or
read online
افسانہ ۔۔ انجان
تحریر:
موہن راکیش (ہندستان
ہندی
سے اردو ترجمہ: عامر صدیقی (کراچی ، پاکستان
دھند
کی وجہ سے کھڑکیوں کے شیشے دھندلے پڑ گئے تھے۔ گاڑی چالیس کی رفتار سے سنسان اندھیرے
کو چیرتی چلی جا رہی تھی۔ کھڑکی سے سر ٹکاکر بھی باہر کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔
پھر بھی میں دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کبھی کسی درخت کی ہلکی یا گہری شبیہہ ہی
گزرتی نظر آ جاتی تو کچھ دیکھ لینے کاساا طمینان ہوتا۔ دل کو الجھائے رکھنے کے لئے
اتنا ہی کافی تھا۔ آنکھوں میں ذرابھی نیند نہیں تھی۔ گاڑی کو جانے کتنی دیر بعد
کہیں جاکر رکنا تھا۔ جب اور کچھ دکھائی نہ دیتا، تو اپنا سایہ تو کم از کم دیکھا
ہی جا سکتا تھا۔ اپنے سائے کے علاوہ اور بھی بہت سے سائے تھے۔
اوپر کی برتھ پر سوئے
شخص کا سایا عجب بے بسی کے ساتھ ہل رہا تھا۔ سامنے کی برتھ پر بیٹھی عورت کا سایہ
بہت اداس تھا۔ اس کی
مخمور پلکیں لمحے بھر
کیلئے اوپر اٹھتیں، پھر جھک جاتیں۔ سایوں کے علاوہ کئی بار نئی نئی آوازیں بھی
دھیان بھٹکادیتیں، جن سے پتہ چلتا کہ گاڑی پل پر سے جا رہی ہے یا مکانوں کی قطار
کے پاس سے گزر رہی ہے۔ اسی دوران اچانک انجن کی چیخ سنائی دے جاتی، جس سے اندھیرا
اور اکیلا پن مزید گہرے ہوتے محسوس ہونے لگتے۔
میں
نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ سوا گیارہ بجے تھے۔ سامنے بیٹھی عورت کی آنکھیں بہت ویران
تھیں۔ بیچ بیچ میں ان میں ایک لہر سی اٹھتی اور معدوم ہو جاتی۔ وہ آنکھوں سے جیسے
دیکھ نہیں رہی تھی، سوچ رہی تھی۔
اس کی بچی، جسے فر کے
کمبلوں میں سلایا گیا تھا، ذرا ذرا سا کسمسانے لگی۔ اس کی گلابی ٹوپی سر سے اتر
گئی تھی۔ اس نے دو ایک بار پاؤں پٹخے،اپنی بندھی ہوئی مٹھیاں اوپر اٹھائیں اور
رونے لگی۔ عورت کی سنسان آنکھیں اچانک امڈ آئیں۔ اس نے بچی کے سر پر ٹوپی ٹھیک کر
دی اور اسے کمبلوں سمیت اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔
مگر اس سے بچی کا
رونا بند نہیں ہوا۔ اس نے اسے ہلا کر اور دلارکر چپ کرانا چاہا، مگر وہ پھر بھی
روتی رہی۔ اس پر اس نے کمبل تھوڑا ہٹا کر بچی کے منہ میں دودھ دے دیا اور اسے اچھی
طرح اپنے ساتھ چپکا لیا۔
میں پھر کھڑکی سے سر
ٹکاکر باہر دیکھنے لگا۔ دور روشنیوں کی ایک قطار نظر آ رہی تھی۔ شاید کوئی آبادی
تھی، یا صرف سڑک ہی تھی۔ گاڑی تیز رفتاری سے چل رہی تھی اور انجن بہت قریب ہونے سے
دھند کے ساتھ دھواں بھی کھڑکی کے شیشوں پر جمتا جا رہا تھا۔ آبادی
یاسڑک، جو بھی وہ تھی،
اب آہستہ آہستہ پیچھے چھٹتی جا رہی تھی۔ شیشے میں دکھائی دینے والے سائے پہلے سے
مزید گہرے ہو گئے تھے۔ عورت کی آنکھیں بند ہو گئی تھیں اور اوپر لیٹے شخص کا بازو
زور زور سے ہل رہا تھا۔ شیشے پر میری سانس کے پھیلنے سے سائے مزید دھندلے ہو گئے
تھے۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ سبھی سائے چھپ گئے۔ میں نے تب جیب سے رومال نکال کر
شیشے کو اچھی طرح پونچھ دیا۔
عورت نے آنکھیں کھول
لی تھیں اور ایک ٹک سامنے دیکھ رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی لکیر پھیلی تھی
جو ٹھیک سے مسکراہٹ نہیں تھی۔ مسکراہٹ کے بہت مدہم اظہار کو ظاہر کرتی اس لکیر میں
کہیں سنجیدگی بھی تھی اور یاسیت بھی۔ جیسے وہ اچانک ابھر آئی کسی یاد کی لکیر تھی۔
اس کی پیشانی پر ہلکاسا بل پڑ گیا تھا۔
بچی جلد ہی دودھ سے
ہٹ گئی۔ اس نے سر اٹھا کر اپنا بغیر دانتوں والا منہ کھول دیا اور کلکاری بھرتی
ہوئی ماں کے سینے پر مٹھیوں سے چوٹ کرنے لگی۔ دوسری طرف سے آتی ایک گاڑی تیزی سے
پاس سے گزری ،تو وہ ذرا سہم گئی، مگر گاڑی کے نکلتے ہی اور زیادہ منہ کھول کر
