گاڑیوں پر سکول آنے جانے لگے۔۔پاس کے گھروں میں پانی کیلیۓ بورنگ ھو گئ۔۔
درخت مرجھانے لگا۔۔اس کے بڑے بڑے ٹہنے ایسے سوکھے کہ دوبارہ پھر ھرے نہ ھوۓ۔۔۔
۔۔کچھ عرصے تک ایک ٹنڈ مُنڈ سا ڈھانچہ کھڑا رہا ۔اور بدلتے ھوۓ زمانے اور لوگوں کے بدلتے ھوۓ چال چلن کو دیکھتا رہا۔۔۔اور پھر زمین بوس ھو گیا
اب وہاں نہ پیپل ھے اور نہ پیپل والی بَن۔۔۔۔بس ایک اجڑا ھوا۔۔۔۔ پتھروں اور مٹی سے اٹا ۔۔۔ویرانہ موجود ھے۔۔۔۔

Image result for Sacred fig

Tuesday, 26 December 2017

خانہ بدوش :: مصنف اجیت کور

خانہ بدوش  :: مصنف اجیت کور


This is an autobiography of Ajeet Kor  

translated in urdu by Wahaj Ud Din Ahmed

Download in pdf here


Read more

                                    

       ببول کا درخت                                                   cancer ward




Tuesday, 28 November 2017

افسانہ : سُرخ لباس --- تحریر: ایلس منرو --کینیڈا ---مترجم: حمزہ حسن شیخ

Read online 
Original Title: Red dress (Published in 1946)

Alice Munro (born 10 July 1931)
a Canadian short story writer who won the Nobel Prize in Literature in 2013.
افسانہ  : سُرخ لباس
تحریر: ایلس منرو --کینیڈا
مترجم: حمزہ حسن شیخ -اسلام آباد، پاکستان
**************************************
میری ماں میرے لیے، نومبر کے پورے مہینے میں ایک لباس بناتی رہی تھی۔ مَیں سکول سے آتی تو وہ کچن میں کام کررہی ہوتی اور اس کے اردگرد کٹے ہوئے سرخ ریشمی کپڑے کے ٹکڑے اور ٹشوپیپر کے بنے ہوئے نمونے پڑے ہوتے۔ وہ کھڑکی کی روشنی میں اپنی پرانی سینے والی مشین رکھ کر کام کرتی اور ساتھ ساتھ باہر بھی دیکھتی رہتی کہ ہرے بھرے کھیتوں اور سبزیوں کے باغات کے ساتھ والی سڑک سے کون کون گذرا ہے۔ وہاں سے کبھی کبھار ہی کوئی گذرتاتھا۔
سُرخ مخملی کپڑے کے ساتھ کام کرنا کوئی آسان نہ تھا کیونکہ یہ باربار کھینچ جاتااور میری ماں نے اس لباس کے لیے جو ڈیزائن منتخب کیاتھا،وہ انتہائی مشکل تھا۔ اس کے علاوہ وہ اچھا سینے پرونے والی عورت نہ تھی۔ ہاں یہ اور بات تھی کہ وہ چیزیں بناناپسندکرتی تھی۔ جب کبھی بھی اُسے موقع ملتا وہ بخیہ گری اور استری کرنے سے جان چھڑانے کی کوشش کرتی اور اُس نے کبھی بھی اچھے سلیقے سے سینے، بٹن ٹانکنے اور لباس کے جوڑ گانٹھنے میں فخر محسوس نہیں کیاتھا جس طرح کہ میری پھوپو اور دادی محسوس کرتی تھیں۔ اُن کے برعکس، وہ ایک جذبے کے ساتھ کام شروع کرتی۔ ایک خوبصورت اور چونکا دینے والے خیال کے ساتھ اور اُس لمحے کے بعد، اُس کا جذبہ کم ہونا شروع ہوجاتا۔ پہلی بار تو وہ کوئی ڈیزائن ہی پسندنہ کرپاتی۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں، کوئی ڈیزائن ایسا تھا ہی نہیں جو اُس کے ذہن میں گردش کرتے خیالات سے مطابقت رکھتا۔ جب میں چھوٹی تھی تو اُس نے کئی بار میرے لیے کپڑے بنائے تھے، ایک پھول دار لباس جس کے گلے پٹی پر اچھی خوبصورت وکٹورین لیس کھُردرے انداز میں لگی تھی، ایک تھیلا نما ٹوپی، ایک شاندار اسکاٹش قمیص جس کے ساتھ مخمل کی جیکٹ اور ٹوپی تھی اور ان کے علاوہ ایک کشید والا کسانی لباس جس کے ساتھ سُرخ رنگ کا اسکرٹ اور سیاہ لیس دار قمیص تھی۔ میں نے ان کپڑوں کو بہت شائستہ انداز میں پہنا تھااور میں دنیا کی رائے جانے بغیر ان دنوں بہت خوش تھی۔ اب چونکہ میں سمجھ دار ہوگئی تھی تو میں نے ایسے لباسوں کے لیے خواہش کرنا شروع کی جس طرح میری دوست لونئی کے تھے جو اُس نے بیلے کے اسٹور سے خریدے تھے۔میں نے بھی وہ کئی بار پہنے تھے۔ کبھی کبھار لونئی اسکول سے واپسی پر میرے ساتھ میرے گھرآتی اور وہ کرسی پر بیٹھ کر مجھے دیکھتی۔ میں اُس وقت بہت پریشان ہوجاتی جب ماں میرے اردگرد چکرلگاتی، اُس کے گھٹنے چٹکتے اور اُس کی سانسیں تیز ہوجاتیں۔ وہ خود سے بڑبڑاتی رہتی۔ گھرکے اردگرد، وہ کوئی موزے یا انگیانہ پہنتی۔ وہ گھٹنوں تک جرابیں اور لمبی ہیل والے جوتے پہنتی اُس کی ٹانگیں سبزونیلی رگوں کے نشانات سے اٹی ہوئی تھیں۔ میں نے اُس کے بے شرمی سے گھٹنے اُٹھاکر بیٹھنے کے انداز کے بارے میں سوچا جو کہ مجھے بہت بے ہودہ لگا۔ میں نے لونئیے سے بولنا جاری رکھا تاکہ جتنا بھی ممکن ہو اس کی توجہ میری ماں کی جانب نہ جائے۔ لونئیایک شائستہ، قابل تعریف اور سنجیدہ انداز اپنائے بیٹھی رہی جو بڑوں کی موجودگی میں اُس کا روپ بدلنے کا مخصوص انداز تھا۔ وہ اُن پر ہنسی اور یہ ایک غصیلا تمسخراتی انداز تھا جس کا کسی کو پتہ نہ چلا۔ میری ماں نے مجھے اُٹھایا اور مجھے لطف سے بھردیا۔ اُس نے مجھے تھوڑا سا جھلایا اور پھر سیدھا کھڑا کردیا۔
