Enjoy intersting short stories

Friday, 17 November 2017

افسانہ : آخری فیصلہ تحریر: کارل چوپیک مترجم: ڈاکٹر اعجاز راہی



Read online this short story    
or



افسانہ  : آخری فیصلہ                                                                                                                      

  تحریر: کارل چوپیک                                                                                                                       

مترجم: ڈاکٹر اعجاز راہی  پاکستان                                                                                                              

کگلر  کو خطرناک مجرم قرار دیے جانے کے بعد اس کے کئی وارنٹ، خفیہ اداروں کے لوگ، پولیس
 حتٰی کہ فوج کے جوان بھی اس کا پیچھا کرتے رہے مگر اس کے زندہ وجود تک کوئی نہیں پہنچ سکا اور جب وہ پکڑا گیا تو زندگی کا چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ چکا تھا۔ اور آخری قتل اس نے اس پولیس کے سپاہی کا کیا تھا جو اسے گرفتار کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ پولیس کا سپاہی اس کی گولی سے مر تو گیا مگر مرنے سے قبل اس نے اپنے پستول کے چیمبر کی ساتوں گولیاں اس پر داغ دیں۔ ان سات گولیوں میں سے تین پر اس کی موت کی تقدیر لکھ دی گئی تھی۔ کگلر نے جتنی مشکل زندگی گزاری تھی اتنی ہی آسانی سے مر گیا اور مرتے ہوئے اسے اتنی فرصت بھی نہیں ملی کہ وہ ذرا سی تکلیف بھی محسوس کرسکتا۔ تاہم اس کی موت نے زمین پر اس کے ساتھ قانون اور انصاف کے ہونے  والے ڈرامے کا ڈراپ سین بھی کردیا۔
  جب اس کی روح اس کے جسم کو چھوڑ کر دوسری دنیا میں پہنچی تو وہاں اس کے لیے ہر چیز حیران کردینے والی تھی۔ اب وہ ایک ایسی دنیا میں تھا، جو اس کے تصور خیال اور خلا سے پرے تاحدِ نظر ایک حیران اور اجاڑ پن سے لبریز۔ لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ یہ کوئی بالکل ہی نئی جگہ ہو۔ ایک ایسا شخص جسے جیل میں ڈال دیا گیا ہو اور وہ خیال کرے کہ د و  دنیا میں کتنا فرق ہوتا ہوتا جتنی اس کے خیال کی وسعت تھی، اس سے زیادہ فرق محسوس نہ کرسکا۔ کگلر یہاں بھی محض جدوجہد کرسکتا تھا، کیونکہ اس میں وہی حوصلہ باقی تھا جسے وہ پچھلی دنیا میں ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا رہا تھا۔ تاہم آخر کار اسے آخری فیصلے کا سامنا کرنا ہی تھا۔ جو اب رفتہ رفتہ اس کے قریب آرہا تھا۔
جنت میں غیر معمولی حالات دکھائی دے رہے تھے۔ اسے تین ججوں کی ایک خصو صی عدالت میں لایا گیا، کیونکہ اس کے جرائم کی نوعیت کے سبب اسے خصوصی عدالت اور ایک بڑی جیوری کے سامنے ہی پیش کیا جانا چاہیئے تھا۔
عدالت کا کمرہ سادہ سا تھا، جیسے کہ دنیا کی عدالتوں کے کمرے ہوتے ہیں۔ صرف ایک فرق تھا کہ دنیا کی عدالتوں کی طرح یہاں دہادت کے لیے قسم کھانے کی ضرورت نہیں تھی اور اس کی وجہ بھی جلد ہی سامنے آنے والی تھی۔

تینوں جج عمر رسیدہ سخت گیر اور بور چہروں والے لوگ تھے۔ کگلر نے معمول کی خانہ پوری کی۔

