Enjoy intersting short stories

Tuesday, 28 November 2017

افسانہ : سُرخ لباس --- تحریر: ایلس منرو --کینیڈا ---مترجم: حمزہ حسن شیخ

Read online 
Original Title: Red dress (Published in 1946)

Alice Munro (born 10 July 1931)
a Canadian short story writer who won the Nobel Prize in Literature in 2013.
افسانہ  : سُرخ لباس
تحریر: ایلس منرو --کینیڈا
مترجم: حمزہ حسن شیخ -اسلام آباد، پاکستان
**************************************
میری ماں میرے لیے، نومبر کے پورے مہینے میں ایک لباس بناتی رہی تھی۔ مَیں سکول سے آتی تو وہ کچن میں کام کررہی ہوتی اور اس کے اردگرد کٹے ہوئے سرخ ریشمی کپڑے کے ٹکڑے اور ٹشوپیپر کے بنے ہوئے نمونے پڑے ہوتے۔ وہ کھڑکی کی روشنی میں اپنی پرانی سینے والی مشین رکھ کر کام کرتی اور ساتھ ساتھ باہر بھی دیکھتی رہتی کہ ہرے بھرے کھیتوں اور سبزیوں کے باغات کے ساتھ والی سڑک سے کون کون گذرا ہے۔ وہاں سے کبھی کبھار ہی کوئی گذرتاتھا۔
سُرخ مخملی کپڑے کے ساتھ کام کرنا کوئی آسان نہ تھا کیونکہ یہ باربار کھینچ جاتااور میری ماں نے اس لباس کے لیے جو ڈیزائن منتخب کیاتھا،وہ انتہائی مشکل تھا۔ اس کے علاوہ وہ اچھا سینے پرونے والی عورت نہ تھی۔ ہاں یہ اور بات تھی کہ وہ چیزیں بناناپسندکرتی تھی۔ جب کبھی بھی اُسے موقع ملتا وہ بخیہ گری اور استری کرنے سے جان چھڑانے کی کوشش کرتی اور اُس نے کبھی بھی اچھے سلیقے سے سینے، بٹن ٹانکنے اور لباس کے جوڑ گانٹھنے میں فخر محسوس نہیں کیاتھا جس طرح کہ میری پھوپو اور دادی محسوس کرتی تھیں۔ اُن کے برعکس، وہ ایک جذبے کے ساتھ کام شروع کرتی۔ ایک خوبصورت اور چونکا دینے والے خیال کے ساتھ اور اُس لمحے کے بعد، اُس کا جذبہ کم ہونا شروع ہوجاتا۔ پہلی بار تو وہ کوئی ڈیزائن ہی پسندنہ کرپاتی۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں، کوئی ڈیزائن ایسا تھا ہی نہیں جو اُس کے ذہن میں گردش کرتے خیالات سے مطابقت رکھتا۔ جب میں چھوٹی تھی تو اُس نے کئی بار میرے لیے کپڑے بنائے تھے، ایک پھول دار لباس جس کے گلے پٹی پر اچھی خوبصورت وکٹورین لیس کھُردرے انداز میں لگی تھی، ایک تھیلا نما ٹوپی، ایک شاندار اسکاٹش قمیص جس کے ساتھ مخمل کی جیکٹ اور ٹوپی تھی اور ان کے علاوہ ایک کشید والا کسانی لباس جس کے ساتھ سُرخ رنگ کا اسکرٹ اور سیاہ لیس دار قمیص تھی۔ میں نے ان کپڑوں کو بہت شائستہ انداز میں پہنا تھااور میں دنیا کی رائے جانے بغیر ان دنوں بہت خوش تھی۔ اب چونکہ میں سمجھ دار ہوگئی تھی تو میں نے ایسے لباسوں کے لیے خواہش کرنا شروع کی جس طرح میری دوست لونئی کے تھے جو اُس نے بیلے کے اسٹور سے خریدے تھے۔میں نے بھی وہ کئی بار پہنے تھے۔ کبھی کبھار لونئی اسکول سے واپسی پر میرے ساتھ میرے گھرآتی اور وہ کرسی پر بیٹھ کر مجھے دیکھتی۔ میں اُس وقت بہت پریشان ہوجاتی جب ماں میرے اردگرد چکرلگاتی، اُس کے گھٹنے چٹکتے اور اُس کی سانسیں تیز ہوجاتیں۔ وہ خود سے بڑبڑاتی رہتی۔ گھرکے اردگرد، وہ کوئی موزے یا انگیانہ پہنتی۔ وہ گھٹنوں تک جرابیں اور لمبی ہیل والے جوتے پہنتی اُس کی ٹانگیں سبزونیلی رگوں کے نشانات سے اٹی ہوئی تھیں۔ میں نے اُس کے بے شرمی سے گھٹنے اُٹھاکر بیٹھنے کے انداز کے بارے میں سوچا جو کہ مجھے بہت بے ہودہ لگا۔ میں نے لونئیے سے بولنا جاری رکھا تاکہ جتنا بھی ممکن ہو اس کی توجہ میری ماں کی جانب نہ جائے۔ لونئیایک شائستہ، قابل تعریف اور سنجیدہ انداز اپنائے بیٹھی رہی جو بڑوں کی موجودگی میں اُس کا روپ بدلنے کا مخصوص انداز تھا۔ وہ اُن پر ہنسی اور یہ ایک غصیلا تمسخراتی انداز تھا جس کا کسی کو پتہ نہ چلا۔ میری ماں نے مجھے اُٹھایا اور مجھے لطف سے بھردیا۔ اُس نے مجھے تھوڑا سا جھلایا اور پھر سیدھا کھڑا کردیا۔
’’ لونئیے تمہارااس بارے میں کیا خیال ہے؟ ‘‘
’’یہ بہت خوبصورت ہے۔‘‘ لونئیے نے اپنے مخلص اور نرم لہجے میں کہا۔ لونئیکی ماں مرچکی تھی۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ رہتی تھی جس نے اُس کی کبھی پرواہ نہ کی تھی اور اس وجہ سے وہ میرے نزدیک محترم اور قابلِ رحم تھی۔
