Note ....you can read this short story online and can download this short story in pdf format by the following link
https://drive.google.com/file/d/1w06mFEfd7tm2L81JtCTm75mmrhySStOY/view?usp=sharing
ضمیر کا سوال
ایک ڈینش کہانی
مصنف: وِلّی سؤرنسن
ڈینش زبان سے ترجمہ : نصر ملک ۔ کوپن ہیگن ۔ ڈنمارک
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شعور ِباطن اور ضمیر کے سوال پربحث کے لیے ایک معروف پادری کو سٹوڈیو میں مدعو کیا گیا تھا ۔ پروگرام پیش کرنے والا صحافی'اپنا موجودہ پیشہ اپنانے سے پہلے علم الادیان کا طالب علم رہ چکا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اسے اس پروگرام کا میزبان بنایا گیا تھا۔ اور اس نے بھی پادری سے سوالات پوچھنے کے لیے خوب تیاری کررکھی تھی:
کیا آپ کے ضمیر نے کبھی آپ کے اُن فرمودات پر خلش و ملامت محسوس کی ہے جو آپ اپنے مبلغانہ خطابات میں بیان تو کرتے ہیں لیکن خود آپ اُن پر اعتقادد نہیں رکھتے؟ صحافی نے پوچھا۔
آپ میرے اعتقاد کے متعلق کیا جانتے ہیں؟ پاردی بولا۔
میں نے تو صرف پوچھا ہے ! صحافی کچھ مسکرایا ۔ گرجا گھر میں تو انسان عقیدہ رکھتا ہے کہ عیسیٰ روح القدس کا بیج ہے اور' اسے ایک کنواری نے جنم دیا تھا اور اپنی وفات کے تیسرے روز ( ہر چند کہ وہ صرف ڈھائی دن تھے) دوبارہ زندہ ہو گیا تھا۔ اور وہ دوبارہ ظاہر ہو گا اور زندوں اور مردوں کا فیصلہ کرے گا: یہ سب کچھ توقانونِ فطرت کے خلاف ہے' کیا آپ کاملاً' من وعن اس پر اعتقاد رکھتے ہیں؟
سوال کا جواب دینے کی بجائے پاردی نے پہلو بدلتے ہوئے پوچھا:
۔اعتقاد کیا ہوتا ہے؟
یہی تو میں پوچھتا ہوں! صحافی بولا۔
اعتقاد' ایمان ہے ........ لفظ اعتقاد' عبرانی و یونانی' دونوں زبانوں میں یہی معنی رکھتا ہے۔ اس کے لیے کسی ایک کوکسی دوسرے پر زور آزمانے کی ضرورت نہیں کہ وہ اعتقاد رکھتا ہے یا نہیں' یہ معاملہ خداوند خدا کی قوت کے سپرد ہے .........
پادری ابھی اور کچھ کہنے ہی والا تھا کہ صحافی بول پڑا۔
۔ لیکن خدا اگر اسے دنیا میں خودقبولیت نہیں بخشواتا تو پھر تو ایک عجیب مختلف صورت دکھائی دے گا' گر خدا ''محبت'' ہے تو؟
۔ انسانوں کوخداوند خدا کے وزن کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے ۔ لیکن میں تو سمجھا تھا کہ مجھے '' ضمیر کے متعلق کسی دوسرے سوال'' کے بارے میں جواب دینا تھا۔ پادری بولا۔
۔ کونسا سوال؟ صحافی پادری کی طرف دیکھ رہا تھا۔
۔ یہی کہ آیا میرا ضمیر مجھے اس پر ملامت کرتا ہے کہ میں اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کرپاتا۔میرا کام انجیل مقدس کی تبلیغ کرنا اور عیسیٰ کے حواریوں کی بشارتوں کو پیش کرنا ہے ۔ میں ہڈیوں کا ڈھانچہ' کمزور و ناتواں انسان ''پورا کام '' کس طرح کر سکتا ہوں؟
۔ ہاں' کیسے؟