’’ لونئیے تمہارااس بارے میں کیا خیال ہے؟ ‘‘
’’یہ بہت خوبصورت ہے۔‘‘ لونئیے نے اپنے مخلص اور نرم لہجے میں کہا۔ لونئیکی ماں مرچکی تھی۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ رہتی تھی جس نے اُس کی کبھی پرواہ نہ کی تھی اور اس وجہ سے وہ میرے نزدیک محترم اور قابلِ رحم تھی۔
’’ہاں یہ ہوجائے گا، اگر میں نے اس کی ناپ ٹھیک کرلی،‘‘میری ماں نے کہا،’’ہاں، اچھا۔‘‘میں نے ڈرامائی انداز میں اپنے پاؤں پر دردناک آہوں اور آوازوں کے ساتھ گھومتے ہوئے کہا۔
’’مجھے شک ہے، پتہ نہیں یہ اس کی تعریف بھی کرتی ہے یا نہیں۔‘‘اُس نے لونئیے سے بات کرتے ہوئے مجھے غصے سے گھورا، جیسے لونئیے تو ایک عورت تھی جبکہ میں صرف ایک بچی تھی۔’’سکون سے کھڑی رہو ۔‘‘ اُس نے میرے سر کے اوپر سے لباس کو کھینچتے ہوئے کہا۔میرا سر مخمل میں چھُپ گیا اور کاٹن کے پرانے یونیفارم میں چھُپا میرا جسم نمایاں ہوگیا اور مجھے اپنا آپ بہت ہی کھُردرا، ڈھیلاڈھالااور بطخ کے بھیگے بدن کی طرح محسوس ہوا۔ میں نے خواہش کی کہ میں بھی لونئیے کی طرح ہلکی پھُلکی، کمزور اور زرد سی ہوں جیسے وہ ایک نیلے رنگ کی بچی تھی
’’کسی نے بھی مجھے لباس بناکر نہیں دیاتھا جب میں ہائی سکول جارہی تھی۔‘‘میری ماں نے کہا۔
’’میں نے خود بنایاتھا اور کسی نے بھی میری مدد نہ کی۔‘‘میں ڈر گئی کہ وہ دوبارہ وہی کہانی شروع کررہی تھی کہ وہ سات میل دُور پیدل سکول جاتی تھی اور پھربورڈنگ ہاؤس کی میزوں پر بیٹھ کر نوکری کی تلاش کرتی تھی تاکہ وہ ہائی سکول جاسکے۔میری ماں کی زندگی کی ساری کہانیاں جو کبھی مجھے بہت دلچسپ معلوم ہوتی تھیں، اب مجھے صرف ڈرامائی، غیرضروری اور تھکادینے والی محسوس ہونے لگی تھیں۔
’’ایک دفعہ، مجھے ایسا لباس ملا تھا، اُس نے کہا۔’’یہ کریم کلر کا اُونی کپڑاتھا۔ جس کے سامنے والے حصے پر نیلی لائنیں نیچے کی جانب جارہی تھیں اور اس کے خوبصورت موتی نما بٹن تھے، میں حیران ہوں کہ یہ کیسے بنایاگیاتھا؟‘‘
جب ہم فارغ ہوئے تو میں اور لونئیاوپراپنے کمرے میں آگئیں۔ وہاں ٹھنڈ تھی لیکن ہم وہیں رُک گئے۔ ہم نے اپنے کلاس کے لڑکوں کے بارے میں باتیں کیں، باری باری ساری قطاروں کا جائزہ لیااور ایک دوسرے سے پوچھتی رہیں،’’کیا تم اُسے پسند کرتی ہو؟اچھا کیا تم اُسے آدھا پسند کرتی ہو؟ کیا تم اس سے نفرت کرتی ہو؟ کیا تم اس کے ساتھ باہرجاؤ گی اگر اُس نے تمہیں کہا تو؟ لیکن کسی نے ہم سے نہیں پوچھا تھا۔ ہم تیرہ سال کی تھیں اور ہم دو ماہ سے ہائی سکول جارہی تھیں۔ ہم نے مختلف رسائل کے سوالنامے بنائے تھے، یہ جاننے کے لیے کہ کیا ہم بھی شخصیت بنیں گی یا ہم بھی مشہور ہوں گی۔ ہم اپنے چہروں کو سجانے، اپنی اچھی عادات کونمایاں کرنے، اپنی پہلی ملاقات پر گفتگو شروع کرنے اور جب لڑکا دُور جانا شروع ہوتو اُس کو منانے کے بارے میں کئی مضامین پڑھتیں۔ ہم نے اور بھی بہت سے مضامین پڑھے مثلاًحیض کے بارے میں، بچہ گرانے یا یہ کہ خاوند اپنے گھر سے باہر اطمینان کیوں تلاش کرتے ہیں؟ جب ہم نے اسکول کا کام نہیں کرنا ہوتاتھا تو ہمارا زیادہ تروقت غلہ صاف اور ذخیرہ کرنے میں گذرتا اور ساتھ ساتھ ہم جنسیات کی باتیں بھی کرتی رہتیں۔ ہم نے آپس میں وعدہ لیاتھا کہ ہم ایک دوسرے کو ہر بات بتائیں گی۔ لیکن ایک بات جو میں نے نہیں بتائی تھی وہ اس ڈانس کے بارے میں تھی۔ ہائی سکول کا کرسمس ڈانس جس کے لیے میری ماں میرے لیے لباس بنا رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ میں جانا نہیں چاہتی تھی۔