’’ہاں یہ ہوجائے گا، اگر میں نے اس کی ناپ ٹھیک کرلی،‘‘میری ماں نے کہا،’’ہاں، اچھا۔‘‘میں نے ڈرامائی انداز میں اپنے پاؤں پر دردناک آہوں اور آوازوں کے ساتھ گھومتے ہوئے کہا۔
’’مجھے شک ہے، پتہ نہیں یہ اس کی تعریف بھی کرتی ہے یا نہیں۔‘‘اُس نے لونئیے سے بات کرتے ہوئے مجھے غصے سے گھورا، جیسے لونئیے تو ایک عورت تھی جبکہ میں صرف ایک بچی تھی۔’’سکون سے کھڑی رہو ۔‘‘ اُس نے میرے سر کے اوپر سے لباس کو کھینچتے ہوئے کہا۔میرا سر مخمل میں چھُپ گیا اور کاٹن کے پرانے یونیفارم میں چھُپا میرا جسم نمایاں ہوگیا اور مجھے اپنا آپ بہت ہی کھُردرا، ڈھیلاڈھالااور بطخ کے بھیگے بدن کی طرح محسوس ہوا۔ میں نے خواہش کی کہ میں بھی لونئیے کی طرح ہلکی پھُلکی، کمزور اور زرد سی ہوں جیسے وہ ایک نیلے رنگ کی بچی تھی
’’کسی نے بھی مجھے لباس بناکر نہیں دیاتھا جب میں ہائی سکول جارہی تھی۔‘‘میری ماں نے کہا۔
’’میں نے خود بنایاتھا اور کسی نے بھی میری مدد نہ کی۔‘‘میں ڈر گئی کہ وہ دوبارہ وہی کہانی شروع کررہی تھی کہ وہ سات میل دُور پیدل سکول جاتی تھی اور پھربورڈنگ ہاؤس کی میزوں پر بیٹھ کر نوکری کی تلاش کرتی تھی تاکہ وہ ہائی سکول جاسکے۔میری ماں کی زندگی کی ساری کہانیاں جو کبھی مجھے بہت دلچسپ معلوم ہوتی تھیں، اب مجھے صرف ڈرامائی، غیرضروری اور تھکادینے والی محسوس ہونے لگی تھیں۔
’’ایک دفعہ، مجھے ایسا لباس ملا تھا، اُس نے کہا۔’’یہ کریم کلر کا اُونی کپڑاتھا۔ جس کے سامنے والے حصے پر نیلی لائنیں نیچے کی جانب جارہی تھیں اور اس کے خوبصورت موتی نما بٹن تھے، میں حیران ہوں کہ یہ کیسے بنایاگیاتھا؟‘‘
جب ہم فارغ ہوئے تو میں اور لونئیاوپراپنے کمرے میں آگئیں۔ وہاں ٹھنڈ تھی لیکن ہم وہیں رُک گئے۔ ہم نے اپنے کلاس کے لڑکوں کے بارے میں باتیں کیں، باری باری ساری قطاروں کا جائزہ لیااور ایک دوسرے سے پوچھتی رہیں،’’کیا تم اُسے پسند کرتی ہو؟اچھا کیا تم اُسے آدھا پسند کرتی ہو؟ کیا تم اس سے نفرت کرتی ہو؟ کیا تم اس کے ساتھ باہرجاؤ گی اگر اُس نے تمہیں کہا تو؟ لیکن کسی نے ہم سے نہیں پوچھا تھا۔ ہم تیرہ سال کی تھیں اور ہم دو ماہ سے ہائی سکول جارہی تھیں۔ ہم نے مختلف رسائل کے سوالنامے بنائے تھے، یہ جاننے کے لیے کہ کیا ہم بھی شخصیت بنیں گی یا ہم بھی مشہور ہوں گی۔ ہم اپنے چہروں کو سجانے، اپنی اچھی عادات کونمایاں کرنے، اپنی پہلی ملاقات پر گفتگو شروع کرنے اور جب لڑکا دُور جانا شروع ہوتو اُس کو منانے کے بارے میں کئی مضامین پڑھتیں۔ ہم نے اور بھی بہت سے مضامین پڑھے مثلاًحیض کے بارے میں، بچہ گرانے یا یہ کہ خاوند اپنے گھر سے باہر اطمینان کیوں تلاش کرتے ہیں؟ جب ہم نے اسکول کا کام نہیں کرنا ہوتاتھا تو ہمارا زیادہ تروقت غلہ صاف اور ذخیرہ کرنے میں گذرتا اور ساتھ ساتھ ہم جنسیات کی باتیں بھی کرتی رہتیں۔ ہم نے آپس میں وعدہ لیاتھا کہ ہم ایک دوسرے کو ہر بات بتائیں گی۔ لیکن ایک بات جو میں نے نہیں بتائی تھی وہ اس ڈانس کے بارے میں تھی۔ ہائی سکول کا کرسمس ڈانس جس کے لیے میری ماں میرے لیے لباس بنا رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ میں جانا نہیں چاہتی تھی۔
ہائی سکول میں مَیں ایک منٹ کے لیے بھی آرام دہ نہ تھی۔ مجھے لونئیے کے بارے میں کوئی خبر نہ تھی۔ امتحانات سے پہلے مجھے اُس کے یخ ہاتھوں اور تیز دھڑکن کا معلوم ہواتھا لیکن مجھے ہر وقت مایوسی گھیرے رکھتی۔ جب مجھ سے کلاس میں کوئی سوال پوچھتا، بالکل ایک چھوٹااور معمولی سا سوال، تو جواباًمیری لرزتی پتلی سی چیخ نما آواز نکلتی۔ جب مجھے بلیک بورڈ کی جانب جاناہوتا تو مجھے یقین ہوتا۔اگرچہ ان مہینوں میں بھی جب کہ اس کا امکان بھی نہ ہوتاکہ قمیص پر خون لگا ہُوا ہے۔ میرے ہاتھ پسینے کی وجہ سے پھسلتے جب میں بلیک بورڈ پر پرکار سے زاویہ لگانے کی کوشش کرتی۔ میں والی بال میں بال نہ اُچھال سکتی۔ دوسروں کے سامنے کوئی کام کرنے کا کہاجاتا تو میری ساری ہمت جواب دے جاتی۔ مجھے بزنس پریکٹس سے نفرت تھی کیونکہ آپ کو ایک کھاتہ کتاب کے کئی صفحات ایک ہی قلم سے بھرنے پڑتے تھے اور جب بھی کوئی استاد میرے کندھے کے اوپر سے مجھ پر جھانکتا تو میری ساری سیدھی لائنیں خراب ہوجاتیں اور آپس میں گُڈمُڈ ہوجاتیں۔ مجھے سائنس سے بھی نفرت تھی کیونکہ ہم نازک اور ان جانے آلات کی میزوں کے پیچھے اور تیز روشنیوں کے نیچے اسٹولوں پر بیٹھے بیٹھے جھُلس جاتے اور ہمیں اسکول کا پرنسپل یہ مضمون پڑھاتا جس کی آواز بہت ہی سرد مُہر اور خودپسند قسم کی تھی۔ وہ روزانہ ہی صحیفے پڑھتااور ذلت پر سزادینے میں ماہرتھا۔ مجھے انگریزی سے نفرت تھی کیونکہ لڑکے اس کلاس میں پیچھے بیٹھ کر موسیقی بجاتے جبکہ ایک خوبصورت شریف اور مغرور سی ہلکی سی بھینگی اُستانی سب کے سامنے ورڈزورتھ پڑھتی۔ اُس نے اُن کو دھمکی دی، اُن کی منت سماجت کی، اُ س کا چہرہ سُرخ تھا اور اُس کی آواز بھی اتنی ہی کمزور اور ناقابلِ اعتبار تھی جتنی میری۔ وہ اس کی التجاؤں کا تمسخراُڑاتے اور جب وہ دوبارہ پڑھنا شروع کرتی، تو وہ اس کی عجیب و غریب نقلیں اُتارتے، قسم قسم کے منہ بناتے، اپنی آنکھوں کو بھینگا کرلیتے اور اپنے دلوں پر ہاتھ پھیراتے رہتے۔ کبھی کبھار وہ رونے لگتی۔ کوئی بھی اُس کی مدد نہ کرتا اور وہ بھاگتے ہوئے کلاس سے چلی جاتی۔ پھر لڑکے اونچی اونچی آواز میں رونے کی آوازیں نکالتے اور بلند قہقہے لگاتے۔ کبھی کبھار میرا قہقہ بھی اُس کا تعاقب کرتا۔ ایسے وقت میں کمرے میں بربریت پر رنگ رلیاں مناتا ماحول ہوتا جو مجھ جیسے کمزور اور ڈرے ہوئے لوگوں کو زیادہ ڈرادیتا۔
لیکن اسکول میں درحقیقت کیاکچھ ہورہاتھا وہ صرف بزنس پریکٹس، سائنس اور انگریزی نہ تھی۔ وہاں پر اور بھی کچھ نہ کچھ تھا جس کی چمک دمک یا اہمیت تھی۔ وہ پرانی عمارت جس کے چٹانی دیواروں کے لیس دار تہ خانے تھے، سیاہ چغابدلنے کے کمرے، گذرے ہوئے شاہوں اور کھوئے ہوئے فوجیوں کی تصاویر، جنیاتی مقابلوں کی پُرلطف اور پریشان کُن فضااور اس کے علاوہ بڑی کامیابیوں کے کھُلی آنکھوں سے دیکھے خواب اور میرے لیے وہاں اپنی شکست قبل از اطلاع موجودتھی۔ کسی چیز کا ہونا تھا جس نے مجھے اس ڈانس سے بازرکھا۔
دسمبرمیں برف باری شروع ہوگئی اور مجھے ایک خیال سوجھا۔ اس سے پہلے میں اپنے بائیسکل سے گرنے کا تصور کرچکی تھی۔ اپنا ٹخنہ ٹوٹنے کا اور میں نے اس پر قابو پانے کی کوشش کی تھی جیسے میں سخت سردی میں دوبار ہ سوار ہوکر گھر کی جانب چلی تھی۔ملک کی سڑکوں پراپنے سائیکل کے گہرے نشان چھوڑتے ہوئے۔ لیکن یہ بہت مشکل تھا۔ تاہم مجھے گلے اورحلق کی نالیاں خطرناک حد تک کمزورمحسوس ہوئیں۔میں نے راتوں کو بستر سے اُٹھنا شروع کردیا۔اوراپنی کھڑکی کو تھوڑا کھول کرمیں تھوڑا سا نیچے جھکتی اور ہوا کو اندرآنے دیتی جس کے ساتھ کبھی کبھار برف بھی چمٹی ہوتی جو کہ میرے ننگے گلے پر حملہ آورہوتی۔ میں اپنے پاجامے کا اوپری حصہ ہٹادیتی اور خودکو یہ الفاظ کہتی۔’’سردی سے نیلا‘‘اور میں جیسے ہی وہاں پر جھکتی، میری آنکھیں بندہوجاتیں، مجھے اپنا سینہ اور گلا نیلااور ٹھنڈاہوتامحسوس ہوتا جس کے نیچے گھوری نیلی رگوں کا جال جلدمیں چھُپاہوتا۔ میں اتنی دیر وہاں پر ٹھہری رہتی جب تک مجھ میں سکت ہوتی۔ اور پھرمیں کھڑکی کی دہلیز سے مٹھی بھر برف اُٹھاتی ا ور اس کو اپنے سینے پر ڈال دیتی ، اپنے پاجامے کے بٹن بند کرنے سے پہلے۔ یہ فلالین کے کپڑے کی گرمی سے پگھل جاتی اور میں ساری رات بھیگے کپڑوں میں ہی سوئی رہتی جو کہ سب سے خطرناک اور بدترین بات تھی۔ صبح کو جیسے ہی میں جاگتی، میں اپنا گلہ صاف کرتی کہ کہیں یہ سوجھا ہوا تو نہیں ، یہ دیکھنے کے لیے کھانستی، یہ امید کرتے ہوئے اپنی پیشانی پر ہاتھ لگاتی کہ مجھے بخار تو نہیں۔ یہ بالکل ٹھیک نہ تھا۔ ہرصبح ڈانس کے دن بشمول، میں شکست خوردہ اُٹھتی اگرچہ اچھی صحت کے ساتھ۔ ڈانس والے دن میں اپنے بال بالکل سیدھے گھنگریالے کرتی لیکن آج زنانہ رسومات کی تمام ممکنہ حفاظت چاہتی تھی۔ میں کچن میں پڑے صوفے پر لیٹ گئی اور کتاب’’ پومپائی کے آخری ایام‘‘پڑھنے لگی اور یہ خواہش کی کہ کاش میں وہاں ہوتی۔ میری ماں کبھی بھی مطمئن نہ ہوتی، وہ ہروقت لباس کے سفید کالر کی لیس سیتی رہتی، اُس نے یہ فیصلہ کیاتھا کہ اس کا پہناؤ بڑی عمر کا لگنا چاہیے۔ میں نے گھنٹوں اُس کو دیکھا۔ یہ سال کے مختصر ترین دن تھے۔ اس صوفے کے اوپر، ایک چاٹ لگا ہواتھا جس میں او ایس اور ایکس ایس کی پرانی گیمز کے بارے میں لکھاتھا۔ بڑی تصاویر لگی تھیں اور میرے اور میرے بھائی کے خطوط جب ہم دونوں آنتوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔ میں نے اُن کو دیکھا اور پھر گذرے ہوئے بچپن میں حفاظت کے ساتھ رہنے کی خواہش کی۔