۔ میں ٹھیک طرح سے کام نہیں کر سکتا ! لیکن یہاں آپ ایک پادری کو دوسرے لوگوں سے الگ نہیں رکھ رہے ہیں ۔ ہاں'یقیناً بیشتر ایسے لوگ ہیں جو اپنا کام ٹھیک طرح سے کرسکتے ہیں۔ ان لوگوں سے آپ ایک پادری کو الگ رکھ رہے ہیں۔ اور وہ بھی عین اس وقت جب وہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنا کام ٹھیک سر انجام دے رہا ہے یعنی وہ عیسیٰ کی پشینگوئیوں کی ٹھیک تبلیغ کر رہا ہے ۔ چلو ٹھیک ہے' خداوندخدا کے فرمان کو امیدِ بیجا ہی تصور کرلیں اور سوچیں کہ یہ اُسی ہی کے الفاظ ہو سکتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ انسان ہونے کے ناطے ہم کبھی بھی ٹھیک کام نہیں کر سکتے اور یہی ایک بنیادی وجہ ہے کہ دنیا میں یہ تمام دکھ درد ہیں اور کچھ سمجھتے ہیں کہ سراسرخداوند خدا ہی طرف سے ہیں اور بالکل جائز ہیں۔ہم دانستہ کس طرح اس اذیت و دکھ درد کے ساتھ رہ سکتے ہیں جو ہم خود پیدا کرتے ہیں؟ پادری مطمئن دکھائی دے رہا تھا۔
۔ ہاں! کیسے؟ صحافی نے زور دیتے ہوئے پوچھا۔
۔ اعتقاد وایمان میں ہم خود اجازت دیتے ہیں کہ گویا ہم نا تیار گہناگار ہیں۔ اس اجازت کے دے دیئے جانے کے بغیرہم خود ایسے ہی ہوتے ہیں کہ جسے ہم نے خود اپنے آپ پرناقابل برداشت اذیت و درد پہنچانے کا دعویٰ کر رکھا ہو یا پھر کسی موروثی حقیقت کا سامنا کر رہے ہوں' خشک و تر کر و فر!' خود ساختہ منصف یاپھر بے شرم خود کفا ہوں ...............
پادری ابھی یہیں تک بول پایا تھا کہ صحافی نے جھٹ سے پوچھا:
۔ اور آپ جو گہناہگاروں کو معاف نہیں کرتے ' یہی کچھ کرتے ہیں؟
۔ یہ فیصلہ میں نہیں کروں گا۔ پادری جھنجلایا ۔
۔ میرے خیال میں' ٹھیک یہی تو آپ کر رہے ہیں۔ صحافی کے لہجے میں اعتماد تھا ۔
۔ سنو! ایک پادری کو بھی تہذیبی تنقید کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ہر کسی دوسرے کو؛ ایسا نہیں کہ بس ایک ہی کو فیصلہ سنا دیا جائے ۔ جہاں بہتوں کوباہر کی کوئی بھی راہ دکھائی نہیں دیتی میں وہاں کی راہ دیکھ سکتا ہوں۔ پادری ادھر اُدھریوں دیکھ رہا تھا جیسے سٹوڈیو سے باہر جانے کی راہ لینا چاہتا ہو۔
۔ آپ وہ راستہ نہیں دیکھ سکتے جو گناہگاروں کا ہے تو کیا وہ شکست خوردہ خسارے میں ہیں؟
۔ شکستگی بذات خود انسانوں کے لیے موت ہے ۔ معروف ڈینش فلسفی سؤرن کرکیگارڈ اسے ''موت کی بیماری'' قرار دیتا ہے ۔ اے آپ کے نہ ہونے بارے ناامیدی و یاس' ناکامی وبے ثمری ' سبھی موت کی راہیں ہی تو ہیں اور اگر آپ پوچھتے ہیں کہ؛
۔ احیاء حیات یا دوبارہ زندہ ہونا کیا ہے؟
۔ یہ اصلیت سے آزادی کا حاصل ہے' دوسری موت سے آزادی! اور اس امر کی اجازت کہ زندگی موت سے زیادہ مضبوط و طاقتور ہے ۔
۔ لیکن لوگ ''دوبارہ جی اٹھنے'' کو تو ایسا سمجھتے ہی نہیں' ہے کوئی جو مانتا ہو کہ وہ بیماری سے بچ گیا ہے تاکہ مر سکے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ و ہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو گیا ہے۔ صحافی کی آنکھیں پادری کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں ۔
۔ وہ جو اپنے آپ میں زندگی بسر کر چکے ہوں' موت سے نہیں ڈرتے! پادری اپنی داڑھی کھجارہا تھا ۔
۔ چلیئے' آدمی عیسائی ہو یا نہیں؟ ' عیسیٰ موت کے بعد دوبارہ زندہ اٹھ کھڑاہوا تھا؟
۔ یسوع مسیح زندہ ہے! پادری کے چہرے پرکچھ کھچاؤ سا تھا۔ اس کا دوبارہ زندہ ہوجانا اس طرح کی تاریخی حقیقت نہیں جیسا کہ اس کا صلیب پر لٹکے ہوئے مر جانا ایک تاریخی حقیقت ہے ؛ پس ہم جو جانتے ہیں یہی ہے کہ اُس کے بعد کچھ رونما ہوا جس نے اُن انسانوں کی زندگی بدل دی جنہوں نے اُس کی پیروی کی؛ ان لوگوں کے لیے وہ اپنی موت کے بعد بھی زندہ ہی تھا؛ اورہم سب کے لیے بھی وہ وہی ہے جس کی ہم پیروی کرتے ہیں۔ پادری اب مطمئن دکھائی دے رہا تھا۔