نام - فرنانڈس کگلر، پیشہ - بے کاری، کب اور کہاں پیدا ہوا، مگر جب وہ موت کے کالم پر پہنچا تو رک گیا۔ کیونکہ اسے اپنی موت کی صحیح تاریخ کا علم نہ تھا۔ لیکن اچانک اسے احساس ہوا جیسے اس کی یہ غلطی ججوں پر اچھا اثر مرتب نہیں کرے گی۔ اسے اپنا حوصلہ پست ہوتا محسوس ہوا۔
"کیا تم اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہو یا انکار۔" کرسیٔ صدارت پر براجمان جج نے گفتگو کا آغاز کیا۔
"میں جرم سے انکار کرتا ہوں۔" کگلر نے جواب دیا۔
"پہلے گواہ کو پیش کیا جائے۔" جج نے کہا۔
کگلر کی مخالف سمت کے دروازے سے ایک شخص اندر داخل ہوا۔ وہ دیکھنے میں نہایت معتبر اور محترم باریش شخص تھا۔ اس کے لباس پر ایک خوبصورت پٹی لگی ہوئی تھی، جس پر ستارے جھلملا رہے تھے۔
اس شخص کے اندر داخل ہوتے ہی تمام ججوں اور جیوری کے اراکین سمیت سب لوگ کھڑے ہوگئے۔ کگلر بھی قدرے ہچکچاہٹ کے ساتھ اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا۔ جب اس شخص نے اشارہ کیا تو جج اپنی اپنی کرسی پر دوبارہ بیٹھ گئے۔
"محترم گواہ" بڑے جج نے کہنا شروع کیا۔ "اے خداوند ہم نے آپ کو عدالت میں اس لیے آنے کی زحمت دی تاکہ آپ مجرم کگلر کے خلاف گواہی دے سکیں۔ چونکہ آپ حتمی سچائی ہیں، اس لیے آپ کو حلف لینے کی ضرورت نہیں ۔ تاہم اس مقدمے کی سماعت کے سلسلے میں اتنا عرض کرنا ہے کہ آپ صرف اس مقدمے سے متعلق حقائق کا اظہار فرمائیں دیگر غیر متعلق جزیات سے گریز ضروری ہے۔۔۔۔ اور کگلر تم گواہی کے دوران مداخلت نہیں کرو گے، کیونکہ محترم گواہ ہر حقیقیت سے پوری طرح آشنا ہیں۔ چنانچہ تمہارا کسی بات سے انکار بے معنی ہوگا۔ اب گواہ سے درخواست ہے کہ وہ اپنا بیان شروع کریں۔"
اتنا کہنے کے بعد صدر جج نے اپنا چشمہ اتار کر میز پر رکھا اور کرسی سے ٹیک لگا کر آرام سے بیٹھ گیا جیسے اسے اب ایک طویل گفتگو سننی تھی۔ تینوں ججوں میں سے بزرگ جج نے آنکھیں بند کرلیں اور ریکارڈ کیپر فرشتے نے کگلر کی زندگی کی کتاب کھول لی۔
خداوند نے ہلکا سا کھنکھورا  لیا اور بولنے کیلئے تیار ہوگیا۔
"ہاں کگلر فرنانڈس۔۔۔۔۔۔۔ فرنانڈس کگلر۔۔۔۔ فیکٹری مزدور کا بیٹا ۔۔۔۔۔ ایک بُرا آدمی۔۔۔۔ بہت زیادہ ۔۔۔۔ مگر کبھی اس کا اظہار نہیں کرسکا۔ جس کے سبب وہ محرومی اور بے قاعدگی کا شکار ہوتا گیا۔ نوجوان کگلر ۔۔۔ تمارے لیے ہر کوئی ایک تھا۔ ہر ایک کو بے عزت کرسکتے تھے۔ تمہیں یاد ہے ایک بار وکیل کے باغ سے پُھول چرانے پر تمھارے باپ نے سرزنش کرنے کی کوشش کی تو تم نے اس کے انگوٹھے کو زخمی کردیا تھا۔"
