Enjoy intersting short stories

Tuesday, 28 November 2017

افسانہ : سُرخ لباس --- تحریر: ایلس منرو --کینیڈا ---مترجم: حمزہ حسن شیخ

Read online 
Original Title: Red dress (Published in 1946)

Alice Munro (born 10 July 1931)
a Canadian short story writer who won the Nobel Prize in Literature in 2013.
افسانہ  : سُرخ لباس
تحریر: ایلس منرو --کینیڈا
مترجم: حمزہ حسن شیخ -اسلام آباد، پاکستان
**************************************
میری ماں میرے لیے، نومبر کے پورے مہینے میں ایک لباس بناتی رہی تھی۔ مَیں سکول سے آتی تو وہ کچن میں کام کررہی ہوتی اور اس کے اردگرد کٹے ہوئے سرخ ریشمی کپڑے کے ٹکڑے اور ٹشوپیپر کے بنے ہوئے نمونے پڑے ہوتے۔ وہ کھڑکی کی روشنی میں اپنی پرانی سینے والی مشین رکھ کر کام کرتی اور ساتھ ساتھ باہر بھی دیکھتی رہتی کہ ہرے بھرے کھیتوں اور سبزیوں کے باغات کے ساتھ والی سڑک سے کون کون گذرا ہے۔ وہاں سے کبھی کبھار ہی کوئی گذرتاتھا۔
سُرخ مخملی کپڑے کے ساتھ کام کرنا کوئی آسان نہ تھا کیونکہ یہ باربار کھینچ جاتااور میری ماں نے اس لباس کے لیے جو ڈیزائن منتخب کیاتھا،وہ انتہائی مشکل تھا۔ اس کے علاوہ وہ اچھا سینے پرونے والی عورت نہ تھی۔ ہاں یہ اور بات تھی کہ وہ چیزیں بناناپسندکرتی تھی۔ جب کبھی بھی اُسے موقع ملتا وہ بخیہ گری اور استری کرنے سے جان چھڑانے کی کوشش کرتی اور اُس نے کبھی بھی اچھے سلیقے سے سینے، بٹن ٹانکنے اور لباس کے جوڑ گانٹھنے میں فخر محسوس نہیں کیاتھا جس طرح کہ میری پھوپو اور دادی محسوس کرتی تھیں۔ اُن کے برعکس، وہ ایک جذبے کے ساتھ کام شروع کرتی۔ ایک خوبصورت اور چونکا دینے والے خیال کے ساتھ اور اُس لمحے کے بعد، اُس کا جذبہ کم ہونا شروع ہوجاتا۔ پہلی بار تو وہ کوئی ڈیزائن ہی پسندنہ کرپاتی۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں، کوئی ڈیزائن ایسا تھا ہی نہیں جو اُس کے ذہن میں گردش کرتے خیالات سے مطابقت رکھتا۔ جب میں چھوٹی تھی تو اُس نے کئی بار میرے لیے کپڑے بنائے تھے، ایک پھول دار لباس جس کے گلے پٹی پر اچھی خوبصورت وکٹورین لیس کھُردرے انداز میں لگی تھی، ایک تھیلا نما ٹوپی، ایک شاندار اسکاٹش قمیص جس کے ساتھ مخمل کی جیکٹ اور ٹوپی تھی اور ان کے علاوہ ایک کشید والا کسانی لباس جس کے ساتھ سُرخ رنگ کا اسکرٹ اور سیاہ لیس دار قمیص تھی۔ میں نے ان کپڑوں کو بہت شائستہ انداز میں پہنا تھااور میں دنیا کی رائے جانے بغیر ان دنوں بہت خوش تھی۔ اب چونکہ میں سمجھ دار ہوگئی تھی تو میں نے ایسے لباسوں کے لیے خواہش کرنا شروع کی جس طرح میری دوست لونئی کے تھے جو اُس نے بیلے کے اسٹور سے خریدے تھے۔میں نے بھی وہ کئی بار پہنے تھے۔ کبھی کبھار لونئی اسکول سے واپسی پر میرے ساتھ میرے گھرآتی اور وہ کرسی پر بیٹھ کر مجھے دیکھتی۔ میں اُس وقت بہت پریشان ہوجاتی جب ماں میرے اردگرد چکرلگاتی، اُس کے گھٹنے چٹکتے اور اُس کی سانسیں تیز ہوجاتیں۔ وہ خود سے بڑبڑاتی رہتی۔ گھرکے اردگرد، وہ کوئی موزے یا انگیانہ پہنتی۔ وہ گھٹنوں تک جرابیں اور لمبی ہیل والے جوتے پہنتی اُس کی ٹانگیں سبزونیلی رگوں کے نشانات سے اٹی ہوئی تھیں۔ میں نے اُس کے بے شرمی سے گھٹنے اُٹھاکر بیٹھنے کے انداز کے بارے میں سوچا جو کہ مجھے بہت بے ہودہ لگا۔ میں نے لونئیے سے بولنا جاری رکھا تاکہ جتنا بھی ممکن ہو اس کی توجہ میری ماں کی جانب نہ جائے۔ لونئیایک شائستہ، قابل تعریف اور سنجیدہ انداز اپنائے بیٹھی رہی جو بڑوں کی موجودگی میں اُس کا روپ بدلنے کا مخصوص انداز تھا۔ وہ اُن پر ہنسی اور یہ ایک غصیلا تمسخراتی انداز تھا جس کا کسی کو پتہ نہ چلا۔ میری ماں نے مجھے اُٹھایا اور مجھے لطف سے بھردیا۔ اُس نے مجھے تھوڑا سا جھلایا اور پھر سیدھا کھڑا کردیا۔
’’ لونئیے تمہارااس بارے میں کیا خیال ہے؟ ‘‘
’’یہ بہت خوبصورت ہے۔‘‘ لونئیے نے اپنے مخلص اور نرم لہجے میں کہا۔ لونئیکی ماں مرچکی تھی۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ رہتی تھی جس نے اُس کی کبھی پرواہ نہ کی تھی اور اس وجہ سے وہ میرے نزدیک محترم اور قابلِ رحم تھی۔
’’ہاں یہ ہوجائے گا، اگر میں نے اس کی ناپ ٹھیک کرلی،‘‘میری ماں نے کہا،’’ہاں، اچھا۔‘‘میں نے ڈرامائی انداز میں اپنے پاؤں پر دردناک آہوں اور آوازوں کے ساتھ گھومتے ہوئے کہا۔
’’مجھے شک ہے، پتہ نہیں یہ اس کی تعریف بھی کرتی ہے یا نہیں۔‘‘اُس نے لونئیے سے بات کرتے ہوئے مجھے غصے سے گھورا، جیسے لونئیے تو ایک عورت تھی جبکہ میں صرف ایک بچی تھی۔’’سکون سے کھڑی رہو ۔‘‘ اُس نے میرے سر کے اوپر سے لباس کو کھینچتے ہوئے کہا۔میرا سر مخمل میں چھُپ گیا اور کاٹن کے پرانے یونیفارم میں چھُپا میرا جسم نمایاں ہوگیا اور مجھے اپنا آپ بہت ہی کھُردرا، ڈھیلاڈھالااور بطخ کے بھیگے بدن کی طرح محسوس ہوا۔ میں نے خواہش کی کہ میں بھی لونئیے کی طرح ہلکی پھُلکی، کمزور اور زرد سی ہوں جیسے وہ ایک نیلے رنگ کی بچی تھی
’’کسی نے بھی مجھے لباس بناکر نہیں دیاتھا جب میں ہائی سکول جارہی تھی۔‘‘میری ماں نے کہا۔
’’میں نے خود بنایاتھا اور کسی نے بھی میری مدد نہ کی۔‘‘میں ڈر گئی کہ وہ دوبارہ وہی کہانی شروع کررہی تھی کہ وہ سات میل دُور پیدل سکول جاتی تھی اور پھربورڈنگ ہاؤس کی میزوں پر بیٹھ کر نوکری کی تلاش کرتی تھی تاکہ وہ ہائی سکول جاسکے۔میری ماں کی زندگی کی ساری کہانیاں جو کبھی مجھے بہت دلچسپ معلوم ہوتی تھیں، اب مجھے صرف ڈرامائی، غیرضروری اور تھکادینے والی محسوس ہونے لگی تھیں۔
’’ایک دفعہ، مجھے ایسا لباس ملا تھا، اُس نے کہا۔’’یہ کریم کلر کا اُونی کپڑاتھا۔ جس کے سامنے والے حصے پر نیلی لائنیں نیچے کی جانب جارہی تھیں اور اس کے خوبصورت موتی نما بٹن تھے، میں حیران ہوں کہ یہ کیسے بنایاگیاتھا؟‘‘