ہائی سکول میں مَیں ایک منٹ کے لیے بھی آرام دہ نہ تھی۔ مجھے لونئیے کے بارے میں کوئی خبر نہ تھی۔ امتحانات سے پہلے مجھے اُس کے یخ ہاتھوں اور تیز دھڑکن کا معلوم ہواتھا لیکن مجھے ہر وقت مایوسی گھیرے رکھتی۔ جب مجھ سے کلاس میں کوئی سوال پوچھتا، بالکل ایک چھوٹااور معمولی سا سوال، تو جواباًمیری لرزتی پتلی سی چیخ نما آواز نکلتی۔ جب مجھے بلیک بورڈ کی جانب جاناہوتا تو مجھے یقین ہوتا۔اگرچہ ان مہینوں میں بھی جب کہ اس کا امکان بھی نہ ہوتاکہ قمیص پر خون لگا ہُوا ہے۔ میرے ہاتھ پسینے کی وجہ سے پھسلتے جب میں بلیک بورڈ پر پرکار سے زاویہ لگانے کی کوشش کرتی۔ میں والی بال میں بال نہ اُچھال سکتی۔ دوسروں کے سامنے کوئی کام کرنے کا کہاجاتا تو میری ساری ہمت جواب دے جاتی۔ مجھے بزنس پریکٹس سے نفرت تھی کیونکہ آپ کو ایک کھاتہ کتاب کے کئی صفحات ایک ہی قلم سے بھرنے پڑتے تھے اور جب بھی کوئی استاد میرے کندھے کے اوپر سے مجھ پر جھانکتا تو میری ساری سیدھی لائنیں خراب ہوجاتیں اور آپس میں گُڈمُڈ ہوجاتیں۔ مجھے سائنس سے بھی نفرت تھی کیونکہ ہم نازک اور ان جانے آلات کی میزوں کے پیچھے اور تیز روشنیوں کے نیچے اسٹولوں پر بیٹھے بیٹھے جھُلس جاتے اور ہمیں اسکول کا پرنسپل یہ مضمون پڑھاتا جس کی آواز بہت ہی سرد مُہر اور خودپسند قسم کی تھی۔ وہ روزانہ ہی صحیفے پڑھتااور ذلت پر سزادینے میں ماہرتھا۔ مجھے انگریزی سے نفرت تھی کیونکہ لڑکے اس کلاس میں پیچھے بیٹھ کر موسیقی بجاتے جبکہ ایک خوبصورت شریف اور مغرور سی ہلکی سی بھینگی اُستانی سب کے سامنے ورڈزورتھ پڑھتی۔ اُس نے اُن کو دھمکی دی، اُن کی منت سماجت کی، اُ س کا چہرہ سُرخ تھا اور اُس کی آواز بھی اتنی ہی کمزور اور ناقابلِ اعتبار تھی جتنی میری۔ وہ اس کی التجاؤں کا تمسخراُڑاتے اور جب وہ دوبارہ پڑھنا شروع کرتی، تو وہ اس کی عجیب و غریب نقلیں اُتارتے، قسم قسم کے منہ بناتے، اپنی آنکھوں کو بھینگا کرلیتے اور اپنے دلوں پر ہاتھ پھیراتے رہتے۔ کبھی کبھار وہ رونے لگتی۔ کوئی بھی اُس کی مدد نہ کرتا اور وہ بھاگتے ہوئے کلاس سے چلی جاتی۔ پھر لڑکے اونچی اونچی آواز میں رونے کی آوازیں نکالتے اور بلند قہقہے لگاتے۔ کبھی کبھار میرا قہقہ بھی اُس کا تعاقب کرتا۔ ایسے وقت میں کمرے میں بربریت پر رنگ رلیاں مناتا ماحول ہوتا جو مجھ جیسے کمزور اور ڈرے ہوئے لوگوں کو زیادہ ڈرادیتا۔
لیکن اسکول میں درحقیقت کیاکچھ ہورہاتھا وہ صرف بزنس پریکٹس، سائنس اور انگریزی نہ تھی۔ وہاں پر اور بھی کچھ نہ کچھ تھا جس کی چمک دمک یا اہمیت تھی۔ وہ پرانی عمارت جس کے چٹانی دیواروں کے لیس دار تہ خانے تھے، سیاہ چغابدلنے کے کمرے، گذرے ہوئے شاہوں اور کھوئے ہوئے فوجیوں کی تصاویر، جنیاتی مقابلوں کی پُرلطف اور پریشان کُن فضااور اس کے علاوہ بڑی کامیابیوں کے کھُلی آنکھوں سے دیکھے خواب اور میرے لیے وہاں اپنی شکست قبل از اطلاع موجودتھی۔ کسی چیز کا ہونا تھا جس نے مجھے اس ڈانس سے بازرکھا۔
دسمبرمیں برف باری شروع ہوگئی اور مجھے ایک خیال سوجھا۔ اس سے پہلے میں اپنے بائیسکل سے گرنے کا تصور کرچکی تھی۔ اپنا ٹخنہ ٹوٹنے کا اور میں نے اس پر قابو پانے کی کوشش کی تھی جیسے میں سخت سردی میں دوبار ہ سوار ہوکر گھر کی جانب چلی تھی۔ملک کی سڑکوں پراپنے سائیکل کے گہرے نشان چھوڑتے ہوئے۔ لیکن یہ بہت مشکل تھا۔ تاہم مجھے گلے اورحلق کی نالیاں خطرناک حد تک کمزورمحسوس ہوئیں۔میں نے راتوں کو بستر سے اُٹھنا شروع کردیا۔اوراپنی کھڑکی کو تھوڑا کھول کرمیں تھوڑا سا نیچے جھکتی اور ہوا کو اندرآنے دیتی جس کے ساتھ کبھی کبھار برف بھی چمٹی ہوتی جو کہ میرے ننگے گلے پر حملہ آورہوتی۔ میں اپنے پاجامے کا اوپری حصہ ہٹادیتی اور خودکو یہ الفاظ کہتی۔’’سردی سے نیلا‘‘اور میں جیسے ہی وہاں پر جھکتی، میری آنکھیں بندہوجاتیں، مجھے اپنا سینہ اور گلا نیلااور ٹھنڈاہوتامحسوس ہوتا جس کے نیچے گھوری نیلی رگوں کا جال جلدمیں چھُپاہوتا۔ میں اتنی دیر وہاں پر ٹھہری رہتی جب تک مجھ میں سکت ہوتی۔ اور پھرمیں کھڑکی کی دہلیز سے مٹھی بھر برف اُٹھاتی ا ور اس کو اپنے سینے پر ڈال دیتی ، اپنے پاجامے کے بٹن بند کرنے سے پہلے۔ یہ فلالین کے کپڑے کی گرمی سے پگھل جاتی اور میں ساری رات بھیگے کپڑوں میں ہی سوئی رہتی جو کہ سب سے خطرناک اور بدترین بات تھی۔ صبح کو جیسے ہی میں جاگتی، میں اپنا گلہ صاف کرتی کہ کہیں یہ سوجھا ہوا تو نہیں ، یہ دیکھنے کے لیے کھانستی، یہ امید کرتے ہوئے اپنی پیشانی پر ہاتھ لگاتی کہ مجھے بخار تو نہیں۔ یہ بالکل ٹھیک نہ تھا۔ ہرصبح ڈانس کے دن بشمول، میں شکست خوردہ اُٹھتی اگرچہ اچھی صحت کے ساتھ۔ ڈانس والے دن میں اپنے بال بالکل سیدھے گھنگریالے کرتی لیکن آج زنانہ رسومات کی تمام ممکنہ حفاظت چاہتی تھی۔ میں کچن میں پڑے صوفے پر لیٹ گئی اور کتاب’’ پومپائی کے آخری ایام‘‘پڑھنے لگی اور یہ خواہش کی کہ کاش میں وہاں ہوتی۔ میری ماں کبھی بھی مطمئن نہ ہوتی، وہ ہروقت لباس کے سفید کالر کی لیس سیتی رہتی، اُس نے یہ فیصلہ کیاتھا کہ اس کا پہناؤ بڑی عمر کا لگنا چاہیے۔ میں نے گھنٹوں اُس کو دیکھا۔ یہ سال کے مختصر ترین دن تھے۔ اس صوفے کے اوپر، ایک چاٹ لگا ہواتھا جس میں او ایس اور ایکس ایس کی پرانی گیمز کے بارے میں لکھاتھا۔ بڑی تصاویر لگی تھیں اور میرے اور میرے بھائی کے خطوط جب ہم دونوں آنتوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔ میں نے اُن کو دیکھا اور پھر گذرے ہوئے بچپن میں حفاظت کے ساتھ رہنے کی خواہش کی۔