"ہاں ۔۔۔۔ وہ پھول میں نے  ارما کے لیے چرایا تھا۔ جو ٹیکس کلکٹر کی خوبصورت بیٹی تھی۔"
"ہاں۔۔ مجھے معلوم ہے۔ ارما اس وقت سات سال کی تھی۔ تمہیں معلوم ہے بعد ازاں اس کے ساتھ کیا بیتی۔۔"
"نہیں مجھے معلوم نہیں۔"
"اس کی شادی ایک فیکٹری مالک کے بیٹے آسکر سے ہوگئی تھی۔ مگر آسکر کے سبب اسے ایک جنسی بیماری کا شکار ہونا پڑا اور وہ بے یارو مددگار فوت ہوگئی۔ تمہیں   روڈی زوردبا   یاد ہے؟"
"ہاں ۔۔۔۔ ہاں۔۔۔ اس کے ساتھ کیا بییر؟" کگلر نے جلدی سے پوچھا۔
"کیوں۔۔۔؟ اس نے نیوی میں ملازمت کرلی اور بعد ازاں ایک حادثے میں ممبئی میں انتقال کرگیا۔ روڈسی تمہارا دوست تھا۔ اور تم دونوں پورے گاؤں کے نہایت بگڑے ہوئے نوجوان تھے۔ کگر دو سال کی عمر سے قبل ہی ایک ماہر چور اور ایک پکا جھوٹا تھا۔ وہ جلد ہی برے لوگوں کی صحبت میں پہنچ گیا۔ مثلاً شرابی گریبل اور ایک کاہل اور بگڑا ہوا بوڑھا کگلر کا دوست تھا اور کگلر اکثر کھانے پینے کی چیزیں اس تک پہنچا تا تھا۔"
صدر جج نے ہاتھ کے اشارے سے استفسار کیا کہ اب غیر متعلق گفتگو کی بجائے اصل بات پر آجایا جائے۔ مگر کگلر نے جلدی سے پوچھا۔
"اور ۔۔۔۔۔ اس کی لڑکی پر کیا بیتی۔۔۔۔۔؟"
"میری ۔۔۔۔؟ اس نے اپنے آپ کو بہت گرا لیا تھا۔ چودہ سال کی عمر میں اس کی شادی ہوئی اور بیس سال کی عمر میں فوت ہوگئی۔۔۔۔ اس کی موت بڑی عبرت ناک تھی اور مرتے ہوئے وہ تمہیں ہی یاد کررہی تھی۔ مگر تم تو ابھی چودہ سال کے تھے، جب شرابی بن گئے اور آخرکار گھر سے بھاگ لیے۔ تمہارا  باپ اسی دکھ میں انتقال کرگیا۔ تمہاری ماں کی بینائی تمہاری جدائی نے چھین لی۔ تم اپنے خاندان والوں کے لیے نہایت بددیانت ثابت ہوئے۔ تمہاری بے چاری بہن مارتھا  اب تک کنواری ہے۔ بھلا کون ایک چور کے گھر رشتہ مانگنے آئے گا۔ وہ اپنی عسرت بھری زندگی کو چلالنے کے لیے لوگوں کے کپڑے سیتی ہے۔"
"وہ ٹھیک اس وقت کیا کررہی ہے؟"
"اس وقت وہ وولف کی دکان سے دھاگہ خرید رہی ہے۔ کیا تمہیں وہ دکان یاد ہے؟ جب تم چھ برس کے تھے تو تم نے ماربل کا ایک رنگین کھلونا خریدا تھا۔ جو اسی روز تم سے گم ہوگیا تھا۔ اس کے بعد تم وہ کبھی خرید نہیں سکے مگر اس کے لیے تم کس قدر روئے تھے۔۔۔۔۔"
"وہ کہاں چلا گیا تھا۔۔۔۔ کون لے گیا ۔۔۔۔؟"
"وہ لڑھکتا ہوا گٹر میں جاگرا تھا اور آج تیس سال گزر جانے کے باوجود اب تک وہیں پڑا ہے۔ اس وقت بارش ہورہی ہے اور تمہارا ماربل کا خوبصورت کھلونا ٹھنڈے پانی میں بھیگ رہا ہے۔"