جب میں نے اپنے بال گھنگریالے کرلیے اور دونوں قدرتی اور مصنوعی طریقے اپنا لیے اور اُن کو چمکدار جھاڑی کی بہت سی شاخوں کی طرح پھیلادیاتھا۔ میں نے ان کو گیلاکیا، کنگھی کی اور ان کو برش سے باربار ٹھیک کیااور ان کو نیچے کی جانب اپنے رخساروں کے ساتھ لٹکادیا۔ میں نے چہرے پر پوڈرلگایا جو کہ میرے گرم چہرے پر چاک کی طرح چپک گیا۔ میری ماں نے اپنا لوشن"ایشز آف روزز"نکالا جو اُس نے کبھی نہیں لگایاتھا اور اُس کو میرے بازوؤں پر لگادیا۔ پھر اُس نے میرے لباس کی زپ بندکی اور مجھے آئینے کے سامنے کھڑا کردیا۔ لباس بالکل شہزادیوں جیساتھا اور درمیان سے یہ بہت فٹ تھا۔ میں نے دیکھا کہ کیسے میری چھاتیاں نئی انگیا میں بھری ہوئی مگر حیران کن حد تک باہرکو اُبل رہی تھیں، سن بلوغت کی پختگی کے ساتھ۔
’’میرا دل چاہ رہا ہے کہ کاش میں تصویر لے سکتی۔‘‘میری ماں نے کہا’’مجھے اس کی سلائی پر فخر محسوس ہورہا ہے اور تمہیں میرا شکریہ اداکرناچاہیے۔‘‘
’’شکریہ۔‘‘میں نے کہا۔
جب میں نے دروازہ کھولا تو لونئینے سب سے پہلے کہا،’’ہائے اللہ، تم نے اپنے بالوں کو کیا کردیا ہے؟‘‘
’’یہ میں نے بنائے ہیں۔‘‘
’’تم بالکل بھوت لگ رہی ہو لیکن فکر نہ کرو۔ مجھے کنگھی دو اور میں سامنے سے اِن کو ٹھیک کردیتی ہوں۔ پھر یہ بالکل ٹھیک نظرآئیں گے۔ ان میں تو تم بالکل بوڑھی نظرآرہی ہو۔‘‘
میں آئینے کے سامنے بیٹھ گئی اور لونئیمیرے پیچھے کھڑی ہوکے میرے بال ٹھیک کرنے لگی۔ میری ماں نے ہمیں اکیلا نہ چھوڑا۔ میری خواہش تھی کہ وہ چلی جائے۔ اُس نے گھنگریالے بالوں کو دیکھا اور کہا، ’’ لونئی!تم نے تو مجھے حیران کردیا۔ تمہیں تو ہیرڈریسر بننا چاہیے۔‘‘
’’اچھی سوچ ہے!‘‘ لونئینے جواب دیا۔ اُس نے زرد نیلے رنگ کا کریپ کا لباس پہناہواتھا جس پر مختلف ڈیزائن بنے تھے۔ یہ لباس مجھ والے سے کہیں زیادہ اچھاتھا اگرچہ اس کے کالر نہیں تھے۔ اس کے بال اس طرح باہر نکلے ہوئے تھے جیسے گڑیا کے ہوں۔ میں نے چوری چھپے ہمیشہ یہ سوچاتھا کہ لونئیخوبصورت نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے دانت ٹیڑھے تھے لیکن میں نے اب دیکھا کہ چاہے اُس کے دانت ٹیڑھے تھے یا نہیں، اُس کے اسٹائلش لباس اور نرم بالوں نے اُس کو ایک طلسماتی گڑیامیں تبدیل کردیاتھا جو کہ سرخ ریشم سے بھری ہوئی تھی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں تھیں، بکھرے ہوئے بال جس پر جوش مسرت چھائی ہوئی تھی۔
میری ماں دروازے تک ہمارے ساتھ آئی اور اندھیرے میں پکارا،’’خداحافظ‘‘۔ یہ میرا اور لونئی کا روایتی سلام تھا۔ یہ بالکل ہی بیوقوفانہ سا محسوس ہوتااور اُس کی جانب سے یہ بے کس سا انداز مجھے عجیب محسوس ہوتا اور مجھے اُس پر شدید غصہ آتا کہ جب میں جواب ہی نہیں دیتی وہ یہ الفاظ کیوں استعمال کرتی ہے۔ لیکن صرف لونئی تھی جو خوش دلی سے جواب دیتی اور بہت ہی ہمت سے کہتی،’’شب بخیر۔‘‘
ورزش گاہ میں چیڑ اور صنوبر کی بُو پھیلی تھی۔ باسکٹ بال کے پولوں کے ساتھ کاغذ کی خوبصورت سُرخ اور سبز بالیں لٹک رہی تھیں۔ بڑی کلاسوں کے زیادہ تر طلباء جوڑوں میں نظرآتے تھے۔ بارہویں اور تیرھویں کلاس کی کچھ طالبات اپنے ساتھ اپنے بوائے فرینڈز لائی تھیں جو پہلے ہی یہاں سے گریجویشن کرچکے تھے یا شہر کے اطراف میں کاروبار کرتے تھے۔ یہ نوجوان ورزش گاہ میں سگریٹ پیتے اور کوئی بھی اُن کو نہیں روک سکتا تھا، وہ آزاد تھے۔ لڑکیاں اپنے ہاتھ آہستگی سے مردانہ آستینوں پر جمائے اُن کے ساتھ کھڑی تھیں اور اُن کے چہرے تھکے، الگ الگ سے اور خوبصور ت تھے۔ مجھے خواہش ہوئی کہ میں بھی اُن کی طرح نظر آؤں۔ اُن کا رویہ ایسا تھا جیسے صرف وہی بڑے ہوں جن کو صرف ڈانس کرناآتا ہے اور جیسے ہم باقی سب جن کے درمیان وہ گذر اور گھوم رہے تھے، وہ اُن کو نہ نظرآرہے تھے اور نہ ہی اُن کے لیے اہم تھے۔ جب پیلے ڈانس کا اعلان کیاگیا وہ سُستی سے باہرکی جانب گئے، ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے جیسے اُن کو بچپن کے کسی بھولے ہوئے کھیل میں حصہ لینے کا کہاگیا ہو۔ ہاتھ پکڑے اور آہستگی سے کانپتے ہوئے وہ آپس میں اکٹھے ہورہے تھے، میں، لونئی اور نویں کلاس کی دوسری طالبات اُن کے پیچھے چل رہی تھیں۔