جب میں نے اپنے بال گھنگریالے کرلیے اور دونوں قدرتی اور مصنوعی طریقے اپنا لیے اور اُن کو چمکدار جھاڑی کی بہت سی شاخوں کی طرح پھیلادیاتھا۔ میں نے ان کو گیلاکیا، کنگھی کی اور ان کو برش سے باربار ٹھیک کیااور ان کو نیچے کی جانب اپنے رخساروں کے ساتھ لٹکادیا۔ میں نے چہرے پر پوڈرلگایا جو کہ میرے گرم چہرے پر چاک کی طرح چپک گیا۔ میری ماں نے اپنا لوشن"ایشز آف روزز"نکالا جو اُس نے کبھی نہیں لگایاتھا اور اُس کو میرے بازوؤں پر لگادیا۔ پھر اُس نے میرے لباس کی زپ بندکی اور مجھے آئینے کے سامنے کھڑا کردیا۔ لباس بالکل شہزادیوں جیساتھا اور درمیان سے یہ بہت فٹ تھا۔ میں نے دیکھا کہ کیسے میری چھاتیاں نئی انگیا میں بھری ہوئی مگر حیران کن حد تک باہرکو اُبل رہی تھیں، سن بلوغت کی پختگی کے ساتھ۔
’’میرا دل چاہ رہا ہے کہ کاش میں تصویر لے سکتی۔‘‘میری ماں نے کہا’’مجھے اس کی سلائی پر فخر محسوس ہورہا ہے اور تمہیں میرا شکریہ اداکرناچاہیے۔‘‘
’’شکریہ۔‘‘میں نے کہا۔
جب میں نے دروازہ کھولا تو لونئینے سب سے پہلے کہا،’’ہائے اللہ، تم نے اپنے بالوں کو کیا کردیا ہے؟‘‘
’’یہ میں نے بنائے ہیں۔‘‘
’’تم بالکل بھوت لگ رہی ہو لیکن فکر نہ کرو۔ مجھے کنگھی دو اور میں سامنے سے اِن کو ٹھیک کردیتی ہوں۔ پھر یہ بالکل ٹھیک نظرآئیں گے۔ ان میں تو تم بالکل بوڑھی نظرآرہی ہو۔‘‘
میں آئینے کے سامنے بیٹھ گئی اور لونئیمیرے پیچھے کھڑی ہوکے میرے بال ٹھیک کرنے لگی۔ میری ماں نے ہمیں اکیلا نہ چھوڑا۔ میری خواہش تھی کہ وہ چلی جائے۔ اُس نے گھنگریالے بالوں کو دیکھا اور کہا، ’’ لونئی!تم نے تو مجھے حیران کردیا۔ تمہیں تو ہیرڈریسر بننا چاہیے۔‘‘
’’اچھی سوچ ہے!‘‘ لونئینے جواب دیا۔ اُس نے زرد نیلے رنگ کا کریپ کا لباس پہناہواتھا جس پر مختلف ڈیزائن بنے تھے۔ یہ لباس مجھ والے سے کہیں زیادہ اچھاتھا اگرچہ اس کے کالر نہیں تھے۔ اس کے بال اس طرح باہر نکلے ہوئے تھے جیسے گڑیا کے ہوں۔ میں نے چوری چھپے ہمیشہ یہ سوچاتھا کہ لونئیخوبصورت نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے دانت ٹیڑھے تھے لیکن میں نے اب دیکھا کہ چاہے اُس کے دانت ٹیڑھے تھے یا نہیں، اُس کے اسٹائلش لباس اور نرم بالوں نے اُس کو ایک طلسماتی گڑیامیں تبدیل کردیاتھا جو کہ سرخ ریشم سے بھری ہوئی تھی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں تھیں، بکھرے ہوئے بال جس پر جوش مسرت چھائی ہوئی تھی۔
میری ماں دروازے تک ہمارے ساتھ آئی اور اندھیرے میں پکارا،’’خداحافظ‘‘۔ یہ میرا اور لونئی کا روایتی سلام تھا۔ یہ بالکل ہی بیوقوفانہ سا محسوس ہوتااور اُس کی جانب سے یہ بے کس سا انداز مجھے عجیب محسوس ہوتا اور مجھے اُس پر شدید غصہ آتا کہ جب میں جواب ہی نہیں دیتی وہ یہ الفاظ کیوں استعمال کرتی ہے۔ لیکن صرف لونئی تھی جو خوش دلی سے جواب دیتی اور بہت ہی ہمت سے کہتی،’’شب بخیر۔‘‘
ورزش گاہ میں چیڑ اور صنوبر کی بُو پھیلی تھی۔ باسکٹ بال کے پولوں کے ساتھ کاغذ کی خوبصورت سُرخ اور سبز بالیں لٹک رہی تھیں۔ بڑی کلاسوں کے زیادہ تر طلباء جوڑوں میں نظرآتے تھے۔ بارہویں اور تیرھویں کلاس کی کچھ طالبات اپنے ساتھ اپنے بوائے فرینڈز لائی تھیں جو پہلے ہی یہاں سے گریجویشن کرچکے تھے یا شہر کے اطراف میں کاروبار کرتے تھے۔ یہ نوجوان ورزش گاہ میں سگریٹ پیتے اور کوئی بھی اُن کو نہیں روک سکتا تھا، وہ آزاد تھے۔ لڑکیاں اپنے ہاتھ آہستگی سے مردانہ آستینوں پر جمائے اُن کے ساتھ کھڑی تھیں اور اُن کے چہرے تھکے، الگ الگ سے اور خوبصور ت تھے۔ مجھے خواہش ہوئی کہ میں بھی اُن کی طرح نظر آؤں۔ اُن کا رویہ ایسا تھا جیسے صرف وہی بڑے ہوں جن کو صرف ڈانس کرناآتا ہے اور جیسے ہم باقی سب جن کے درمیان وہ گذر اور گھوم رہے تھے، وہ اُن کو نہ نظرآرہے تھے اور نہ ہی اُن کے لیے اہم تھے۔ جب پیلے ڈانس کا اعلان کیاگیا وہ سُستی سے باہرکی جانب گئے، ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے جیسے اُن کو بچپن کے کسی بھولے ہوئے کھیل میں حصہ لینے کا کہاگیا ہو۔ ہاتھ پکڑے اور آہستگی سے کانپتے ہوئے وہ آپس میں اکٹھے ہورہے تھے، میں، لونئی اور نویں کلاس کی دوسری طالبات اُن کے پیچھے چل رہی تھیں۔