۔ صرف میتھیوس کے دعوےٰ کے مطابق' دوبارہ جی اٹھنے کے بعد' عیسیٰ نے کہا تھا ''مجھے آسمان اور زمین پر تمام قوت عطا کی گئی ہے۔ ہر ایک جگہ جاؤ اور امّت و قبیلوںکے تمام افراد کو میری اطاعت و مریدی میں لاتے ہوئے انہیںمیرا کامل مرید بناؤ' انہیں بپتسمہ دو' ........ کچھ اسی طرح کے الفاط ابھی تک بپتسمہ کے وقت دہرائے جاتے ہیں .......... لیکن یہ الفاظ اُس تاریخی یسوع مسیح کے تو نہیں ہو سکتیجو صلیب پر دم توڑ گیا تھا۔ یہ تو اُس یسوع کے حلق سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں جو دوبارہ زندہ ہو گیا تھا؛ میرے نزدیک تو یہ سراسر املوکانہ و شہشہانہ طریق ہے: ہر ایک کو اس کی اطاعت میں لانا اور اس کا مرید بنانا وہ جو زمین پر اپنی قوت کاملہ کا دعویدار ہے' یہ تو وہی ہے نا جو مرنے کے بعد زندہ ہو گیا تھا ناکہ وہ جو مرا تھا گویا اس طرح تو مرنے کے بعد زندہ ہوجانے والا عیسیٰ ' در اصل مردہ عیسیٰ کے نام پر سب کچھ کر رہا تھا۔ تو کیاہم مردہ مسیح کی قوت کو بھی شرعی تسلیم کریں؟
۔ اس کے متعلق تو کچھ نہیں کہا گیا۔ پادری بولا ۔
۔ لیکن سینٹ پیٹرتو کہتا ہے کہ ''کوئی بھی حاکم و حاکمیت ایسی نہیں جس میں خدا کی مرضی شامل نہیں۔'' مسیح حکام اور ان کی حاکمیت بھی تو پھر خدا ہی کی مرضی پر منحصر ہوئی نا؟
۔ تو کیا میرے ضمیرکو بھی اُس اذیت و دردناک جرائم پر ملامت کرنی چاہیے جو یسوع مسیح کے نام پر کئے گئے ہیں؟ پادری نے اپنی عینک اتار کر میز پر رکھ دی تھی۔
۔ کیا کلیساء کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا میرا مطلب ہے کیا کلیساء ایسا نہیں کرسکتا؟وجدان ضمیر اور باطنی شعور کا سوال تو یہیں سے اُٹھتا ہے: کیا پیغام مسیح اور ان عوامل میں کوئی سانجھ' کوئی بھی مطابقت نہیں جوتاریخ کے صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں' مثلاً مطلق العنانیت' ارتجائیت' افزایش عسکریت و خون خرابہ وغیرہ؟ صحافی اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پنسل سے پادری کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
۔ عیسائی' یعنی وہ لوگ جو خود کو عیسائی یا مسیح قرار دیتے ہیں وہ کوئی دوسرے لوگوں سے بہتر نہیں ہیں۔ پادری کا جواب بڑا مختصر تھا لیکن
اس نے بولنے میں بڑا وقت لے لیا تھا۔
۔ لیکن نہیں ! اچھے لوتھرن ہونے اورلوتھرن کلیساء کے وفادار ہونے کے ناطے ہمیںیہ تو معلوم ہی ہے کہ صرف اچھے اقدام و عمل ہی راستگاری ونجات کی راہ نہیں ہوسکتے۔ یہ جانکاری بھی تو عذاب ہی ہے اور ' کیایہ اذیت و دکھ بھی شکست و ریخت اور بربادی کی راہ نہیں؟ صحافی پادری کے جواب کا انتظار کر رہا تھا۔
۔ یہ دکھ و اذیت جو ناہمتی اور شکت و ریخت میں بدل جاتے ہیں انہیں تو صرف خداوند خدا ہی معاف کرسکتا ہے ۔ عیسائی لوگ تو اس دکھ درد اور اذیت پر صرف افسوس ہی کر سکتے ہیں جو عیسائیت و مسیحیت کے نام پر بڑھتی ہے ۔
۔ اورآپ کے نزدیک اس کا مسیحیت سے کوئی تعلق و سروکار ہی نہیں؟ صحافی نے پادری کی بات کاٹ دی تھی ۔