میں نے بیرونی دائرے کو دیکھنے کی جرأت نہ کی۔ جب وہ میرے پاس سے گذرا، اس خوف سے کہ کہیں میں کوئی جلدی میں بدتہذیبی نہ دیکھ لوں۔ جب موسیقی رُکی تو میں اپنی جگہ پر رُکی رہی جہاں میں ٹھہری تھی اور اپنی آدھی آنکھیں اُٹھاتے ہوئے میں نے ایک لڑکے کو دیکھا جس کا نام میس ولیمز تھا اور وہ آہستگی سے میری جانب آرہاتھا۔ اس نے آہستگی سے میری کمراور انگلیوں کو چھُوااور میر ے ساتھ ڈانس کرنے لگا۔ میری ٹانگیں کھُل گئیں اور میرا بازو کندھوں سے تھرکنے لگااور میں نے ابھی ایک لفظ بھی نہ بولاتھا۔ میس ولیمز کاشمار سکول کے چند ایک ہیروز میں ہوتاتھا۔ وہ باسکٹ بال اور ہاکی کھیلتاتھا۔ اور وہ ایک شاہانہ غرور اور وحشیانہ انداز میں مختلف جگہوں پر گھومتانظرآتا۔ مجھ جیسی غیراہم لڑکی کے ساتھ ڈانس کرنا اُس کے لیے اتنا ہی غیراہم تھا جتنا اُس کے لیے شیکسپیئر یادکرنا۔ اُس نے بھی اس بات کو شدت سے محسوس کیاجتنا کہ میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنے دوستوں کو ناگواری کے تاثرات دے رہاتھا۔ اس نے فرش کے کنارے کو ٹھوکرلگاتے ہوئے مجھے زور سے گھمایا۔اُس نے میری کمر سے اپنا ہاتھ ہٹایااور میرا بازو جھٹک دیا۔
’’پھرملتے ہیں۔‘‘اُس نے کہااور چلاگیا۔
مجھے ایک دو منٹ بات سمجھنے میں لگے کہ کیا ہُوا ہے اور وہ اب دوبارہ واپس نہیں آئے گا۔ میں دیوار کے ساتھ اکیلی کھڑی ہوگئی۔ فزیکل ایجوکیشن کی ایک اُستانی دسویں کے طالب علم کی بانہوں میں خوش دلی سے ڈانس کرتی ہوئی جب میرے قریب سے گذری تو اُس نے مجھے متجسس نگاہوں سے دیکھا۔ پورے سکول میں وہ واحداُستانی تھی جو کہ معاشرے میں ہونے والی ساری حرکات اور الفاظ کو خوب سمجھتی تھی اور مجھے یہ خوف تھا کہ اگر اُس نے سب کچھ دیکھ لیا ہے یا اُس کو پتہ چل گیا تو وہ ضرور ماسن کو لوگوں کے سامنے مجبور کردے گی کہ وہ میر ے ساتھ ڈانس نہ کرے۔مجھے ماسنپر کوئی غصہ یا حیرت نہ تھی۔ میں سکول میں اُس کی حالت سمجھ گئی تھی اور اپنی بھی اور میں نے دیکھا کہ جو کچھ بھی اُس نے کیا تھا، وہ حقیقت پر مبنی تھا۔ وہ واقعاً ایک ہیروتھا، وہ سکول کونسل قسم کا کوئی ہیرو نہ تھا کہ جس کی کامیابی صرف سکول کی دیوار تک محدود ہو۔ اُن میں سے کئی لڑکوں نے میرے ساتھ بڑی جرأت اور سلیقے کے ساتھ ڈانس کیاتھا اور مجھے کسی خوشگوار لمحے کے بغیر چھوڑ گئے تھے۔ تاہم ابھی بھی مجھے امید تھی کہ مجھے کافی لوگوں نے دیکھا تھا۔ مجھے لوگوں کے دیکھنے سے نفرت تھی۔ میں نے اپنے انگوٹھے کی جلد کو کاٹنا شروع کردیا۔ جب موسیقی رُکی تو میں ورزش گاہ کے ایک کونے میں جمع لڑکیوں کے گروپ میں شامل ہوگئی۔ میں نے یہ تاثر دیا کہ جیسے کچھ ہُوا ہی نہیں اور خو دسے کہا کہ سب کچھ ابھی شروع ہونے والا ہے۔
موسیقی دوبارہ شروع ہو گئی تھی۔ کمرے میں ہماری جانب کے گھنے ہجوم میں حرکت پیدا ہوئی اور جلد ہی یہ ہجوم کم ہونے لگا۔لڑکے آئے اور لڑکیاں ان کے ساتھ ڈانس کے لیے چلی گئیں۔لُونئی بھی چلی گئی اور میرے ساتھ ٹھہری لڑکی بھی چلی گئی۔ کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا۔ میں نے رسالے کے اس مضمون کو یاد کیا جو میں نے اور لُونئی نے پڑھا تھا جس میں لکھا تھا ۔ خوش رہو اور لڑکوں کو اپنی چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھنے دو! ان کو اپنی آواز میں خوشی کے قہقے محسوس کرنے دو! بالکل سادہ اور واضح، لیکن کتنی ہی لڑکیاں بھول گئیں؟ یہ سچ تھا ، میں بھی بھول گئی تھی۔ میرے آبرو پریشانی کی وجہ سے تن گئے تھے، میں خوفزدہ اور بد صورت دکھائی دینے لگی تھی۔ میں نے ایک سانس لیا اور اپنا چہرہ ڈھیلا چھوڑنے کی کوشش کی، میں مسکرائی لیکن مجھے کسی پر بھی مسکراتے ہوئے بہت عجیب سا محسوس ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ ڈانس کرتی ہوئی لڑکیاں، مشہور و معروف لڑکیاں، ان میں سے کوئی بھی نہیں مسکرا رہی تھی ، ان میں سے زیادہ تر کے چہرے نیند سے بھرے اور آزردہ تھے اور وہ بالکل نہیں مسکرا رہی تھیں۔ لڑکیاں ابھی تک ڈانس کرنے کے لیے جا رہی تھیں، کچھ نے مایوس ہو کر آپس میں جوڑے بنا کر ڈانس شروع کر دیا تھا لیکن زیادہ تر لڑکوں کے ساتھ گئی تھیں۔ موٹی لڑکیاں، کیل مہاسوں والی لڑکیاں، ایک غریب لڑکی جس کے پاس پہننے کے لیے اچھا لباس نہ تھا اور نہ کوئی خوبصورت اسکرٹ یا سویٹر، وہ بھی ڈانس کے لیے چلی گئی تھی، ان کو بلایا گیا تھا اور وہ ڈانس میں مشغول تھیں۔ وہ ان کو کیوں لے گئے تھے اور مجھے کیوں نہیں؟ کیوں باقی سب اور میں کیوں نہیں؟ میں نے سرخ مخمل کا لباس پہنا تھا ۔میں نے اپنے بال گھنگریالے بنائے تھے اور میں نے خوشبو بھی لگائی تھی اور لوشن بھی۔ دعا کروں، میں نے سوچا میں اپنی آنکھیں بند نہ کر سکی لیکن میں اپنے دماغ میں بار بار منصوبے بناتی رہی۔ پلیز میں، ’’پلیز میں، پلیز میں‘‘ اور میں نے اپنی انگلیاں اپنی پیٹھ کے پیچھے جما دی تھیں۔ ایک ایسے انداز میں جو صلیب کے نشان سے زیادہ طاقتور تھا، وہی خفیہ نشان جو میں اور لُونی ریاضی کی کلاس میں بلیک بورڈ کی جانب نہ جانے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔
اس نے بھی کام نہ کیا جس کا مجھے خوف تھا، وہ سچ ثابت ہوا میں اکیلی ہی پیچھے رہنے والی تھی۔ اس معاملے میں میرے ساتھ کچھ عجیب و غریب معما تھا، بالکل ایسا ہی جیسے کہ غلط سانس کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا یا کیل مہاسوں والے چہرے کو خوبصورتی نہیں لوٹائی جا سکتی۔ ہر شخص یہ جانتا تھا اور میں بھی جانتی تھی اور میں کافی عرصے سے یہ جانتی تھیں۔ لیکن مجھے یقینی طور پر کچھ بھی معلوم نہ تھا میں نے غلط ہونے کی امید کی تھی ۔یقین میرے اندر بیماری کی طرح ابھر رہا تھا۔ میں ایک یا دو لڑکیوں میں سے جلدی سے گزری جو کہ جگہ چھوڑ کر لڑکیوں کے واش روم کی جانب چلی گئیں تھیں۔ میں نے خود کو اپنی خوابگاہ میں چھپا لیا تھا۔
یہ وہ جگہ تھی جہاں میں ٹھہری تھی۔ ناچنے والی لڑکیاں جلدی میں وہاں سے آتی جاتی رہیں۔ وہاں پر بہت سے کمرے تھے ، کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ میں وہاں پر عارضی رہنے والی تھی۔ ڈانس کے دوران میں موسیقی سنتی رہی جو کہ مجھے پسند تھی لیکن اب میں نے مزید اس میں کوئی حصہ نہیں لینا تھا۔ اور اب مجھے کوئی اور کوشش بھی نہیں کرنی تھی ۔ میں صرف یہاں چھپا رہنا چاہتی تھی اور یہ چاہتی تھی کہ یہاں سے خاموشی کے ساتھ اپنے گھر چلی جاؤں اور کوئی بھی مجھے نہ دیکھے۔
ایک بار پھر جب موسیقی شروع ہو ئی تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میرے پیچھے کھڑا ہے۔ وہ زور زور سے پانی کے چھینٹے مار رہی تھی ، اپنے ہاتھ دھو رہی تھی اور بالوں کو کنگی کر رہی تھی اسے یہ بات مضحکہ خیز لگ رہی تھی کہ میں اتنی دیر سے یہاں بیٹھی ہوں۔ مجھے باہر جانا چاہئے تھا، ہاتھ دھونے چاہئیں تھے اور شاید جبکہ میں وہ دھو رہی تھی، وہاں سے چلی جاتی۔
اس کا نام میری فارچیون تھا، میں اسے نام سے جانتی تھی کیونکہ وہ گرلز اتھلیکٹس سوساسٹی کی ایک آفیسر تھی۔ وہ آج کل اعزازی طور پر کام کر رہی تھی اور ہر وقت مختلف کاموں کو مکمل کرنے میں لگی رہتی تھی۔ اس کو اس ڈانس کے منعقد کرنے میں بھی کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔ وہ تمام کلاسوں میں باری باری گئی تھی کہ سجاوٹ کے لیے مدد گار تلاش کیے جا سکیں۔ وہ شاید گیارہویں یا بارہویں جماعت کی طالبہ تھی۔
’’ یہاں بہت اچھا اور ٹھنڈا ماحول ہے‘‘ اس نے کہا۔’’ میں یہاں آرام کرنے آئی ہوں، وہاں بہت گرمی لگ رہی تھی‘‘۔
وہ ابھی تک اپنے بالوں کو کنگھی کر رہی تھی جب تک میں اپنے ہاتھ دھو چکی۔
تمہیں موسیقی پسند آئی، اس نے پوچھا۔
’’ ہاں اچھی ہے‘‘ مجھے خود پتہ نہیں تھا کہ کیا کہنا ہے۔ مجھے اس پر حیرت ہو رہی تھی کہ اتنی سینئر لڑکی مجھ سے باتیں کرنے کے لیے اتنا وقت ضائع کر رہی تھی۔
میں نہیں، میں نہیں ٹھہر سکتی۔ جب مجھے موسیقی پسند نہ ہو،تو مجھے ڈانس سے بھی نفرت ہو جاتی ہے۔ سنو وہ اتنا تلاطم خیز اور شور والا ہے۔ اور میں اس پر کسی صورت بھی ڈانس نہیں کر سکتی۔
میں نے اپنے بالوں میں کنگھی کی۔ وہ مجھے دیکھتے ہوئے بیسن کی جانب جھک گئی۔
’’ میں ڈانس نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی میں یہاں پر اب زیادہ دیر رکنا چاہتی ہوں۔ آؤ چلیں اور سگریٹ پئیں۔
کہاں؟
آؤ میں تمہیں بتاتی ہوں!