جب ہم فارغ ہوئے تو میں اور لونئیاوپراپنے کمرے میں آگئیں۔ وہاں ٹھنڈ تھی لیکن ہم وہیں رُک گئے۔ ہم نے اپنے کلاس کے لڑکوں کے بارے میں باتیں کیں، باری باری ساری قطاروں کا جائزہ لیااور ایک دوسرے سے پوچھتی رہیں،’’کیا تم اُسے پسند کرتی ہو؟اچھا کیا تم اُسے آدھا پسند کرتی ہو؟ کیا تم اس سے نفرت کرتی ہو؟ کیا تم اس کے ساتھ باہرجاؤ گی اگر اُس نے تمہیں کہا تو؟ لیکن کسی نے ہم سے نہیں پوچھا تھا۔ ہم تیرہ سال کی تھیں اور ہم دو ماہ سے ہائی سکول جارہی تھیں۔ ہم نے مختلف رسائل کے سوالنامے بنائے تھے، یہ جاننے کے لیے کہ کیا ہم بھی شخصیت بنیں گی یا ہم بھی مشہور ہوں گی۔ ہم اپنے چہروں کو سجانے، اپنی اچھی عادات کونمایاں کرنے، اپنی پہلی ملاقات پر گفتگو شروع کرنے اور جب لڑکا دُور جانا شروع ہوتو اُس کو منانے کے بارے میں کئی مضامین پڑھتیں۔ ہم نے اور بھی بہت سے مضامین پڑھے مثلاًحیض کے بارے میں، بچہ گرانے یا یہ کہ خاوند اپنے گھر سے باہر اطمینان کیوں تلاش کرتے ہیں؟ جب ہم نے اسکول کا کام نہیں کرنا ہوتاتھا تو ہمارا زیادہ تروقت غلہ صاف اور ذخیرہ کرنے میں گذرتا اور ساتھ ساتھ ہم جنسیات کی باتیں بھی کرتی رہتیں۔ ہم نے آپس میں وعدہ لیاتھا کہ ہم ایک دوسرے کو ہر بات بتائیں گی۔ لیکن ایک بات جو میں نے نہیں بتائی تھی وہ اس ڈانس کے بارے میں تھی۔ ہائی سکول کا کرسمس ڈانس جس کے لیے میری ماں میرے لیے لباس بنا رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ میں جانا نہیں چاہتی تھی۔
ہائی سکول میں مَیں ایک منٹ کے لیے بھی آرام دہ نہ تھی۔ مجھے لونئیے کے بارے میں کوئی خبر نہ تھی۔ امتحانات سے پہلے مجھے اُس کے یخ ہاتھوں اور تیز دھڑکن کا معلوم ہواتھا لیکن مجھے ہر وقت مایوسی گھیرے رکھتی۔ جب مجھ سے کلاس میں کوئی سوال پوچھتا، بالکل ایک چھوٹااور معمولی سا سوال، تو جواباًمیری لرزتی پتلی سی چیخ نما آواز نکلتی۔ جب مجھے بلیک بورڈ کی جانب جاناہوتا تو مجھے یقین ہوتا۔اگرچہ ان مہینوں میں بھی جب کہ اس کا امکان بھی نہ ہوتاکہ قمیص پر خون لگا ہُوا ہے۔ میرے ہاتھ پسینے کی وجہ سے پھسلتے جب میں بلیک بورڈ پر پرکار سے زاویہ لگانے کی کوشش کرتی۔ میں والی بال میں بال نہ اُچھال سکتی۔ دوسروں کے سامنے کوئی کام کرنے کا کہاجاتا تو میری ساری ہمت جواب دے جاتی۔ مجھے بزنس پریکٹس سے نفرت تھی کیونکہ آپ کو ایک کھاتہ کتاب کے کئی صفحات ایک ہی قلم سے بھرنے پڑتے تھے اور جب بھی کوئی استاد میرے کندھے کے اوپر سے مجھ پر جھانکتا تو میری ساری سیدھی لائنیں خراب ہوجاتیں اور آپس میں گُڈمُڈ ہوجاتیں۔ مجھے سائنس سے بھی نفرت تھی کیونکہ ہم نازک اور ان جانے آلات کی میزوں کے پیچھے اور تیز روشنیوں کے نیچے اسٹولوں پر بیٹھے بیٹھے جھُلس جاتے اور ہمیں اسکول کا پرنسپل یہ مضمون پڑھاتا جس کی آواز بہت ہی سرد مُہر اور خودپسند قسم کی تھی۔ وہ روزانہ ہی صحیفے پڑھتااور ذلت پر سزادینے میں ماہرتھا۔ مجھے انگریزی سے نفرت تھی کیونکہ لڑکے اس کلاس میں پیچھے بیٹھ کر موسیقی بجاتے جبکہ ایک خوبصورت شریف اور مغرور سی ہلکی سی بھینگی اُستانی سب کے سامنے ورڈزورتھ پڑھتی۔ اُس نے اُن کو دھمکی دی، اُن کی منت سماجت کی، اُ س کا چہرہ سُرخ تھا اور اُس کی آواز بھی اتنی ہی کمزور اور ناقابلِ اعتبار تھی جتنی میری۔ وہ اس کی التجاؤں کا تمسخراُڑاتے اور جب وہ دوبارہ پڑھنا شروع کرتی، تو وہ اس کی عجیب و غریب نقلیں اُتارتے، قسم قسم کے منہ بناتے، اپنی آنکھوں کو بھینگا کرلیتے اور اپنے دلوں پر ہاتھ پھیراتے رہتے۔ کبھی کبھار وہ رونے لگتی۔ کوئی بھی اُس کی مدد نہ کرتا اور وہ بھاگتے ہوئے کلاس سے چلی جاتی۔ پھر لڑکے اونچی اونچی آواز میں رونے کی آوازیں نکالتے اور بلند قہقہے لگاتے۔ کبھی کبھار میرا قہقہ بھی اُس کا تعاقب کرتا۔ ایسے وقت میں کمرے میں بربریت پر رنگ رلیاں مناتا ماحول ہوتا جو مجھ جیسے کمزور اور ڈرے ہوئے لوگوں کو زیادہ ڈرادیتا۔
لیکن اسکول میں درحقیقت کیاکچھ ہورہاتھا وہ صرف بزنس پریکٹس، سائنس اور انگریزی نہ تھی۔ وہاں پر اور بھی کچھ نہ کچھ تھا جس کی چمک دمک یا اہمیت تھی۔ وہ پرانی عمارت جس کے چٹانی دیواروں کے لیس دار تہ خانے تھے، سیاہ چغابدلنے کے کمرے، گذرے ہوئے شاہوں اور کھوئے ہوئے فوجیوں کی تصاویر، جنیاتی مقابلوں کی پُرلطف اور پریشان کُن فضااور اس کے علاوہ بڑی کامیابیوں کے کھُلی آنکھوں سے دیکھے خواب اور میرے لیے وہاں اپنی شکست قبل از اطلاع موجودتھی۔ کسی چیز کا ہونا تھا جس نے مجھے اس ڈانس سے بازرکھا۔
دسمبرمیں برف باری شروع ہوگئی اور مجھے ایک خیال سوجھا۔ اس سے پہلے میں اپنے بائیسکل سے گرنے کا تصور کرچکی تھی۔ اپنا ٹخنہ ٹوٹنے کا اور میں نے اس پر قابو پانے کی کوشش کی تھی جیسے میں سخت سردی میں دوبار ہ سوار ہوکر گھر کی جانب چلی تھی۔ملک کی سڑکوں پراپنے سائیکل کے گہرے نشان چھوڑتے ہوئے۔ لیکن یہ بہت مشکل تھا۔ تاہم مجھے گلے اورحلق کی نالیاں خطرناک حد تک کمزورمحسوس ہوئیں۔میں نے راتوں کو بستر سے اُٹھنا شروع کردیا۔اوراپنی کھڑکی کو تھوڑا کھول کرمیں تھوڑا سا نیچے جھکتی اور ہوا کو اندرآنے دیتی جس کے ساتھ کبھی کبھار برف بھی چمٹی ہوتی جو کہ میرے ننگے گلے پر حملہ آورہوتی۔ میں اپنے پاجامے کا اوپری حصہ ہٹادیتی اور خودکو یہ الفاظ کہتی۔’’سردی سے نیلا‘‘اور میں جیسے ہی وہاں پر جھکتی، میری آنکھیں بندہوجاتیں، مجھے اپنا سینہ اور گلا نیلااور ٹھنڈاہوتامحسوس ہوتا جس کے نیچے گھوری نیلی رگوں کا جال جلدمیں چھُپاہوتا۔ میں اتنی دیر وہاں پر ٹھہری رہتی جب تک مجھ میں سکت ہوتی۔ اور پھرمیں کھڑکی کی دہلیز سے مٹھی بھر برف اُٹھاتی ا ور اس کو اپنے سینے پر ڈال دیتی ، اپنے پاجامے کے بٹن بند کرنے سے پہلے۔ یہ فلالین کے کپڑے کی گرمی سے پگھل جاتی اور میں ساری رات بھیگے کپڑوں میں ہی سوئی رہتی جو کہ سب سے خطرناک اور بدترین بات تھی۔ صبح کو جیسے ہی میں جاگتی، میں اپنا گلہ صاف کرتی کہ کہیں یہ سوجھا ہوا تو نہیں ، یہ دیکھنے کے لیے کھانستی، یہ امید کرتے ہوئے اپنی پیشانی پر ہاتھ لگاتی کہ مجھے بخار تو نہیں۔ یہ بالکل ٹھیک نہ تھا۔ ہرصبح ڈانس کے دن بشمول، میں شکست خوردہ اُٹھتی اگرچہ اچھی صحت کے ساتھ۔ ڈانس والے دن میں اپنے بال بالکل سیدھے گھنگریالے کرتی لیکن آج زنانہ رسومات کی تمام ممکنہ حفاظت چاہتی تھی۔ میں کچن میں پڑے صوفے پر لیٹ گئی اور کتاب’’ پومپائی کے آخری ایام‘‘پڑھنے لگی اور یہ خواہش کی کہ کاش میں وہاں ہوتی۔ میری ماں کبھی بھی مطمئن نہ ہوتی، وہ ہروقت لباس کے سفید کالر کی لیس سیتی رہتی، اُس نے یہ فیصلہ کیاتھا کہ اس کا پہناؤ بڑی عمر کا لگنا چاہیے۔ میں نے گھنٹوں اُس کو دیکھا۔ یہ سال کے مختصر ترین دن تھے۔ اس صوفے کے اوپر، ایک چاٹ لگا ہواتھا جس میں او ایس اور ایکس ایس کی پرانی گیمز کے بارے میں لکھاتھا۔ بڑی تصاویر لگی تھیں اور میرے اور میرے بھائی کے خطوط جب ہم دونوں آنتوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔ میں نے اُن کو دیکھا اور پھر گذرے ہوئے بچپن میں حفاظت کے ساتھ رہنے کی خواہش کی۔
جب میں نے اپنے بال گھنگریالے کرلیے اور دونوں قدرتی اور مصنوعی طریقے اپنا لیے اور اُن کو چمکدار جھاڑی کی بہت سی شاخوں کی طرح پھیلادیاتھا۔ میں نے ان کو گیلاکیا، کنگھی کی اور ان کو برش سے باربار ٹھیک کیااور ان کو نیچے کی جانب اپنے رخساروں کے ساتھ لٹکادیا۔ میں نے چہرے پر پوڈرلگایا جو کہ میرے گرم چہرے پر چاک کی طرح چپک گیا۔ میری ماں نے اپنا لوشن"ایشز آف روزز"نکالا جو اُس نے کبھی نہیں لگایاتھا اور اُس کو میرے بازوؤں پر لگادیا۔ پھر اُس نے میرے لباس کی زپ بندکی اور مجھے آئینے کے سامنے کھڑا کردیا۔ لباس بالکل شہزادیوں جیساتھا اور درمیان سے یہ بہت فٹ تھا۔ میں نے دیکھا کہ کیسے میری چھاتیاں نئی انگیا میں بھری ہوئی مگر حیران کن حد تک باہرکو اُبل رہی تھیں، سن بلوغت کی پختگی کے ساتھ۔
’’میرا دل چاہ رہا ہے کہ کاش میں تصویر لے سکتی۔‘‘میری ماں نے کہا’’مجھے اس کی سلائی پر فخر محسوس ہورہا ہے اور تمہیں میرا شکریہ اداکرناچاہیے۔‘‘
’’شکریہ۔‘‘میں نے کہا۔
جب میں نے دروازہ کھولا تو لونئینے سب سے پہلے کہا،’’ہائے اللہ، تم نے اپنے بالوں کو کیا کردیا ہے؟‘‘
’’یہ میں نے بنائے ہیں۔‘‘
’’تم بالکل بھوت لگ رہی ہو لیکن فکر نہ کرو۔ مجھے کنگھی دو اور میں سامنے سے اِن کو ٹھیک کردیتی ہوں۔ پھر یہ بالکل ٹھیک نظرآئیں گے۔ ان میں تو تم بالکل بوڑھی نظرآرہی ہو۔‘‘