کلکاری بھرنے لگی۔ بچی کا چہرہ گدرایا ہوا تھا اور اس کی ٹوپی کے نیچے سے بھورے
رنگ کے ہلکے ہلکے بال نظر آ رہے تھے۔ اس کی ناک ذرا چھوٹی تھی، پر آنکھیں ماں کی
ہی طرح گہری اور پھیلی ہوئی تھیں۔ ماں کے گال اور کپڑے نوچ کر اس کی آنکھیں میری
طرف گھوم گئیں اور وہ بانہیں ہوا میں پٹختی ہوئی مجھے اپنی کلکاریوں کا نشانہ
بنانے لگی۔
عورت کی پلکیں اٹھیں
اور اسکی اداس آنکھیں لمحے بھرکو میری آنکھوں سے ملی رہیں۔ مجھے اس لمحے بھر کیلئے
لگا کہ میں ایک ایسے افق کو دیکھ رہا ہوں، جس میں گہری سانجھ کے سبھی ہلکے گہرے
رنگ جھلملا
رہے ہیں اور جس کا
نظارہ لمحے کے ہر سوویں حصے میں بدلتا جا رہا ہے۔
بچی
میری طرف دیکھ کر بہت ہاتھ پٹخ رہی تھی، اس لئے میں نے اپنے ہاتھ اس کی طرف بڑھا
دیے اور کہا، “آ بیٹے، آ۔۔۔”
میرے
ہاتھ پاس آ جانے سے بچی کے ہاتھوں کا ہلنا بند ہو گیا اور اس کے ہونٹ روہانسے
ہوگئے۔
عورت نے بچی کو اپنے
ہونٹوں سے چھوا اور کہا، “جا بٹو، جائے گی ان کے پاس؟”
لیکن بٹو کے ہونٹ
مزید روہانسے ہوگئے اور وہ ماں کے ساتھ چپک گئی۔
“غیر آدمی سے ڈرتی
ہے،” میں نے مسکرا کر کہا اور ہاتھ ہٹا لئے۔
عورت کے ہونٹ بھینچ
گئے اور پیشانی کی کھال میں کھنچاؤ آ گیا۔ اس کی آنکھیں جیسے ماضی میں چلی گئیں۔
پھر اچانک وہاں سے لوٹ آئیں اور وہ بولی، “نہیں، ڈرتی نہیں۔ اسے دراصل عادت نہیں
ہے۔ یہ آج تک یا تو میرے
ہاتھوں
میں رہی ہے یا نوکرانی کے ۔۔۔ “اور وہ اس کے سر پر جھک گئی۔ بچی اس کے ساتھ چپک کر
آنکھیں جھپکنے لگی۔عورت اسے ہلاتی ہوئی تھپکیاں دینے لگی۔ بچی نے آنکھیں موند لیں۔
جیسے چومنے کیلئے ہونٹ بڑھائے ہوں، اس حالت میں عورت اس کی طرف دیکھتی ہوئی، اسے
تھپکیاں دیتی رہی۔ پھر اچانک اس نے جھک کر اسے چوم لیا۔
“بہت اچھی ہے ہماری بٹو، جھٹ سے سو جاتی ہے۔” یہ اس نے جیسے خود
سے کہا اور میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک اداس بھرا جوش بھر رہا تھا۔
“کتنی بڑی ہے یہ
بچی؟” میں نے پوچھا۔
“دس دن بعد پورے چار
مہینے کی ہو جائے گی،” وہ بولی، “پر دیکھنے میں ابھی اس سے چھوٹی لگتی ہے۔ نہیں؟ "
میں
نے آنکھوں سے اس کی بات کی حمایت کی۔ اس کے چہرے میں ایک اپنی ہی نوعیت کی نرمی
تھی، اعتماد اور سادگی کی۔ میں نے
سوئی
ہوئی بچی کے گال کو ذرا سا سہلا دیا۔ عورت کا چہرہ اورجذباتی ہو گیا
“لگتا ہے آپ کو بچوں
سے بہت محبت ہے،” وہ بولی، “آپ کے کتنے بچے ہیں؟”
میری
آنکھیں اس کے چہرے سے ہٹ گئیں۔ بجلی کی بتی کے پاس ایک کیڑا اڑ رہا تھا۔
“میرے؟” میں نے
مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا،”ابھی تو کوئی نہیں ہے، مگر۔۔۔”
“مطلب بیاہ ہوا ہے،
ابھی بچے وچے نہیں ہوئے،” وہ مسکرائی، “آپ مرد لوگ تو بچوں سے بچے ہی رہنا چاہتے
ہیں نہ؟”
میں نے ہونٹ سکوڑ لیے
اور کہا،”نہیں، یہ بات نہیں۔۔۔”
“ہمارے یہ تو بچی کو
چھوتے بھی نہیں،” وہ بولی،”کبھی دو منٹ کیلئے بھی اٹھانا پڑ جائے تو جھلانے لگتے
ہیں۔ اب تو خیر وہ اس مصیبت سے چھوٹ کر باہر ہی چلے گئے ہیں۔ “ اور اچانک اس کی
آنکھوں چھلچھلاگئیں۔ رونے کی وجہ سے اسکے ہونٹ بالکل اس بچی کی طرح ہو گئے
تھے۔
پھر اچانک اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ لوٹ آئی،جیسا اکثر سوئے ہوئے بچوں کے ساتھ ہوتا
ہے۔ اس نے آنکھیں جھپکاکر خودکو پرسکون کیا اور بولی،"وہ ڈاکٹریٹ کیلئے
انگلینڈ گئے ہیں۔ میں انہیں بمبئی میں جہاز پر چڑھا کر آ رہی ہوں۔۔۔ویسے چھ آٹھ
ماہ کی بات ہے۔ پھر میں بھی ان کے پاس چلی جاؤں گی۔ "
پھر
اس نے ایسی نظر سے مجھے دیکھا، جیسے اسے شکایت ہو کہ میں نے اس کی اتنی ذاتی بات
اس سے کیوں جان لی!