واش روم کے آخر میں ایک دروازہ تھا جو کھلا تھا اور ایک اندھیری الماری کی جانب جاتا تھا جس میں جھاڑن اور بالٹیاں رکھی تھیں۔ اس نے مجھے دروازہ کھلا رکھنے کو کہا تاکہ واش روم کی روشنی آتی رہے جب تک کہ وہ دروازے کی مٹھ تلاش نہ کرے۔ یہ دروازہ اندھیرے میں کھلتا تھا۔
’’ میں بتی نہیں جلا سکتی، کہیں کوئی دیکھ نہ لے‘‘ اس نے کہا، یہ دربار کا کمرہ ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ کھیل کود میں حصہ لینے والے لوگوں کو ہمیشہ اس اسکول کی عمارت کے بارے میں ہم سب سے زیادہ معلوم تھا ان کو معلوم تھا کہ چیزیں کہاں رکھی جاتی تھیں اور وہ ہمیشہ غیر قانونی دروازوں سے بہادری کے ساتھ آتے جاتے تھے۔’’ دیکھو تم کہاں جا رہے ہو؟
اس نے کہا۔’’بالکل آخری حصے میں ، وہاں پر کچھ سیڑھیاں ہیں۔ وہ دوسری منزل تک ایک الماری تک جائیں گی، اوپر والا دروازہ بند تھا لیکن کمرے اور سیڑھیوں کے درمیان ایک تقسیم تھی، اگر ہم ان سیڑھیوں پر بیٹھیں ، ویسے ہی اتفاقاً کوئی یہاں آ جائے تو وہ ہمیں دیکھ نہ پائے گا۔‘‘
کیا ان کو سگریٹ کی بو نہیں آئے گی؟ میں نے کہا۔
’’ او ،اچھا۔۔۔ خطرے میں جینا سیکھو‘‘
سیڑھیوں کے اوپر ایک اونچی کھڑکی تھی جس سے ہمیں تھوڑی سی روشنی آ رہی تھی۔میری فارچیون کے پاس پرس میں سگریٹ اور ماچس تھی۔ میں نے اس سے پہلے سگریٹ نوشی نہیں کی تھی سوائے ان سگریٹ کہ جو میں نے اور لُونئی نے مختلف اوراق اورلونئی کے باپ کے چرائے ہوئے تمباکو سے خود بنائے تھے، وہ بہت ہی مختلف ہوتے اور اس سے کئی درجہ بہتر ہوتے۔
’’ آج رات کو یہاں آنے کی صرف ایک وجہ تھی‘‘میری فارچیون نے کہا کہ میں یہاں کی سجاوٹ کی ذمہ دار ہوں اور میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ یہ سب کیسا دکھائی دیتا ہے جب لوگ ایک بار یہاں پر آتے ہیں ورنہ مجھے کیا پرواہ۔ مجھے لڑکوں سے کوئی دلچسپی نہیں‘‘۔
اونچی کالی کھڑکی سے آتی ہوئی روشنی میں، میں اس کا تنگ، حقارت آمیز چہرہ دیکھ سکتی تھی، اس کی سیاہ جلد جو مہاسوں سے بھری ہوئی تھی، باہر کی جانب اس کے نکلے ہوئے دانت جو اس کی شخصیت کو بڑا اور رعب دار بنا رہے تھے۔
’’ زیادہ تر لڑکیاں، تم نے محسوس نہیں کیا؟ کہ تم لڑکوں پر مرنے والی لڑکیاں ، سب سے زیادہ اس اسکول میں تلاش کر سکتی ہوں‘‘۔
میں اس کی توجہ، اس کے ساتھ اور سگریٹ کی بھی ممنون تھی۔ میں نے کہا اور شاید سوچا بھی یہی۔
’’ اس دوپہر کی طرح۔ اس دوپہر میں ان سے گھنٹیاں اور دوسری چیزیں لٹکانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ صرف سیڑھیوں پر چڑھ گئی اور وہاں سے لڑکوں کو گھورنے لگی۔ ان کو پرواہ بھی نہ تھی کہ سجاوٹ مکمل ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ صرف ایک بہانہ تھا، ان کی زندگی میں صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وہ لڑکوں کے پیچھے بھاگیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے ساری بیوقوف ہیں‘‘۔
ہم نے اساتذہ کے بارے میں باتیں کیں اور اسکول کے بارے میں بھی۔ اس نے کہا کہ وہ فزیکل ایجوکیشن کی استانی بننا چاہتی ہے اور اس کے لیے اسے کالج جانا پڑے گا لیکن اس کے والدین کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا۔ اس نے کہا کہ اس نے اپنے لیے خود کام کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ ہر صورت آزاد ہونا چاہتی تھی۔ وہ کیفے میں کام کرے گی اور گرمیوں میں کھیتوں میں کام کرے گی جس طرح تمباکو چننے کاکام۔ اس کو سن کر مجھے اپنے اندر دکھ کا احساس ہوا۔ یہاں پر کوئی اور بھی تھا جس کو مجھ جیسی شکست ملی تھی۔ میں نے اسے دیکھا لیکن وہ خود داری اور جذبے سے بھر پور تھی۔ اس نے دوسرے کام کرنے کا سوچ لیا تھا کہ وہ تمباکو چننے کو چنے گی۔
ہم وہاں پر موسیقی کے وقفے کے دوران کھڑے باتیں کرتے اور سگریٹ پیتے رہے۔ جب باہر وہ کافی اور کیک وغیرہ کھا رہے تھے۔
جب موسیقی دوبارہ شروع ہوئی،میری فارچیون نے کہا’’ دیکھو! کیا ہمیں مزید بھی یہاں پر رکنا ہے؟ آؤ اپنے کوٹ لیں اور چلیں۔ کیوں نہیں، ہم نیچے لیئی کی جانب چلے گئے، گرم گرم چاکلیٹ کھائی اور آرام سے باتیں کرتے رہے۔
سگریٹ کے ٹکڑے اور راکھ اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہم نے دربار کے کمرے کے درمیان سے اپنا راستہ تلاش کیا ، الماری کے قریب ہم رکے اور یہ یقین کرنے کے لیے توجہ کی کہ واش روم میں کوئی نہیں تھا۔ ہم دوبارہ روشنی میں آئے اور راکھ کو واش روم کے ٹائلٹ میں پھینک دیا۔ ہمیں باہر جانا تھا اور سامان گاہ کی جانب ڈانس والے کمرے سے ہو کر گزرنا تھا جو کہ بیرونی دروازے کے بالکل ساتھ تھا۔
ڈانس شروع ہونے والا تھا،’’ کمرے کے کنارے کی جانب جاؤ‘‘میری فارچیون نے کہا’’ کسی کو ہمارا پتہ نہیں چلے گا‘‘ میں نے اس کا پیچھا کیا اور کسی بھی شخص پر نظر نہ ڈالی۔ میں نے لونئی کو تلاش نہ کیا۔ آج کے بعد لونئی میری اتنی دوست نہ رہی تھی جتنی کہ پہلے تھی وہ ویسی ہی تھی جیسیمیری فارچیون لڑکوں کا دیوانہ کہتی تھی۔