میں نے بیرونی دائرے کو دیکھنے کی جرأت نہ کی۔ جب وہ میرے پاس سے گذرا، اس خوف سے کہ کہیں میں کوئی جلدی میں بدتہذیبی نہ دیکھ لوں۔ جب موسیقی رُکی تو میں اپنی جگہ پر رُکی رہی جہاں میں ٹھہری تھی اور اپنی آدھی آنکھیں اُٹھاتے ہوئے میں نے ایک لڑکے کو دیکھا جس کا نام میس ولیمز تھا اور وہ آہستگی سے میری جانب آرہاتھا۔ اس نے آہستگی سے میری کمراور انگلیوں کو چھُوااور میر ے ساتھ ڈانس کرنے لگا۔ میری ٹانگیں کھُل گئیں اور میرا بازو کندھوں سے تھرکنے لگااور میں نے ابھی ایک لفظ بھی نہ بولاتھا۔ میس ولیمز کاشمار سکول کے چند ایک ہیروز میں ہوتاتھا۔ وہ باسکٹ بال اور ہاکی کھیلتاتھا۔ اور وہ ایک شاہانہ غرور اور وحشیانہ انداز میں مختلف جگہوں پر گھومتانظرآتا۔ مجھ جیسی غیراہم لڑکی کے ساتھ ڈانس کرنا اُس کے لیے اتنا ہی غیراہم تھا جتنا اُس کے لیے شیکسپیئر یادکرنا۔ اُس نے بھی اس بات کو شدت سے محسوس کیاجتنا کہ میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنے دوستوں کو ناگواری کے تاثرات دے رہاتھا۔ اس نے فرش کے کنارے کو ٹھوکرلگاتے ہوئے مجھے زور سے گھمایا۔اُس نے میری کمر سے اپنا ہاتھ ہٹایااور میرا بازو جھٹک دیا۔
’’پھرملتے ہیں۔‘‘اُس نے کہااور چلاگیا۔
مجھے ایک دو منٹ بات سمجھنے میں لگے کہ کیا ہُوا ہے اور وہ اب دوبارہ واپس نہیں آئے گا۔ میں دیوار کے ساتھ اکیلی کھڑی ہوگئی۔ فزیکل ایجوکیشن کی ایک اُستانی دسویں کے طالب علم کی بانہوں میں خوش دلی سے ڈانس کرتی ہوئی جب میرے قریب سے گذری تو اُس نے مجھے متجسس نگاہوں سے دیکھا۔ پورے سکول میں وہ واحداُستانی تھی جو کہ معاشرے میں ہونے والی ساری حرکات اور الفاظ کو خوب سمجھتی تھی اور مجھے یہ خوف تھا کہ اگر اُس نے سب کچھ دیکھ لیا ہے یا اُس کو پتہ چل گیا تو وہ ضرور ماسن کو لوگوں کے سامنے مجبور کردے گی کہ وہ میر ے ساتھ ڈانس نہ کرے۔مجھے ماسنپر کوئی غصہ یا حیرت نہ تھی۔ میں سکول میں اُس کی حالت سمجھ گئی تھی اور اپنی بھی اور میں نے دیکھا کہ جو کچھ بھی اُس نے کیا تھا، وہ حقیقت پر مبنی تھا۔ وہ واقعاً ایک ہیروتھا، وہ سکول کونسل قسم کا کوئی ہیرو نہ تھا کہ جس کی کامیابی صرف سکول کی دیوار تک محدود ہو۔ اُن میں سے کئی لڑکوں نے میرے ساتھ بڑی جرأت اور سلیقے کے ساتھ ڈانس کیاتھا اور مجھے کسی خوشگوار لمحے کے بغیر چھوڑ گئے تھے۔ تاہم ابھی بھی مجھے امید تھی کہ مجھے کافی لوگوں نے دیکھا تھا۔ مجھے لوگوں کے دیکھنے سے نفرت تھی۔ میں نے اپنے انگوٹھے کی جلد کو کاٹنا شروع کردیا۔ جب موسیقی رُکی تو میں ورزش گاہ کے ایک کونے میں جمع لڑکیوں کے گروپ میں شامل ہوگئی۔ میں نے یہ تاثر دیا کہ جیسے کچھ ہُوا ہی نہیں اور خو دسے کہا کہ سب کچھ ابھی شروع ہونے والا ہے۔
موسیقی دوبارہ شروع ہو گئی تھی۔ کمرے میں ہماری جانب کے گھنے ہجوم میں حرکت پیدا ہوئی اور جلد ہی یہ ہجوم کم ہونے لگا۔لڑکے آئے اور لڑکیاں ان کے ساتھ ڈانس کے لیے چلی گئیں۔لُونئی بھی چلی گئی اور میرے ساتھ ٹھہری لڑکی بھی چلی گئی۔ کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا۔ میں نے رسالے کے اس مضمون کو یاد کیا جو میں نے اور لُونئی نے پڑھا تھا جس میں لکھا تھا ۔ خوش رہو اور لڑکوں کو اپنی چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھنے دو! ان کو اپنی آواز میں خوشی کے قہقے محسوس کرنے دو! بالکل سادہ اور واضح، لیکن کتنی ہی لڑکیاں بھول گئیں؟ یہ سچ تھا ، میں بھی بھول گئی تھی۔ میرے آبرو پریشانی کی وجہ سے تن گئے تھے، میں خوفزدہ اور بد صورت دکھائی دینے لگی تھی۔ میں نے ایک سانس لیا اور اپنا چہرہ ڈھیلا چھوڑنے کی کوشش کی، میں مسکرائی لیکن مجھے کسی پر بھی مسکراتے ہوئے بہت عجیب سا محسوس ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ ڈانس کرتی ہوئی لڑکیاں، مشہور و معروف لڑکیاں، ان میں سے کوئی بھی نہیں مسکرا رہی تھی ، ان میں سے زیادہ تر کے چہرے نیند سے بھرے اور آزردہ تھے اور وہ بالکل نہیں مسکرا رہی تھیں۔ لڑکیاں ابھی تک ڈانس کرنے کے لیے جا رہی تھیں، کچھ نے مایوس ہو کر آپس میں جوڑے بنا کر ڈانس شروع کر دیا تھا لیکن زیادہ تر لڑکوں کے ساتھ گئی تھیں۔ موٹی لڑکیاں، کیل مہاسوں والی لڑکیاں، ایک غریب لڑکی جس کے پاس پہننے کے لیے اچھا لباس نہ تھا اور نہ کوئی خوبصورت اسکرٹ یا سویٹر، وہ بھی ڈانس کے لیے چلی گئی تھی، ان کو بلایا گیا تھا اور وہ ڈانس میں مشغول تھیں۔ وہ ان کو کیوں لے گئے تھے اور مجھے کیوں نہیں؟ کیوں باقی سب اور میں کیوں نہیں؟ میں نے سرخ مخمل کا لباس پہنا تھا ۔میں نے اپنے بال گھنگریالے بنائے تھے اور میں نے خوشبو بھی لگائی تھی اور لوشن بھی۔ دعا کروں، میں نے سوچا میں اپنی آنکھیں بند نہ کر سکی لیکن میں اپنے دماغ میں بار بار منصوبے بناتی رہی۔ پلیز میں، ’’پلیز میں، پلیز میں‘‘ اور میں نے اپنی انگلیاں اپنی پیٹھ کے پیچھے جما دی تھیں۔ ایک ایسے انداز میں جو صلیب کے نشان سے زیادہ طاقتور تھا، وہی خفیہ نشان جو میں اور لُونی ریاضی کی کلاس میں بلیک بورڈ کی جانب نہ جانے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔
اس نے بھی کام نہ کیا جس کا مجھے خوف تھا، وہ سچ ثابت ہوا میں اکیلی ہی پیچھے رہنے والی تھی۔ اس معاملے میں میرے ساتھ کچھ عجیب و غریب معما تھا، بالکل ایسا ہی جیسے کہ غلط سانس کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا یا کیل مہاسوں والے چہرے کو خوبصورتی نہیں لوٹائی جا سکتی۔ ہر شخص یہ جانتا تھا اور میں بھی جانتی تھی اور میں کافی عرصے سے یہ جانتی تھیں۔ لیکن مجھے یقینی طور پر کچھ بھی معلوم نہ تھا میں نے غلط ہونے کی امید کی تھی ۔یقین میرے اندر بیماری کی طرح ابھر رہا تھا۔ میں ایک یا دو لڑکیوں میں سے جلدی سے گزری جو کہ جگہ چھوڑ کر لڑکیوں کے واش روم کی جانب چلی گئیں تھیں۔ میں نے خود کو اپنی خوابگاہ میں چھپا لیا تھا۔
یہ وہ جگہ تھی جہاں میں ٹھہری تھی۔ ناچنے والی لڑکیاں جلدی میں وہاں سے آتی جاتی رہیں۔ وہاں پر بہت سے کمرے تھے ، کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ میں وہاں پر عارضی رہنے والی تھی۔ ڈانس کے دوران میں موسیقی سنتی رہی جو کہ مجھے پسند تھی لیکن اب میں نے مزید اس میں کوئی حصہ نہیں لینا تھا۔ اور اب مجھے کوئی اور کوشش بھی نہیں کرنی تھی ۔ میں صرف یہاں چھپا رہنا چاہتی تھی اور یہ چاہتی تھی کہ یہاں سے خاموشی کے ساتھ اپنے گھر چلی جاؤں اور کوئی بھی مجھے نہ دیکھے۔
ایک بار پھر جب موسیقی شروع ہو ئی تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میرے پیچھے کھڑا ہے۔ وہ زور زور سے پانی کے چھینٹے مار رہی تھی ، اپنے ہاتھ دھو رہی تھی اور بالوں کو کنگی کر رہی تھی اسے یہ بات مضحکہ خیز لگ رہی تھی کہ میں اتنی دیر سے یہاں بیٹھی ہوں۔ مجھے باہر جانا چاہئے تھا، ہاتھ دھونے چاہئیں تھے اور شاید جبکہ میں وہ دھو رہی تھی، وہاں سے چلی جاتی۔
اس کا نام میری فارچیون تھا، میں اسے نام سے جانتی تھی کیونکہ وہ گرلز اتھلیکٹس سوساسٹی کی ایک آفیسر تھی۔ وہ آج کل اعزازی طور پر کام کر رہی تھی اور ہر وقت مختلف کاموں کو مکمل کرنے میں لگی رہتی تھی۔ اس کو اس ڈانس کے منعقد کرنے میں بھی کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔ وہ تمام کلاسوں میں باری باری گئی تھی کہ سجاوٹ کے لیے مدد گار تلاش کیے جا سکیں۔ وہ شاید گیارہویں یا بارہویں جماعت کی طالبہ تھی۔
’’ یہاں بہت اچھا اور ٹھنڈا ماحول ہے‘‘ اس نے کہا۔’’ میں یہاں آرام کرنے آئی ہوں، وہاں بہت گرمی لگ رہی تھی‘‘۔
وہ ابھی تک اپنے بالوں کو کنگھی کر رہی تھی جب تک میں اپنے ہاتھ دھو چکی۔
تمہیں موسیقی پسند آئی، اس نے پوچھا۔
’’ ہاں اچھی ہے‘‘ مجھے خود پتہ نہیں تھا کہ کیا کہنا ہے۔ مجھے اس پر حیرت ہو رہی تھی کہ اتنی سینئر لڑکی مجھ سے باتیں کرنے کے لیے اتنا وقت ضائع کر رہی تھی۔
میں نہیں، میں نہیں ٹھہر سکتی۔ جب مجھے موسیقی پسند نہ ہو،تو مجھے ڈانس سے بھی نفرت ہو جاتی ہے۔ سنو وہ اتنا تلاطم خیز اور شور والا ہے۔ اور میں اس پر کسی صورت بھی ڈانس نہیں کر سکتی۔
میں نے اپنے بالوں میں کنگھی کی۔ وہ مجھے دیکھتے ہوئے بیسن کی جانب جھک گئی۔
’’ میں ڈانس نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی میں یہاں پر اب زیادہ دیر رکنا چاہتی ہوں۔ آؤ چلیں اور سگریٹ پئیں۔
کہاں؟
آؤ میں تمہیں بتاتی ہوں!