“آپ بعد میں اکیلی جائیں گی؟” میں نے پوچھا،"اس سے تو آپ
ابھی ساتھ چلی جاتیں۔۔۔”
اس
کے ہونٹ سکڑ گئے اور آنکھیں پھر ویران ہوگئیں۔ وہ کئی لمحے خود میں ڈوبی رہی اور
اسی انداز سے بولی، “ساتھ تو نہیں جا سکتی تھی، کیونکہ اکیلے ان کے جانے کا بھی
کوئی خاص ذریعہ نہیں تھا۔ لیکن انہیں میں نے کسی طرح بھیج دیا ہے۔ چاہتی تھی کہ ان
کی کوئی
تو
خواہش مجھ سے پوری ہو جائے ۔۔۔دیشی کی باہر جانے کی بہت خواہش تھی ۔۔۔ابھی چھ آٹھ
مہینوں میں اپنی تنخواہ میں سے کچھ پیسہ بچاؤں گی اور تھوڑا بہت کہیں سے ادھار لے کر اپنے جانے کا انتظام کروں گی۔ “
اس نے سوچوں میں
ڈوبتی اتراتی اپنی آنکھوں کو اچانک ہوشیار کر لیا اور پھر کچھ لمحے شکایت بھری
نظروں سے مجھے دیکھتی رہی۔ پھر بولی،”ابھی بٹو بھی بہت چھوٹی ہے نہ؟ چھ آٹھ مہینوں
میں یہ بڑی ہو جائے گی اور میں بھی اس وقت تک تھوڑا سا پڑھ لوں گی۔ دیشی کی بہت
خواہش ہے کہ میں ایم اے کر لوں۔ مگر میں ایسی گھامڑ اور ناکارہ ہوں کہ ان کی کوئی
بھی خواہش پوری نہیں کر پاتی۔ اسی لیے اس بار انہیں بھیجنے کیلئے میں نے اپنے تمام
گہنے بیچ دیئے ہیں۔ اب میرے پاس بس میری بٹو ہے، اور کچھ نہیں۔ “ اور وہ بچی کے سر
پر ہاتھ پھیرتی ہوئی، بھری بھری نظر سے اسے دیکھتی رہی۔
باہر وہی سنسان اندھیرا تھا، وہی مسلسل سنائی دیتی انجن کی پھک پھک۔ شیشے
سے آنکھ گڑا لینے پر بھی دور تک ویرانگی ہی ویرانگی نظر آتی تھی۔
مگر اس عورت کی
آنکھوں میں جیسے دنیا بھر کی شفقت سمٹ آئی تھی۔ وہ پھر کئی لمحے خود میں ڈوبی رہی۔
پھر اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور بچی کو اچھی طرح کمبلوں میں لپیٹ کر سیٹ پر لٹا
دیا۔
اوپر کی برتھ پر لیٹا
ہوا آدمی خراٹے بھر رہا تھا۔ ایک بار کروٹ بدلتے ہوئے وہ نیچے گرنے کو ہوا، پر
اچانک ہڑبڑاکر سنبھل گیا۔ پھر کچھ ہی دیر میں وہ اور زور سے خراٹے بھرنے لگا۔
“لوگوں کو جانے سفر
میں کیسے اتنی گہری نیند آ جاتی ہے!” وہ عورت بولی، “مجھے دو دو راتیں سفر کرنا
ہو، تو بھی میں ایک پل کو نہیں سو پاتی۔ اپنی اپنی عادت ہوتی ہے! “
“ہاں، عادت کی ہی بات
ہے،” میں نے کہا، “کچھ لوگ بہت بے فکرہو کر جیتے ہیں اور کچھ ہوتے
ہیں
کہ۔۔۔”
“بغیر فکر کئے جی ہی
نہیں سکتے!” اور وہ ہنس دی۔ اسکی ہنسی کا انداز بھی بچوں جیسا ہی تھا۔ اس کے دانت
بہت چھوٹے چھوٹے اور چمکیلے تھے۔ میں نے بھی اس کی ہنسی میں ساتھ دیا۔
“میری بہت خراب عادت ہے،” وہ بولی،"میں بات بے بات کے
سوچتی رہتی ہوں۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ میں سوچ سوچ کر پاگل ہو جاؤں گی۔ یہ
مجھ سے کہتے ہیں کہ مجھے لوگوں سے ملنا جلنا چاہئے، کھل کر ہنسنا، بات کرنا چاہئے،
مگر ان کے سامنے میں ایسے گم صم ہو جاتی ہوں کہ کیا کہوں؟ ویسے دوسرے لوگوں سے بھی
میں زیادہ بات نہیں کرتی، لیکن ان کے سامنے تو خاموشی ایسی چھا جاتی ہے، جیسے منہ
میں زبان ہو ہی نہیں۔۔۔اب دیکھئے نہ، اس وقت کس طرح کتر کتر بات کر رہی ہوں!