۔ '' مسحیت کے پیغام کے ساتھ اس کا کوئی لینا دینا نہیں!'' پادری بولا۔
۔ اور وہ پیغام؟ صحافی ' پادری کوآگے بولنے کا موقع دیئے بغیر جھپٹا ۔
۔ یہ پیغام ''محبت'' ہے: آپ کو اپنے خدا کے ساتھ روح و قلب کی گہرائیوںسے ''محبت'' کرنی چاہیے اور' اپنے سامنے والے سے بھی بالکل یوں کہ جیسے تم خود سے ''محبت'' کرتے ہو!'' پادری نے اپنی عینک ناک پر ٹکا لی تھی ۔
۔ تو اِن دو پیغامات پر ہی قانون مسیحیت اور پیغمبری استراحت کی نمو ہے اور امن و راحت ہے۔ مالک نے خودیہی کہا تھا۔ چلوں یوں ہی سہی ' لیکن' موسیٰ اور عیسیٰ میں کیا فرق ہے؟ صحافی نے اپنی پنسل ہونٹوں پر رکھی ہوئی تھی اور اس کی آنکھیں پادری کے چہرے پر جمی ہوئیں تھیں۔
۔ ''فرق! '' پادری ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولا ۔ فرق یہ ہے کہ عیسیٰ نے چھوٹے پیغام پر تھوڑا زور دیا اور بڑے پیغام پر زیادہ وزن دیا۔
۔ لیکن مسیحیت ' سینٹ پاؤل کی کوششوں سے اپنے آپ کو متعارف کرانے میں تو آسانی سے ہمکنار ہوگئی لیکن یہودیت' بدیگر الفاظ دین موسوی کے عین مطابق رہنا مشکل ترہو گیا۔ لیکن کیا ''محبت'' ہی واقعی میں ''مشیت ایزدی'' ہے ؟ کیا کوئی کمان کر سکتا ہے کہ لوگ محبت کریں؟ پادری کے چہرے سے یوں عیاں ہو رہا تھا جیسے صحافی کا سوال کوئی ایک گھمبیر گنجل تھا۔
۔ محبت توخداوند خدا کی طرف سے ایک مدد ہے اگر وہ چاہے تو!' یہ کبھی کسی کاشخصی منافع تو ہوتا نہیں۔ ہر کوئی جو محبت کرتا ہے خوب جانتا ہے کہ یہ کوئی اور ہے جو اسے اپنی جانب محبت کے لیے اُکسا رہا ہے۔
۔ بھلائی کا منافع کسی کی شخصی کاوش نہیں لیکن' برائی ہر کسی کا ذاتی فعل اور گناہ ہے' آپ یہی کہہ رہے ہیں؟ صحافی نے پوچھا ۔ اس نے اپنی پنسل پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی ۔
۔ بس یہی ''یکبارگی '' ہی تو ہے! پادری زور دیتے ہوئے بولا۔
۔ کیا یہ ''یکبارگی'' ہے ؟ صحافی کا لہجہ بھی وزنی تھا ۔
۔ ہر ایک جومحبت کرتا ہے اس کے پاس محبوب کی چھوٹی چھوٹی خطاؤںکو معاف کر دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اور بڑی خطائیں' وہ تو بڑی ہوتی ہی ہیں ......... یہاں ذرا خداوند خدا کا تصور کریں' ہمارا مقدس باپ' جیسا کہ ہم اسے اُس کے بیٹوں کے ذریعے جانتے ہیں۔ ہر کوئی جو محبت کرتا ہے اس سے بھی آگاہ ہوتا ہے کہ ''محبت '' ہی ''حقیقت و اصلیت '' ہے ۔ مسیحیت ' کسی ''دوسری دنیا'' کی تبلیغ نہیں کرتی ' ایک اور حقیقت' لیکن ایسی حقیقت کہ جب مدد کی ضرورت ہو تو اسے ایک تحفے کے طور پر قبول کیا جائے' تحفۂ فیض و مدد! لبالب' بھرا ہوا فیض! اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب آدمی اپنے تمام استحکامات' جن میں اُسکے اپنے رویوں کی اقرارگیری اور خودپارسائی بھی شامل ہیں' اُن کو پھینک دے۔ اب پادری صحافی کی جانب گھور رہا تھا ۔
۔ یہ تو سبھی انسانوں کے لیے ہو سکتا ہے' یہ کوئی صرف عیسائیوں ہی کے لیے تو نہیں؟ یہ ''اسرار ِآزمودہ'' تو تمام ثقافتوں میں یکساں پائے جاتے ہیں! صحافی قدرے زور دیتے ہوئے بولا ۔
۔ میں ''اسرارِ و پنہاںرموز'' کی بات نہیں کررہا ہوں' نہ کہ اِن کی خصوصی آزمودگی کے بارے میں ........