واش روم کے آخر میں ایک دروازہ تھا جو کھلا تھا اور ایک اندھیری الماری کی جانب جاتا تھا جس میں جھاڑن اور بالٹیاں رکھی تھیں۔ اس نے مجھے دروازہ کھلا رکھنے کو کہا تاکہ واش روم کی روشنی آتی رہے جب تک کہ وہ دروازے کی مٹھ تلاش نہ کرے۔ یہ دروازہ اندھیرے میں کھلتا تھا۔
’’ میں بتی نہیں جلا سکتی، کہیں کوئی دیکھ نہ لے‘‘ اس نے کہا، یہ دربار کا کمرہ ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ کھیل کود میں حصہ لینے والے لوگوں کو ہمیشہ اس اسکول کی عمارت کے بارے میں ہم سب سے زیادہ معلوم تھا ان کو معلوم تھا کہ چیزیں کہاں رکھی جاتی تھیں اور وہ ہمیشہ غیر قانونی دروازوں سے بہادری کے ساتھ آتے جاتے تھے۔’’ دیکھو تم کہاں جا رہے ہو؟
اس نے کہا۔’’بالکل آخری حصے میں ، وہاں پر کچھ سیڑھیاں ہیں۔ وہ دوسری منزل تک ایک الماری تک جائیں گی، اوپر والا دروازہ بند تھا لیکن کمرے اور سیڑھیوں کے درمیان ایک تقسیم تھی، اگر ہم ان سیڑھیوں پر بیٹھیں ، ویسے ہی اتفاقاً کوئی یہاں آ جائے تو وہ ہمیں دیکھ نہ پائے گا۔‘‘
کیا ان کو سگریٹ کی بو نہیں آئے گی؟ میں نے کہا۔
’’ او ،اچھا۔۔۔ خطرے میں جینا سیکھو‘‘
سیڑھیوں کے اوپر ایک اونچی کھڑکی تھی جس سے ہمیں تھوڑی سی روشنی آ رہی تھی۔میری فارچیون کے پاس پرس میں سگریٹ اور ماچس تھی۔ میں نے اس سے پہلے سگریٹ نوشی نہیں کی تھی سوائے ان سگریٹ کہ جو میں نے اور لُونئی نے مختلف اوراق اورلونئی کے باپ کے چرائے ہوئے تمباکو سے خود بنائے تھے، وہ بہت ہی مختلف ہوتے اور اس سے کئی درجہ بہتر ہوتے۔
’’ آج رات کو یہاں آنے کی صرف ایک وجہ تھی‘‘میری فارچیون نے کہا کہ میں یہاں کی سجاوٹ کی ذمہ دار ہوں اور میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ یہ سب کیسا دکھائی دیتا ہے جب لوگ ایک بار یہاں پر آتے ہیں ورنہ مجھے کیا پرواہ۔ مجھے لڑکوں سے کوئی دلچسپی نہیں‘‘۔
اونچی کالی کھڑکی سے آتی ہوئی روشنی میں، میں اس کا تنگ، حقارت آمیز چہرہ دیکھ سکتی تھی، اس کی سیاہ جلد جو مہاسوں سے بھری ہوئی تھی، باہر کی جانب اس کے نکلے ہوئے دانت جو اس کی شخصیت کو بڑا اور رعب دار بنا رہے تھے۔
’’ زیادہ تر لڑکیاں، تم نے محسوس نہیں کیا؟ کہ تم لڑکوں پر مرنے والی لڑکیاں ، سب سے زیادہ اس اسکول میں تلاش کر سکتی ہوں‘‘۔
میں اس کی توجہ، اس کے ساتھ اور سگریٹ کی بھی ممنون تھی۔ میں نے کہا اور شاید سوچا بھی یہی۔
’’ اس دوپہر کی طرح۔ اس دوپہر میں ان سے گھنٹیاں اور دوسری چیزیں لٹکانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ صرف سیڑھیوں پر چڑھ گئی اور وہاں سے لڑکوں کو گھورنے لگی۔ ان کو پرواہ بھی نہ تھی کہ سجاوٹ مکمل ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ صرف ایک بہانہ تھا، ان کی زندگی میں صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وہ لڑکوں کے پیچھے بھاگیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے ساری بیوقوف ہیں‘‘۔
ہم نے اساتذہ کے بارے میں باتیں کیں اور اسکول کے بارے میں بھی۔ اس نے کہا کہ وہ فزیکل ایجوکیشن کی استانی بننا چاہتی ہے اور اس کے لیے اسے کالج جانا پڑے گا لیکن اس کے والدین کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا۔ اس نے کہا کہ اس نے اپنے لیے خود کام کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ ہر صورت آزاد ہونا چاہتی تھی۔ وہ کیفے میں کام کرے گی اور گرمیوں میں کھیتوں میں کام کرے گی جس طرح تمباکو چننے کاکام۔ اس کو سن کر مجھے اپنے اندر دکھ کا احساس ہوا۔ یہاں پر کوئی اور بھی تھا جس کو مجھ جیسی شکست ملی تھی۔ میں نے اسے دیکھا لیکن وہ خود داری اور جذبے سے بھر پور تھی۔ اس نے دوسرے کام کرنے کا سوچ لیا تھا کہ وہ تمباکو چننے کو چنے گی۔
ہم وہاں پر موسیقی کے وقفے کے دوران کھڑے باتیں کرتے اور سگریٹ پیتے رہے۔ جب باہر وہ کافی اور کیک وغیرہ کھا رہے تھے۔
جب موسیقی دوبارہ شروع ہوئی،میری فارچیون نے کہا’’ دیکھو! کیا ہمیں مزید بھی یہاں پر رکنا ہے؟ آؤ اپنے کوٹ لیں اور چلیں۔ کیوں نہیں، ہم نیچے لیئی کی جانب چلے گئے، گرم گرم چاکلیٹ کھائی اور آرام سے باتیں کرتے رہے۔
سگریٹ کے ٹکڑے اور راکھ اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہم نے دربار کے کمرے کے درمیان سے اپنا راستہ تلاش کیا ، الماری کے قریب ہم رکے اور یہ یقین کرنے کے لیے توجہ کی کہ واش روم میں کوئی نہیں تھا۔ ہم دوبارہ روشنی میں آئے اور راکھ کو واش روم کے ٹائلٹ میں پھینک دیا۔ ہمیں باہر جانا تھا اور سامان گاہ کی جانب ڈانس والے کمرے سے ہو کر گزرنا تھا جو کہ بیرونی دروازے کے بالکل ساتھ تھا۔
ڈانس شروع ہونے والا تھا،’’ کمرے کے کنارے کی جانب جاؤ‘‘میری فارچیون نے کہا’’ کسی کو ہمارا پتہ نہیں چلے گا‘‘ میں نے اس کا پیچھا کیا اور کسی بھی شخص پر نظر نہ ڈالی۔ میں نے لونئی کو تلاش نہ کیا۔ آج کے بعد لونئی میری اتنی دوست نہ رہی تھی جتنی کہ پہلے تھی وہ ویسی ہی تھی جیسیمیری فارچیون لڑکوں کا دیوانہ کہتی تھی۔