" اور وہ مسکرائی۔ اس کے چہرے پر ہلکی
سی ہچکچاہٹ کی لکیرآ گئی۔
“راستہ کاٹنے کیلئے بات کرنا ضروری ہو
جاتا ہے،” میں نے کہا، “خاص طور سے جب نیند نہ آ رہی ہو۔”
اس
کی آنکھیں پل بھر پھیلی رہیں۔ پھر وہ گردن ذرا جھکا کر بولی،”یہ کہتے ہیں کہ جس کے
منہ میں زبان ہی نہ ہو، اس کے ساتھ پوری زندگی کیسے کاٹی جا سکتی ہے؟ ایسے انسان
میں اور ایک پالتو جانور میں کیا فرق ہے؟ میں ہزار چاہتی ہوں کہ انہیں خوش دکھائی
دوں اور ان کے سامنے کوئی نہ کوئی بات کرتی رہوں، لیکن میری ساری کوششیں رائیگاں
چلی جاتی ہیں۔ انہیں پھر غصہ آ جاتا ہے اور میں رو دیتی ہوں۔ انہیں میرا رونا بہت
برا لگتا ہے۔ “ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے، جنہیں اس نے اپنی ساڑی
کے پلو سے پونچھ لیا۔
“میں بہت پاگل ہوں،”
وہ پھر بولی،”یہ جتنا مجھے ٹوکتے ہیں، میں اتنا ہی زیادہ روتی ہوں۔ دراصل یہ مجھے
سمجھ نہیں پاتے۔ مجھے بات کرنا اچھا نہیں لگتا، پھر جانے کیوں یہ مجھے
بات
کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟ “ اور پھر پیشانی کو ہاتھ سے دبا کر ہوئے گویا ہوئی،”آپ
بھی اپنی بیوی سے زبردستی بات کرنے کیلئے کہتے ہیں؟”
میں نے پیچھے ٹیک لگا
کر کندھے سکوڑ لیے اور ہاتھ بغلوں میں دبائے بتی کے پاس اڑتے کیڑے کو دیکھنے لگا۔
پھر سر کو ذرا سا جھٹک کر میں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف
دیکھ رہی تھی۔
“میں؟” میں نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، “مجھے یہ کہنے کا
کبھی موقع ہی نہیں مل پاتا ہے۔ میں بلکہ پانچ سال سے یہ چاہ رہا ہوں کہ وہ ذرا کم
بات کیا کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کئی بار انسان چپ رہ کر زیادہ بات کہہ سکتا ہے۔
زبان سے کہی بات میں وہ رس نہیں ہوتا، جو آنکھ کی چمک سے یا ہونٹوں کے اشارے یا
پیشانی کی ایک لکیر سے کہی گئی بات میں ہوتا ہے۔ میں جب اسے یہ سمجھانا چاہتا ہوں،
تو وہ مجھے مزیدتفصیل سے بتا دیتی ہے کہ زیادہ
بات
کرنا انسان کے خلوص کا ثبوت ہے اور میں اتنے سالوں میں اپنے تئیں اس احساس کو سمجھ
ہی نہیں سکا! وہ دراصل کالج میں لیکچرار ہے اور اپنی عادت کی وجہ سے گھر میں بھی
لیکچر دیتی رہتی ہے۔ “
“اوہ!” وہ تھوڑی دیر
دونوں ہاتھوں میں اپنا منہ چھپائے رہی۔ پھر بولی، “ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ میری
سمجھ میں نہیں آتا۔ مجھے دیشی سے یہی شکایت ہے کہ وہ میری بات نہیں سمجھ پاتے۔ میں
کئی بار ان کے بالوں میں اپنی انگلیاں الجھاکر ان سے بات کرنا چاہتی ہوں، کئی بار
ان کے گھٹنوں پر سر رکھ کر مند آنکھوں سے ان سے کتنا کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ لیکن
انہیں یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب گڑیوں کا کھیل ہے، اس کی بیوی
کو جیتا جاگتا انسان ہونا چاہئے۔ اور میں انسان بننے کی بہت کوشش کرتی ہوں، لیکن
نہیں بن پاتی، کبھی نہیں بن پاتی۔ انہیں میری کوئی عادت اچھی نہیں لگتی۔ میرا دل
چاہتا ہے کہ چاندنی رات
میں کھیتوں میں
گھوموں، یا دریا میں پاؤں ڈال کر گھنٹوں بیٹھی رہوں، مگر یہ کہتے ہیں کہ یہ سب
پاگل دل کے چکر ہیں۔ انہیں کلب، سنگیت کی محفلیں اور ڈنر پارٹیاں اچھی لگتی ہیں۔
میں ان کے ساتھ وہاں جاتی ہوں تو میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ مجھے وہاں ذرا اپنا پن
محسوس نہیں ہوتا۔ یہ کہتے ہیں کہ تو پچھلے جنم میں مینڈکی تھی جو تجھے کلب میں
بیٹھنے کی بجائے کھیتوں میں مینڈکوں کی آوازیں سننا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ میں کہتی