کگلر نے ہلکے سے سر کو ہلایا جیسے وہ ماضی کے جھمیلے سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔ اسی لمحے صدر جج نے اپنی عینک دوبارہ پہن لی اور گواہ سے نہایت نرم لہجے میں بولا۔
"جناب ہم ممنون ہوں گے اگر آپ اصل کیس کی طرف واپس آئیں، کیا اس نے واقعی قتل کیے ہیں۔۔۔۔۔؟"
گواہ نے سر ہلایا اور بولنا شروع کیا۔
"اس نے نو انسانوں کو قتل کیا ہے۔ پہلا قتل اس نے ایک جھگڑے میں کیا اور اس جرم کی پاداش میں جب جیل گیا، تو مکمل طور پر ایک بُرا انسان بَن چکا تھا۔ دوسرا قتل اس نے اپنی ایک بے وفا دوست کا کیا، جس پر اسے سزائے موت سنائی گئی مگر یہ جیل سے فرار ہوگیا۔ تیسرا مقتول ایک بوڑھا آدمی تھا جس کو یہ لوٹنا چاہتا تھا اور چوتھا ایک چوکیدار۔"
"کیا وہ بھی مرگیا تھا۔۔۔۔"
"ہاں۔ وہ تیسرے دن مرا تھا، مگر یہ تین دن اس کے لیے بڑے عذاب کے تھے۔"
خداوند نے کہا "اس نے اپنے پیچھے چھ بچے چھوڑے تھے۔ پانچواں اور چھٹا قتل اس نے ایک جوڑے کا کیا تھا، مگر ان کی جیب سے صرف سولہ ڈالر نکلے تھے۔۔۔۔۔ جبکہ انہوں نے بیس ہزار ڈالر چھپا رکھے تھے۔"
کگلر ایک دم اچھل پڑا۔
"کہاں ۔۔۔۔۔۔۔؟"
پیال کی چٹائی کے نیچے۔۔۔۔ ریشمی کپڑے کی تھیلی میں، جو پیال سے بنی چٹائی کے نیچے رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے یہ رقم نہایت کنولسی سے پائی پائی کرکے جمع کی تھی۔۔۔۔ ساتواں قتل اس نے امریکہ میں جس شخص کا کیا، وہ غریب ایک تارک وطن تھا۔"
"تو انہوں نے یہ رقم چٹائی کے نیچے چھپا کر رکھی تھی۔" کگلر بڑبڑایا۔
"ہاں۔۔۔۔۔ "خداوند نے کہا اور اپنی بات جاری رکھی۔ "آٹھواں قتل اس نے اس وقت کیا، جب یہ پولیس سے چھپتے ہوئے بھاگ رہا تھا اور وہ شخص اس کے راستے میں آگیا۔ اس زمانے میں کگلر ہڈیوں کے مرض میں مبتلا تھا اور اسے اس وقت شدید تکلیف تھی۔ نوجوان۔۔۔۔۔ اس وقت تم شدید تکلیف میں تھے اور ۔۔۔۔۔۔۔ نواں قتل کگلر نے اس پولیس والے کا کیا، جس نے مرتے مرتے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی تھی۔۔۔۔"
ـآخر یہ قتل کیوں کرتا رہا؟" صدر جج نے پوچھا۔
"وہی اسباب ہیں، جس پر دوسرے قتل ہوئے۔ غصے میں یا پیسوں کے لیے۔ جان بوجھ کر بھی اور حادثاتی طور پر بھی۔۔۔۔۔ کچھ تسکین خاطر کے لیے۔۔ کچھ ضرورتاً ۔۔۔۔ بہرحال یہ ایک اچھا آدمی بھی تھا۔ مددگار۔۔۔۔ خصوصاً عورتوں پر بہت مہربان بھی رہا۔ جانوروں سے پیار کرنے والا اور بات کا پکا تھا۔ کیا میں اس کی اچھائیاں بھی بیان کروں۔۔۔۔؟"
"نہیں شکریہ ۔۔۔۔۔ وہ غیر متعلق ہوگا۔" صدر جج نے کہا۔ "کیا مجرم اپنے دفاع میں خود بھی کچھ کہنا چاہتا ہے۔"
"نہیں۔۔۔ " کگلر کا جواب تھا۔