میں نے محسوس کیا کہ میں زیادہ ڈرئی ہوئی نہ تھی اور اب میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے ہونے والے ڈانس کو چھوڑ دینا ہے۔ میں کسی کا بھی انتظار نہیں کر رہی تھی کہ وہ میرا انتخاب کرے۔ میرے اپنے منصوبے تھے، مجھے اب کسی پر مسکرانے یا قسمت آزمانے کے لیے اشارے کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ یہ میرے لئے اہم نہ تھا، میں اپنے دوستوں کے ساتھ چاکلیٹ کھانے جا رہی تھی، ایک لڑکے نے مجھے کچھ کہا تھا، وہ میرے راستے میں تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھے کہے گا کہ میری کوئی چیز راستے میں گر گئی ہے یا میں اس راستے پر نہیں چل سکتی یا یہ کہ یہ کمر بند ہے۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ وہ میرے ساتھ ڈانس کرنے کے لیے کہہ رہا ہے جب تک کہ اس نے دوبارہ مجھ سے نہ کہا۔ یہ ہمارا کلاس فیلو ریمنڈ بوٹنگ تھا جس سے میں نے اپنی زندگی میں کبھی بات نہیں کی تھی۔ اس نے سوچا کہ شاید میں رضا مند ہوں، اس نے میری کمر پر ہاتھ رکھا اور بغیر کسی اعتراض کے میں نے اس کے ساتھ ناچنا شروع کر دیا۔
ہم کمرے کے پیچھے نہیں پہنچے، میں ناچ رہی تھی، میری ٹانگوں نے لرزنا اور ہاتھوں میں پسینہ ختم ہو چکا تھا میں ایک ایسے لڑکے کے ساتھ ناچ رہی تھی تھی جس نے مجھے منتخب کیا تھا،کسی نے اسے بتایا نہیں تھا اور اسے ضرورت بھی نہ تھی ، اس نے صرف مجھ سے پوچھا تھا۔ کیا یہ ممکن تھا؟ کیا میں اس پر یقین کر سکتی تھی؟ کیا میرے ساتھ کوئی بھی مسئلہ نہ تھا۔
میں نے سوچا کہ مجھے اسے بتانا چاہئے کہ یہ ایک غلطی تھی کہ میں چھوڑ کے جا رہی تھی، میں اپنی دوست کے ساتھ گرم چاکلیٹ کھانے جا رہی تھی، لیکن میں نے کچھ نہ کہا۔ میرے چہرے پر خوشگواری کے تاثرات ابھر رہے تھے، بغیر کسی کوشش کے، ان غیر دماغ اور سرد مہر لوگوں کے لیے جن کو ڈانس کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ یہ وہ چہرہ تھا جو کہمیری فارچیون نے دیکھا تھا، جب اس نے سامان گاہ کے کمرے سے باہر کی جانب دیکھا تھا اور اس کا اسکارف اس کے سر پر جما تھا، میں نے اپنے ہاتھ سے ایک کمزور سا اشارہ کیا جو کہ لڑکے کے کندھے سے لگا، یہ بتانے کے لیے کہ میں معافی چاہتی ہوں کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ کیا ہوا تھا؟ اور یہ کہ اب میرا مزید انتظار کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ پھر میں نے اپنا سر اس جانب موڑا اور جب میں نے دوبارہ دیکھا تو وہ چلی گئی تھی۔
ریمنڈ بوٹنگ مجھے اپنے گھر لے گیا اور ہورولڈ سمسن لونئی کو۔ ہم اکٹھے لونئی کے گھر کے نکڑ تک پیدل آئے۔ لڑکے ہاکی کے کھیل پر بحث کر رہے تھے جس کی مجھے اور لونئی کو کوئی دلچسپی نہ تھی پھر ہم جوڑوں میں بٹ گئے اور ریمنڈ نے میرے ساتھ گفتگو جاری کر دی جو وہ ہورولڈ کے ساتھ کر رہا تھا اس کو یہ محسوس تک نہ ہوا کہ اب وہ اس کے بجائے مجھ سے بات کر رہا تھا ایک دو بار میں نے کہا’’ اچھا مجھے معلوم نہیں، میں یہ کھیل نہیں دیکھتی‘‘ لیکن کچھ دیر کے بعد جب میں نے یہ کہنے کا فیصلہ کیا،ہاں ہاں اور یہ ایسے معلوم ہوا جیسے یہ بہت ضروری تھا۔
ایک اور بات جو اس نے کہی وہ یہ تھی’’ مجھے معلوم نہ تھا کہ تم اتنی دور رہتے ہو‘‘ اور وہ ناک سے، سردی کی وجہ سے میرے ناک کچھ زیادہ ہی بہہ رہی تھی اور میری انگلیاں بار بار میرے کوٹ کی جانب میں ٹشو پیپر تلاش کر رہی تھیں یہاں تک کہ جب میں نے ایک پرانا پھٹا ہوا رومال تلاش کر لیا۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ کیا مجھے یہ رومال اسے بھی دینا چاہیے یا نہیں لیکن وہ اتنے زور سے ناک سے چھینکا کہ آخر مجھے کہنا پڑا ’’میرے پاس صرف یہی ایک رومال ہے اور یہ اتنا صاف بھی نہیں ہے ، شاید اس پر سیاہی لگی ہوئی ہے، لیکن اس کو میں نے دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا تو ہم دونوں ایک ایک رکھ سکتے ہیں‘‘ شکریہ،اس نے کہا’’ یقیناً میں اسے استعمال کر سکتا ہوں ‘‘۔
یہ اچھی بات تھی، میں نے سوچا کہ میں نے ایسا کیا ہے۔ گیٹ پر پہنچ کر جب میں نے کہا’’ اچھا ، شب بخیر‘‘ اور اس کے بعد اس نے کہا’’ او اچھا، شب خیر‘‘ وہ میری جانب جھکا اور مجھے چوما۔ پھر وہ واپس شہر کی جانب مڑا، یہ جانے بغیر کہ وہ میرا بچانے والا تھا، کہ وہ مجھیمیری فارچیون کی دنیا سے واپس اس عام سی دنیا میں لے کر آیا تھا۔
میں پچھلے دروازے سے گھر میں داخل ہوئی، یہ سوچتے ہوئے کہ میں ایک ڈانس پارٹی میں گئی تھی اور ایک لڑکا میرے ساتھ میرے گھر تک آیا تھا اور مجھے چوما تھا، یہ سب کچھ سچ تھا، میری زندگی ممکن تھی، میں کچن کی کھڑکی سے گزری اور اپنی ماں کو دیکھا۔ وہ تندور کے پاس پاؤں کے بل بیٹھی تھی اور پیالے سے چائے پرچ میں انڈھیل کر پی رہی تھی، وہ شایدوہاں میرا انتظار کر رہی تھی کہ میں گھر آؤں اور اس کو سب کچھ بتاؤ۔ میں ایسا نہیں کروں گی کبھی بھی نہیں۔ جب میں نے اپنے لیے منتظر کچن کو دیکھا اور ماں کو وہاں پرانے اور مبہم مگر اپنے نیند سے بھرے لیکن مستقل مزاج چہرے کے ساتھ بیٹھا دیکھا تو سمجھ گئی کہ ماں کی خوشنودی کے حصول کے لیے مجھے کس قسم کے پر اسرار اور مختلف فرض کونبھانا ہو گا۔ شاید اس میں ناکام تھی اور شاید میں ہر وقت ناکام ہونا ہی پسند کروں گی اور اسے کبھی معلوم بھی نہ ہوگا۔