ہوں کہ میں اس جنم میں بھی مینڈکی ہوں۔ مجھے برسات میں بھیگنا بہت اچھا لگتا ہے۔
اور بھیگ کر میرا دل کچھ نہ کچھ گنگنانے کو کہنے لگتا ہے،حالانکہ مجھے گانا نہیں
آتا۔ مجھے کلب میں سگریٹ کے دھوئیں میں گھٹ کر بیٹھے رہنا نہیں اچھا لگتا۔ وہاں
میری جان حلق کو آنے لگتی ہے۔
"
اس تھوڑے سے وقت میں
ہی مجھے اس کے چہرے کا اتار چڑھاؤ کافی مانوس سا لگنے لگا
تھا۔
اس کی بات سنتے ہوئے میرے دل پر ہلکی سی اداسی چھانے لگی تھی، حالانکہ میں جانتا
تھا کہ وہ کوئی بھی بات مجھ سے نہیں کہہ رہی، وہ خودسے بات کرنا چاہتی ہے اور میری
موجودگی اس کیلئے صرف ایک بہانہ ہے۔ میری اداسی بھی اس کیلئے نہیں تھی بلکہ اپنے
لئے تھی، کیونکہ اس سے بات کرتے ہوئے بھی بنیادی طور پر میں سوچ اپنے بارے میں رہا
تھا۔ میں پانچ سال سے منزل درمنزل شادی شدہ زندگی سے گزرتا آ رہا تھا، روز یہی
سوچتے ہوئے کہ شاید آنے والا کل، زندگی کے اس ڈھانچے کو بدل دے گا۔سطح پر ہر چیز
ٹھیک تھی، کہیں کچھ غلط نہیں تھا، مگر سطح سے نیچے زندگی کتنی الجھنوں اور گانٹھوں
سے بھری ہوئی تھی۔ میں نے شادی کے اولین دنوں میں ہی جان لیا تھا کہ نلینی مجھ سے
شادی کرکے خوش نہیں ہو سکی، کیونکہ میں اس کی کوئی بھی دلی تمنا پوری کرنے میں
اسکا معاون ثابت نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ ایک بھرا پرا گھر چاہتی تھی، جس میں اس کا
راج ہو اور ایسی سماجی زندگی بھی جس میں اسے افضلیت کا درجہ حاصل ہو۔ وہ خودسے الگ
اپنے شوہر کی ذہنی زندگی کا تصور نہیں کرتی تھی۔ اسے میری بھٹکنے کی جبلّت اور
سادگی سے محبت، ذہنی انتشار لگتے تھے، جنہیں وہ اپنے زیادہ مفید فلسفہ ہائے زندگی
سے دور کرنا چاہتی تھی۔ اس نے اس اعتماد کے ساتھ ازدواجی زندگی شروع کی تھی کہ وہ
میری غلطیوں کی تلافی کرتی ہوئی، بہت جلد مجھے سماجی نقطہ نظر سے کامیاب انسان
بننے کی سمت میں لے جائے گی۔ اس کی نظر میں یہ میرے شعائر کی غلطی تھی، جو میں خود
میں اتنا گم رہتا تھا اور ادھر ادھر مل جل کر آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ وہ
اس حالت میں بہتری لاناچاہتی تھی، پر صورتِ حال سدھرنے کے بجائے بگڑتی گئی تھی۔ وہ
جو کچھ چاہتی تھی، وہ میں نہیں کر پاتا تھا اور جو کچھ میں چاہتا تھا، وہ اس سے
نہیں ہوتا تھا۔ اس سے ہم میں اکثر توتو میں میں ہونے لگتی تھی اور کئی بار دیواروں
سے سر ٹکرانے کی نوبت بھی آ جاتی تھی۔ مگر یہ سب ہو چکنے پر نلینی بہت جلد نارمل
ہو جاتی تھی اور اسے پھر مجھ سے یہ شکایت ہوتی تھی کہ میں دو دو دن خود کو ان عام
سی باتوں کے اثرات سے آزاد کیوں نہیں کر پاتا۔ مگر میں دو دن میں تو کیا، کبھی بھی
ان باتوں کے اثرات سے آزاد نہیں ہوپاتا تھا اور رات کو جب وہ سو جاتی تھی، تو
گھنٹوں تکیے میں منہ چھپائے کراہتا رہتا تھا۔ نلینی باہمی جھگڑے کو اتنا غیر فطری
نہیں سمجھتی تھی، جتنا میرے رات بھر جاگتے کو اور اس کیلئے مجھے نرَو ٹانک لینے کا
مشورہ دیا کرتی تھی۔ شادی کے پہلے دو سال اسی طرح گزرے تھے اور اس کے بعد ہم الگ
الگ جگہ کام کرنے لگے تھے۔ حالانکہ مسئلہ جوں کا توں بنا رہا تھا اور جب بھی ہم
اکٹھے ہوتے، وہی پرانی زندگی لوٹ آتی تھی، پھر بھی نلینی کا یہ یقین اب بھی کم
نہیں ہوا تھا کہ کبھی نہ کبھی میرے سماجی خیالات کو عروج ضرور حاصل ہوگا اور پھر
ہم ایک ساتھ رہ کر خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کر سکیں گے۔
“آپ کو کچھ سوچ رہے
ہیں؟” اس عورت نے اپنی بچی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