۔ ہاں لیکن' آپ حقیقت کا ایک اور صورت میں تجربہ کرنے یا اسے بھگتنے کی بات ہی تو کررہے ہیں' ہے نا؟
۔ ہاں لیکن ایک اور طریقے سے ! پادری اور صحافی کے درمیان مکالمہ متجسسانہ رخ اختیار کر چکا تھا ۔
۔ جو صرف عیسائیوں کے لیے ہی مخصوص ہے؟ صحافی اپنی پنسل سے پادری کی طرف اشارہ کر رہاتھا۔
۔ ہاں' جہاں صرف یسوع مسیح ہی کی پیروی کرکے پہنچا جا سکتا ہے ۔
۔ اور جیساکہ سینٹ پیٹر کا فرمان ہے کہ : رہائی و نجات کی کوئی دوسری راہ ہی نہیں' ہے نا؟
۔ عیسائی کوئی دوسری راہ جانتے ہی نہیں۔ پادری صحافی کوگہری نگاہ سے دیکھ رہا تھا ۔
۔ لہٰذا اسی لیے آپ دوسروں کو بھی اسی راہ پر لے جانا چاہتے ہیں ۔ ماسوا اُن لوگوں کے جو خود پھسل جائیں یا اس راہ پر چلیں ہی نہیں؟
۔ عیسائی لوگوں کو بھی رہائی و نجات کی ضرورت ہے ۔ پادری ابھی تک صحافی پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
۔ مذہب کی جنگ' مذاہب کی تو نہیں' بلکہ یہ تو انسانوں کی اپنی تقصیرو خطاؤں اور گناہوں کی وجہ سے ہے۔ اپنی پنسل پر صحافی کی گرفت سخت ہو گئی تھی ۔
۔ ہاں لیکن' مذاہب کی بھی' جیسا کہ انسانوں کے عوامل اُسے رخ دے دیتے ہیں۔ پادری اپنی ناک پر عینک ٹھیک کرتے ہوئے بولا۔
۔ عیسائیت کوئی مذہب تو نہیں؟ صحافی نے بڑے پُر اعتماد لہجے میں پو چھا۔
۔ عیسائیت ' عاصیوں کے لیے' گناہوں اور موت سے رہائی و نجات کا پیغام ہے ۔پادری اپنی مٹھیاں بھینچے ہوئے تھا۔
۔ اور اس نجات و مغفرت کے لیے کسی بھی طرح کی شرائط کا مطالبہ نہیںکیا جاتا ....... مثلاً غیر ممکنات و غیر طبعی اسرار و رموز پر اعتقاد رکھنا وغیرہ۔ صحافی سٹوڈیو میں دیوار پر لٹکی گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
۔ لیکن' صرف ایسی نا ممکنات پر اعتقاد رکھنا جوصرف خداوند خدا ہی کے لیے ممکن ہیں۔ پادری نے میز پر رکھے گلاس سے پانی کا ایک گھونٹ پیا ۔
۔ مجھے میرے پہلے سوال کا جواب تو ملا نہیں ' لیکن اب تو وقت ختم ہو گیا ہے ۔ صحافی نے مائیکروفون بند کردیا تھا ۔
۔ اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے پادری اپنے گلے میں لٹکتی ہوئی صلیب کو یوںپکڑے ہوئے تھا جیسے اسے خطرہ ہو کہ کوئی اسے چھین لے گا۔
(اس کہانی کا مرکزی خیال سینٹ پیٹر کے فرمودات سے ماخوذ ہے )
مترجم : نصر ملک ۔ کوپن ہیگن۔ ڈنمارک
WAH
ReplyDelete