"اب عدالت کے جج فیصلے کے لیے آپس میں صلاح و مشورہ کریں گے۔" صدر جج نے اعلان کیا اور تینوں جج اٹھ کر چلے گئے۔ اب کمرہ عدالت میں خداوند اور کگلر رہ گئے تھے۔
"یہ لوگ کون تھے۔۔۔۔۔" کگلر نے پوچھا۔
"تمہاری طرح انسان " خداوند کا جواب تھا۔ "یہ لوگ زمین پر بھی جج تھے۔ چنانچہ یہاں بھی جج بنا دیئے گئے ہیں۔"
"مجھے توقع نہیں تھی۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے۔ میں نے اس کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ تاہم میرا خیال ہے آپ کو جج ہونا چاہیئے کیونکہ ۔۔۔۔۔"
"کیونکہ میں خداوند ہوں۔" خداوند نے بات کو نرمی سے جاری رکھتے ہوئے کہا۔ "میرے نزدیک یہ انصاف کا تقاضا ہے۔ کیا تم نے دیکھا نہیں میں ہر چیز کو جانتا ہوں۔ اس لیے میرے لیے کسی جرم کا انصاف کرنا ممکن نہیں۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ تم ادھر کیسے آئے تھے؟
"نہیں مجھے معلوم نہیں۔۔۔۔" کگلر نے حیرت سے دیکھا۔
"لکی۔۔۔۔ ویٹرس۔۔۔۔۔ جس نے حسد کے سبب مخبری کی۔"
"معاف کیجیئے۔۔۔۔ آپ ٹیڈی کو بھول گئے، جسے میں نے شکاگو میں گولی ماری تھی۔"
"نہیں بالکل نہیں۔۔۔ وہ ٹھیک ہوگیا تھا اور اب بھی زندہ ہے مجھے معلوم ہے۔ وہ ایک مخبر ہے مگر عام طور پر وہ ایک اچھا انسان بھی ہے اور بچوں سے بڑی محبت کرتا ہے۔ تم کسی شخص کو مکمل طور پر برا نہیں کہہ سکتے۔"
"لیکن ۔۔۔۔۔ میں اب تک نہیں سمجھ سکا کہ آپ خود جج کیوں نہیں۔" کگلر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"کیونکہ میرا علم لامحدود ہے۔ میں ہر بات کو جانتا ہوں۔ اگر ایک جج کو ہر چیز کا علم ہو جانے اور ہر بات کو سمجھنے لگے، تو اس کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ وہ صحیح انصاف نہیں کرسکتا۔ بالکل اسی طرح میں بھی ہوں۔ وہ صرف تمہارے جرائم کے بارے میں جانتے ہیں۔ لیکن میں ہر چیز سے واقف ہوں۔ کگلر کو مکمل طور پر جانتا ہوں۔ اس کے جرائم کو بھی اور جرائم کے اسباب کو بھی ۔۔۔۔۔ چنانچہ اسی لیے میں انصاف نہیں کرسکتا۔۔۔۔"
"پھر وہ لوگ جج کیوں ہیں۔۔۔ جبکہ زمین پر بھی وہی لوگ جج تھے۔۔۔۔"
"اس لیے کہ انسان کا انسان سے تعلق ہے۔ تم نے دیکھا۔۔۔ میں تو صرف گواہ تھا اور فیصلہ خود انسان کریں گے۔ جنت میں بھی یہی لوگ ہیں۔۔۔۔ یقین کرو۔۔۔۔۔ انصاف کا یہی ایک طریقہ ہے۔ انسان خدا کے فیصلے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ وہ اسی قابل ہے کہ اس پر انسان ہی فیصلے صادر کرتا رہے۔"
عین اس وقت تینوں جج واپس آگئے اور اپنی اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ صدر جج نے گونجدار آواز میں بولنا شروع کیا۔
"مسلسل قتل عمد، ڈاکہ زنی، قانون کی خلاف ورزی، غیر قانونی اسلحہ کی نمائش اور گلاب کا ایک پھول چوری کرنے کے جرم میں کگلر فرنانڈس کو جہنم میں ہمیشہ کے لیے ڈال دینے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ سزا کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔۔۔۔"
"اگلا مقدمہ۔۔۔۔ ٹورنس فرینک۔۔۔۔۔"
"ملزم حاضر عدالت ہے جناب۔۔۔۔۔۔"

English Title: The Last Judgment 
Written by:
Karel Čapek (9 January 1890 – 25 December 1938) was a Czech writer of the early 20th century. He had multiple roles throughout his career, including playwright, dramatist, essayist, publisher, literary reviewer, photographer and art critic.

No comments:

Post a Comment