میں نے اچانک خود کو
یکجا کیا اور کہا،” ہاں، میں آپ ہی کی بات کے متعلق سوچ رہا تھا۔ کچھ لوگ ہوتے
ہیں، جنہیں بناوٹی رکھ رکھاؤ آسانی سے نہیں اوڑھا جاتا۔ آپ بھی شاید انہی لوگوں
میں سے ہیں۔ "
“میں نہیں جانتی۔” وہ
بولی،"مگر اتنا جانتی ہوں کہ میں بہت سے جان پہچان کے لوگوں کے درمیان خود کو
انجان، بیگانی اوربے جوڑ محسوس کرتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھ میں ہی کچھ کمی ہے۔
میں اتنی بڑی ہوکر بھی وہ کچھ نہیں سمجھ پائی، جو لوگ بچپن میں ہی سیکھ جاتے ہیں۔
دیشی کا کہنا ہے کہ میں سماجی طور پر بالکل مس فٹ ہوں۔"
“آپ بھی یہی سمجھتی
ہیں؟” میں نے پوچھا۔
“کبھی سمجھتی ہوں،
کبھی نہیں بھی سمجھتی۔” وہ بولی، “ایک خاص طرح کے معاشرے میں ،میں ضرور خودکو مس
فٹ محسوس کرتی ہوں۔ مگرکچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے درمیان جاکر مجھے بہت اچھا لگتا
ہے۔ بیاہ سے پہلے میں دو ایک بار کالج کی پارٹیوں کے ساتھ پہاڑوں پر گھومنے گئی
تھی۔ وہاں سب لوگوں کو مجھ سے یہی شکایت ہوتی تھی کہ میں جہاں بیٹھ جاتی ہوں، وہیں
کی ہوجاتی ہوں۔ مجھے پہاڑی بچے بہت اچھے لگتے تھے۔ میں ان کے گھر کے افرادسے بھی
بہت جلد دوستی کر لیتی تھی۔ ایک پہاڑی خاندان کی مجھے آج تک یاد تازہ ہے۔ اس
خاندان کے بچے مجھ سے اتنا گھل مل گئے تھے کہ میں بڑی مشکل سے انہیں چھوڑکر انکے
یہاں سے چل پائی تھی۔ میں کل دو گھنٹے ان لوگوں کے پاس رہی تھی۔ دو گھنٹے میں میں
نے انہیں نہلایادھلایا بھی اور ان کے ساتھ کھیلتی بھی رہی۔ بہت ہی اچھے بچے تھے
وہ۔ہائے، انکے چہرے اتنے سرخ تھے کہ کیا کہوں! میں نے ان کی ماں سے کہا کہ وہ اپنے
چھوٹے لڑکے کشنو کو میرے ساتھ بھیج دے۔ وہ ہنس کر بولی کہ تم سب کو لے جاؤ، یہاں
کون سے ان کیلئے موتی رکھے ہیں۔ یہاں تو دو سال میں انکی ہڈیاں نکل آئیں گی، وہاں
کھا پی کر اچھے تو رہیں گے۔ مجھے اس کی بات سن کر رونا آنے لگا۔۔۔میں اکیلی ہوتی
تو شاید کئی دنوں کیلئے ان لوگوں کے پاس رہ جاتی۔ ایسے لوگوں میں جا کر مجھے بہت
اچھا لگتا ہے ۔۔۔اب تو آپ کو بھی لگ رہا ہو گا کہ کتنی عجیب ہوں میں! یہ کہا کرتے
ہیں کہ مجھے کسی اچھے نفسیاتی معالج سے اپنا تجزیہ کرانا چاہئے، نہیں تو کسی دن
میں پاگل ہو کر پہاڑوں پر بھٹکتی پھروں گی! “
“یہ تو اپنی اپنی
بناوٹ کی بات ہے،” میں نے کہا، “مجھے خود پرانی وضع کے لوگوں کے درمیان رہنا بہت
اچھا لگتا ہے۔ میں آج تک ایک جگہ گھر بنا کر نہیں رہ سکا اور نہ ہی آئندہ امید ہے
کہ کبھی رہ سکوں گا۔ مجھے اپنی زندگی کی جو رات سب سے زیادہ یاد آتی ہے، وہ رات
میں نے پہاڑی گوجروں کی ایک بستی میں بسر کی تھی۔ اس رات اس بستی میں ایک بیاہ
تھا، تو ساری رات وہ لوگ شراب پیتے اور ناچتے گاتے رہے۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی، جب
مجھے بتایا گیا کہ وہی گوجر دس دس روپے کیلئے آدمی کا خون بھی کر دیتے ہیں!”
“آپ کو واقعی اس طرح
کی زندگی اچھی لگتی ہے؟” اس نے کچھ حیرت اور غیر یقینی کے ساتھ پوچھا۔
“آپ کو شاید خوشی ہو
رہی ہے کہ اس پاگل پنے کی آپ اکیلی ہی امیدوار نہیں ہیں،” میں نے مسکرا کر کہا۔ وہ
بھی مسکرائی۔ اس کی آنکھیں اچانک جذباتی ہو اٹھیں۔ اس ایک لمحے میں مجھے ان آنکھوں
میں نہ جانے کیا کچھ دکھائی دیا۔ہمدردی،حساسیت، ممتا،جذباتیت،چاؤ، خوف، کشمکش اور
پیار! اس کے ہونٹ کچھ کہنے کے لئے کانپے، لیکن کانپ کر ہی رہ گئے۔ میں بھی خاموشی
سے اسے دیکھتا رہا۔ چند لمحوں کیلئے مجھے محسوس ہوا کہ میرا دماغ بالکل خالی ہے
اور مجھے پتہ نہیں کہ میں کیا کر رہا تھا اور اس کے بعد کیا کہنا چاہتا تھا۔