میں نے محسوس کیا کہ میں زیادہ ڈرئی ہوئی نہ تھی اور اب میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے ہونے والے ڈانس کو چھوڑ دینا ہے۔ میں کسی کا بھی انتظار نہیں کر رہی تھی کہ وہ میرا انتخاب کرے۔ میرے اپنے منصوبے تھے، مجھے اب کسی پر مسکرانے یا قسمت آزمانے کے لیے اشارے کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ یہ میرے لئے اہم نہ تھا، میں اپنے دوستوں کے ساتھ چاکلیٹ کھانے جا رہی تھی، ایک لڑکے نے مجھے کچھ کہا تھا، وہ میرے راستے میں تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھے کہے گا کہ میری کوئی چیز راستے میں گر گئی ہے یا میں اس راستے پر نہیں چل سکتی یا یہ کہ یہ کمر بند ہے۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ وہ میرے ساتھ ڈانس کرنے کے لیے کہہ رہا ہے جب تک کہ اس نے دوبارہ مجھ سے نہ کہا۔ یہ ہمارا کلاس فیلو ریمنڈ بوٹنگ تھا جس سے میں نے اپنی زندگی میں کبھی بات نہیں کی تھی۔ اس نے سوچا کہ شاید میں رضا مند ہوں، اس نے میری کمر پر ہاتھ رکھا اور بغیر کسی اعتراض کے میں نے اس کے ساتھ ناچنا شروع کر دیا۔
ہم کمرے کے پیچھے نہیں پہنچے، میں ناچ رہی تھی، میری ٹانگوں نے لرزنا اور ہاتھوں میں پسینہ ختم ہو چکا تھا میں ایک ایسے لڑکے کے ساتھ ناچ رہی تھی تھی جس نے مجھے منتخب کیا تھا،کسی نے اسے بتایا نہیں تھا اور اسے ضرورت بھی نہ تھی ، اس نے صرف مجھ سے پوچھا تھا۔ کیا یہ ممکن تھا؟ کیا میں اس پر یقین کر سکتی تھی؟ کیا میرے ساتھ کوئی بھی مسئلہ نہ تھا۔
میں نے سوچا کہ مجھے اسے بتانا چاہئے کہ یہ ایک غلطی تھی کہ میں چھوڑ کے جا رہی تھی، میں اپنی دوست کے ساتھ گرم چاکلیٹ کھانے جا رہی تھی، لیکن میں نے کچھ نہ کہا۔ میرے چہرے پر خوشگواری کے تاثرات ابھر رہے تھے، بغیر کسی کوشش کے، ان غیر دماغ اور سرد مہر لوگوں کے لیے جن کو ڈانس کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ یہ وہ چہرہ تھا جو کہمیری فارچیون نے دیکھا تھا، جب اس نے سامان گاہ کے کمرے سے باہر کی جانب دیکھا تھا اور اس کا اسکارف اس کے سر پر جما تھا، میں نے اپنے ہاتھ سے ایک کمزور سا اشارہ کیا جو کہ لڑکے کے کندھے سے لگا، یہ بتانے کے لیے کہ میں معافی چاہتی ہوں کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ کیا ہوا تھا؟ اور یہ کہ اب میرا مزید انتظار کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ پھر میں نے اپنا سر اس جانب موڑا اور جب میں نے دوبارہ دیکھا تو وہ چلی گئی تھی۔
ریمنڈ بوٹنگ مجھے اپنے گھر لے گیا اور ہورولڈ سمسن لونئی کو۔ ہم اکٹھے لونئی کے گھر کے نکڑ تک پیدل آئے۔ لڑکے ہاکی کے کھیل پر بحث کر رہے تھے جس کی مجھے اور لونئی کو کوئی دلچسپی نہ تھی پھر ہم جوڑوں میں بٹ گئے اور ریمنڈ نے میرے ساتھ گفتگو جاری کر دی جو وہ ہورولڈ کے ساتھ کر رہا تھا اس کو یہ محسوس تک نہ ہوا کہ اب وہ اس کے بجائے مجھ سے بات کر رہا تھا ایک دو بار میں نے کہا’’ اچھا مجھے معلوم نہیں، میں یہ کھیل نہیں دیکھتی‘‘ لیکن کچھ دیر کے بعد جب میں نے یہ کہنے کا فیصلہ کیا،ہاں ہاں اور یہ ایسے معلوم ہوا جیسے یہ بہت ضروری تھا۔
ایک اور بات جو اس نے کہی وہ یہ تھی’’ مجھے معلوم نہ تھا کہ تم اتنی دور رہتے ہو‘‘ اور وہ ناک سے، سردی کی وجہ سے میرے ناک کچھ زیادہ ہی بہہ رہی تھی اور میری انگلیاں بار بار میرے کوٹ کی جانب میں ٹشو پیپر تلاش کر رہی تھیں یہاں تک کہ جب میں نے ایک پرانا پھٹا ہوا رومال تلاش کر لیا۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ کیا مجھے یہ رومال اسے بھی دینا چاہیے یا نہیں لیکن وہ اتنے زور سے ناک سے چھینکا کہ آخر مجھے کہنا پڑا ’’میرے پاس صرف یہی ایک رومال ہے اور یہ اتنا صاف بھی نہیں ہے ، شاید اس پر سیاہی لگی ہوئی ہے، لیکن اس کو میں نے دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا تو ہم دونوں ایک ایک رکھ سکتے ہیں‘‘ شکریہ،اس نے کہا’’ یقیناً میں اسے استعمال کر سکتا ہوں ‘‘۔
یہ اچھی بات تھی، میں نے سوچا کہ میں نے ایسا کیا ہے۔ گیٹ پر پہنچ کر جب میں نے کہا’’ اچھا ، شب بخیر‘‘ اور اس کے بعد اس نے کہا’’ او اچھا، شب خیر‘‘ وہ میری جانب جھکا اور مجھے چوما۔ پھر وہ واپس شہر کی جانب مڑا، یہ جانے بغیر کہ وہ میرا بچانے والا تھا، کہ وہ مجھیمیری فارچیون کی دنیا سے واپس اس عام سی دنیا میں لے کر آیا تھا۔
میں پچھلے دروازے سے گھر میں داخل ہوئی، یہ سوچتے ہوئے کہ میں ایک ڈانس پارٹی میں گئی تھی اور ایک لڑکا میرے ساتھ میرے گھر تک آیا تھا اور مجھے چوما تھا، یہ سب کچھ سچ تھا، میری زندگی ممکن تھی، میں کچن کی کھڑکی سے گزری اور اپنی ماں کو دیکھا۔ وہ تندور کے پاس پاؤں کے بل بیٹھی تھی اور پیالے سے چائے پرچ میں انڈھیل کر پی رہی تھی، وہ شایدوہاں میرا انتظار کر رہی تھی کہ میں گھر آؤں اور اس کو سب کچھ بتاؤ۔ میں ایسا نہیں کروں گی کبھی بھی نہیں۔ جب میں نے اپنے لیے منتظر کچن کو دیکھا اور ماں کو وہاں پرانے اور مبہم مگر اپنے نیند سے بھرے لیکن مستقل مزاج چہرے کے ساتھ بیٹھا دیکھا تو سمجھ گئی کہ ماں کی خوشنودی کے حصول کے لیے مجھے کس قسم کے پر اسرار اور مختلف فرض کونبھانا ہو گا۔ شاید اس میں ناکام تھی اور شاید میں ہر وقت ناکام ہونا ہی پسند کروں گی اور اسے کبھی معلوم بھی نہ ہوگا۔

No comments:

Post a Comment