دفعتاً اسکی آنکھوں میں پھر وہی سوناپن بھرنے لگا ۔ اور پل بھر میں ہی وہ اتنا بڑھ
گیا کہ میں نے اس کی جانب سے نظریں ہٹا لیں۔
بتی
کے پاس اڑتا کیڑا اس کے ساتھ چپک کر جھلس گیا تھا۔
بچی
نیند میں مسکرا رہی تھی۔
کھڑکی کے شیشے پر
اتنی دھند جم گئی تھی کہ اس میں اپنا چہرہ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔
گاڑی کی رفتار سست ہو
رہی تھی۔شاید کوئی اسٹیشن آ رہا تھا۔ دو ایک بتیاں تیزی سے نکل گئیں۔ میں نے کھڑکی
کا شیشہ اٹھا دیا۔ باہر سے آتی برفانی ہوا کے لمس نے حواسوں کو تھوڑا سا بیدار کر
دیا۔ گاڑی ایک بہت نیچے پلیٹ فارم کے پاس آکر کھڑی ہو رہی تھی۔
“یہاں کہیں تھوڑا سا پانی ملے گا؟”
میں نے چونک کر دیکھا
کہ وہ اپنی ٹوکری میں سے شیشے کاگلاس نکال کر غیر یقینی کے انداز سے ہاتھ میں لئے
ہے۔ اس کے چہرے کی لکیریں پہلے سے گہری ہو گئی تھیں۔
“پانی آپ کوپینے
کیلئے چاہئے؟” میں نے پوچھا۔
“ ہاں۔ کلی کروں گی
اور پیوں گی بھی۔ نہ جانے کیوں ہونٹ کچھ چپک رہے ہیں۔ باہر اتنی سردی ہے، پھر
بھی۔۔۔ “
“دیکھتا ہوں، اگر
یہاں کوئی نل ول ہو تو۔۔۔”
میں نے گلاس اس کے
ہاتھ سے لے لیا اور فوری طور پر پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ نہ جانے کیسا منحوس اسٹیشن
تھا کہ کہیں پر بھی کوئی انسان نظر نہیں آ رہا تھا۔ پلیٹ فارم پر پہنچتے ہی ہوا کے
جھونکوں سے ہاتھ پیر سن ہونے لگے۔ میں نے کوٹ کے کالر اونچے کر لیے۔ پلیٹ فارم کے
جنگلے کے باہر سے پھیل کر اوپر آئے دو ایک درخت ہوا میں سرسرا رہے تھے۔ انجن کے
بھاپ چھوڑنے سے لمبی شوں اُو ں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ شاید وہاں گاڑی سگنل نہ
ملنے کی وجہ سے رک گئی تھی۔
دور چند ڈبوں پیچھے
ایک نل دکھائی دیا، تو میں تیزی سے اس کی طرف چل دیا۔ اینٹوں کے پلیٹ فارم پر اپنے
جوتوں کی آواز مجھے بہت عجیب سی لگی۔ میں نے چلتے چلتے گاڑی کی طرف دیکھا۔ کسی
کھڑکی سے کوئی چہرہ باہر نہیں جھانک رہا تھا۔ میں نل کے پاس جا کر گلاس میں پانی
بھرنے لگا۔ تبھی ہلکی سی سیٹی دے کر گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ چل پڑی۔ میں بھرا ہوا
پانی کا گلاس لیے اپنے ڈبے کی طرف دوڑا۔ دوڑتے ہوئے مجھے لگا کہ میں اس ڈبے تک
نہیں پہنچ پاؤں گا اور سردی میں اس اندھیرے اور ویران پلیٹ فارم پر ہی مجھے بغیر
سامان کے رات گزارنی ہوگی۔ یہ سوچ کر میں اور تیز دوڑنے لگا۔ کسی طرح اپنے ڈبے کے
قریب پہنچ گیا۔ دروازہ کھلا تھا اور وہ دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا
کر گلاس مجھ سے لیا۔ فٹ بورڈ پر چڑھتے ہوئے ایک بار میرا پاؤں ذرا سا پھسلا، مگر
اگلے ہی لمحے میں سنبھل کر کھڑا ہو گیا۔ انجن تیز ہونے کی کوشش میں ہلکے ہلکے
جھٹکے دے رہا تھا اور اینٹوں کے پلیٹ فارم کی جگہ اب نیچے مبہم گہرائی دکھائی دینے
لگی تھی۔
“اندر آ جائیے۔”
اس کے یہ الفاظ سن کر
مجھے احساس ہوا کہ مجھے فٹ بورڈ سے آگے بھی کہیں جانا ہے۔ ڈبے کے اندر قدم رکھا،
تو میرے گھٹنے ذرا ذرا سے کانپ رہے تھے۔
اپنی جگہ پر پہنچ کر
میں نے ٹانگیں سیدھی کر کے پیچھے ٹیک لگالی۔ چند لمحوں بعد آنکھیں کھولیں تو لگا
کہ وہ اس بیچ منہ دھو آئی ہے۔ پھر بھی اس کے چہرے پر مردنی سی چھا رہی تھی۔ میرے
ہونٹ سوکھ رہے تھے، پھر بھی میں تھوڑا سا مسکرایا۔
“کیا بات ہے، آپ کا
چہرے ایسا کیوں ہو رہا ہے؟” میں نے پوچھا۔
“میں کتنی منحوس ہوں
۔۔۔” یہ کہہ کر اس نے اپنا نچلا ہونٹ ذرا سا کاٹ لیا۔
“کیوں؟”
“ابھی میری وجہ سے آپ
کو کچھ ہو جاتا۔۔۔”
“یہ خوب سوچا آپ نے!”
“نہیں۔ میں ہوں ہی
ایسی ۔۔۔ “وہ بولی،”زندگی میں ہر ایک کو دکھ ہی دیا ہے۔ اگر کہیں آپ نہ چڑھ
پاتے۔۔۔ “
“تو؟”
“تو؟” اس نے ہونٹ ذرا
سکوڑے، “تو مجھے پتہ نہیں ۔۔۔پر۔۔
“
اس نے خاموش ہو کر آنکھیں
جھکا لیں۔ میں نے دیکھا کہ اس کی سانس تیزی سے چل رہی ہیں۔ جانا کہ حقیقی آفت کے
مقابلے میں آفت کا تخیل زیادہ بڑا اور خطرناک ہوتاہے۔ شیشہ اٹھا رہنے کی وجہ سے
کھڑکی سے ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی۔ میں نے کھینچ کر شیشہ نیچے کر دیا۔
“آپ کیوں گئے تھے
پانی لانے کیلئے؟ آپ نے منع کیوں نہیں کر دیا؟ “ اس نے پوچھا۔
اسکے
پوچھنے کے انداز سے مجھے ہنسی آ گئی۔
“آپ ہی نے تو کہا
تھا۔”
“میں تو پاگل ہوں،
کچھ بھی کہہ دیتی ہوں۔ آپ کوتو سوچنا چاہیے تھا۔ “
“اچھا، میں اپنی غلطی
مان لیتا ہوں۔”
اس
سے اس کے مرجھائے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ آ گئی۔
“آپ بھی کہیں گے،
کیسی لڑکی ہے،” اس نے اندرونی اظہار کے ساتھ کہا۔”سچ کہتی ہوں، مجھے ذرا عقل نہیں
ہے۔ اتنی بڑی ہو گئی ہوں، پر عقل رتی بھر نہیں ہے،سچ! “
میں
پھر ہنس دیا۔
“آپ ہنس کیوں رہے
ہیں؟” اس کی آواز میں ایک بار پھر شکایت گھلی تھی۔
“مجھے ہنسنے کی عادت ہے۔” میں نے کہا۔
“ہنسنا اچھی عادت نہیں ہے۔”
مجھے
اس پر پھر ہنسی آ گئی۔
وہ
شکایت بھری نظر وں سے مجھے دیکھتی رہی۔
گاڑی
کی رفتار پھر تیزہو رہی تھی۔ اوپر کی برتھ پر لیٹا آدمی اچانک ہڑبڑاکے اٹھ بیٹھا
اور زور زور سے کھانسنے لگا۔ کھانسی کا دورہ کم ہونے پر اس نے کچھ وقت سینے کو
ہاتھ میں دبائے رکھا، پھر بھاری آواز میں پوچھا، “کیا بجا ہے؟”
“پونے بارہ۔” میں نے اس کی طرف دیکھ کر جواب دیا۔
“بس پونے بارہ؟” اس نے مایوسی بھرے لہجے میں کہا اور پھر لیٹ
گیا۔ کچھ ہی دیر میں وہ پھرخراٹے بھرنے لگا۔
“آپ بھی تھوڑی دیر سو جائیے۔” وہ پیچھے ٹیک لگائے شاید کچھ سوچ
رہی تھی یا صرف دیکھ رہی تھی۔
“آپ کو نیند آ رہی ہے،آپ سو جائیے،” میں نے کہا۔
“میں نے آپ سے کہا تھا نہ کہ مجھے گاڑی میں نیند نہیں آتی۔آپ سو
جائیے۔ “
میں
نے لیٹ کر کمبل اوڑھ لیا۔ میری آنکھیں دیر تک اوپر جلتی بتی کو دیکھتی رہیں ،جس کے
ساتھ جھلسا ہوا کیڑا چپک کر رہ گیا تھا۔
“رضائی بھی لے لیجئے، کافی ٹھنڈ ہے،” اس نے کہا۔
“نہیں، ابھی ضرورت نہیں ہے۔ میں بہت سے گرم کپڑے پہنے ہوں۔ “
“لے لیجئے،ورنہ بعد میں ٹھٹھرتے رہ جائیں گے۔”
“نہیں، ٹھٹھروں گا نہیں۔” میں نے کمبل گلے تک لپیٹتے ہوئے کہا،
“اور تھوڑی تھوڑی ٹھنڈ محسوس ہوتی رہے تو اچھا لگتا ہے۔”
“بتی بجھا دوں؟” کچھ دیر بعد اس نے پوچھا۔
“نہیں، رہنے دو۔”
“نہیں، بجھا دیتی ہوں۔ ٹھیک سے سو جائیے۔ “ اور اس نے اٹھ کر
بتی بجھا دی۔ میں کافی دیر اندھیرے میں چھت کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر مجھے نیند آنے
لگی۔
شاید رات آدھی سے
زیادہ گزر چکی تھی، جب انجن کے بھونپو کی آواز سے میری نیند کھلی۔ وہ آواز کچھ
ایسی بھاری تھی کہ میرے پورے بدن میں ایک جھرجھری سی بھر گئی۔ پچھلے کسی اسٹیشن پر
انجن بدل گیا تھا۔
گاڑی آہستہ آہستہ
چلنے لگی تو میں نے سر تھوڑا اونچا اٹھایا۔ سامنے کی سیٹ خالی تھی۔ وہ عورت نہ
جانے کس اسٹیشن پر اتر گئی تھی۔ اسی اسٹیشن پر نہ اتری ہو، یہ سوچ کر میں نے کھڑکی
کا شیشہ اٹھا دیا اور باہر دیکھا۔ پلیٹ فارم بہت پیچھے رہ گیا تھا اور بتیوں کی
قطار کے سوا کچھ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں نے شیشہ پھر نیچے کھینچ لیا۔
اندر کی روشنی اب بھی بجھی ہوئی تھی۔ بستر میں نیچے کو سرکتے ہوئے میں نے دیکھا کہ
کمبل کے علاوہ میں اپنی رضائی بھی لیے ہوں، جسے اچھی طرح کمبل کے ساتھ ملا دیا گیا
ہے۔ گرمی کے کئی ایک کانٹے ایک ساتھ جسم میں بھر گئے۔
اوپر
کی برتھ پر لیٹا آدمی اب بھی اُسی طرح زور زور سے خراٹے بھر رہا تھا۔
تعارف مصنف:
موہن
راکیش 8 جنوری 1925 ءکو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات
میں ایم اے کیا۔ نئی ہندی کہانی کے بانیوں میں شمار ہوئے۔ ناول لکھے۔ ہندوستانی
تھیٹر میں موہن راکیش کا ایک منفرد مقام ہے۔ 3 جنوری 1972ء کو دہلی میں وفات پائ
No comments:
Post a Comment