میں آئینے کے سامنے بیٹھ گئی اور لونئیمیرے پیچھے کھڑی ہوکے میرے بال ٹھیک کرنے لگی۔ میری ماں نے ہمیں اکیلا نہ چھوڑا۔ میری خواہش تھی کہ وہ چلی جائے۔ اُس نے گھنگریالے بالوں کو دیکھا اور کہا، ’’ لونئی!تم نے تو مجھے حیران کردیا۔ تمہیں تو ہیرڈریسر بننا چاہیے۔‘‘
’’اچھی سوچ ہے!‘‘ لونئینے جواب دیا۔ اُس نے زرد نیلے رنگ کا کریپ کا لباس پہناہواتھا جس پر مختلف ڈیزائن بنے تھے۔ یہ لباس مجھ والے سے کہیں زیادہ اچھاتھا اگرچہ اس کے کالر نہیں تھے۔ اس کے بال اس طرح باہر نکلے ہوئے تھے جیسے گڑیا کے ہوں۔ میں نے چوری چھپے ہمیشہ یہ سوچاتھا کہ لونئیخوبصورت نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ اس کے دانت ٹیڑھے تھے لیکن میں نے اب دیکھا کہ چاہے اُس کے دانت ٹیڑھے تھے یا نہیں، اُس کے اسٹائلش لباس اور نرم بالوں نے اُس کو ایک طلسماتی گڑیامیں تبدیل کردیاتھا جو کہ سرخ ریشم سے بھری ہوئی تھی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں تھیں، بکھرے ہوئے بال جس پر جوش مسرت چھائی ہوئی تھی۔
میری ماں دروازے تک ہمارے ساتھ آئی اور اندھیرے میں پکارا،’’خداحافظ‘‘۔ یہ میرا اور لونئی کا روایتی سلام تھا۔ یہ بالکل ہی بیوقوفانہ سا محسوس ہوتااور اُس کی جانب سے یہ بے کس سا انداز مجھے عجیب محسوس ہوتا اور مجھے اُس پر شدید غصہ آتا کہ جب میں جواب ہی نہیں دیتی وہ یہ الفاظ کیوں استعمال کرتی ہے۔ لیکن صرف لونئی تھی جو خوش دلی سے جواب دیتی اور بہت ہی ہمت سے کہتی،’’شب بخیر۔‘‘
ورزش گاہ میں چیڑ اور صنوبر کی بُو پھیلی تھی۔ باسکٹ بال کے پولوں کے ساتھ کاغذ کی خوبصورت سُرخ اور سبز بالیں لٹک رہی تھیں۔ بڑی کلاسوں کے زیادہ تر طلباء جوڑوں میں نظرآتے تھے۔ بارہویں اور تیرھویں کلاس کی کچھ طالبات اپنے ساتھ اپنے بوائے فرینڈز لائی تھیں جو پہلے ہی یہاں سے گریجویشن کرچکے تھے یا شہر کے اطراف میں کاروبار کرتے تھے۔ یہ نوجوان ورزش گاہ میں سگریٹ پیتے اور کوئی بھی اُن کو نہیں روک سکتا تھا، وہ آزاد تھے۔ لڑکیاں اپنے ہاتھ آہستگی سے مردانہ آستینوں پر جمائے اُن کے ساتھ کھڑی تھیں اور اُن کے چہرے تھکے، الگ الگ سے اور خوبصور ت تھے۔ مجھے خواہش ہوئی کہ میں بھی اُن کی طرح نظر آؤں۔ اُن کا رویہ ایسا تھا جیسے صرف وہی بڑے ہوں جن کو صرف ڈانس کرناآتا ہے اور جیسے ہم باقی سب جن کے درمیان وہ گذر اور گھوم رہے تھے، وہ اُن کو نہ نظرآرہے تھے اور نہ ہی اُن کے لیے اہم تھے۔ جب پیلے ڈانس کا اعلان کیاگیا وہ سُستی سے باہرکی جانب گئے، ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے جیسے اُن کو بچپن کے کسی بھولے ہوئے کھیل میں حصہ لینے کا کہاگیا ہو۔ ہاتھ پکڑے اور آہستگی سے کانپتے ہوئے وہ آپس میں اکٹھے ہورہے تھے، میں، لونئی اور نویں کلاس کی دوسری طالبات اُن کے پیچھے چل رہی تھیں۔
میں نے بیرونی دائرے کو دیکھنے کی جرأت نہ کی۔ جب وہ میرے پاس سے گذرا، اس خوف سے کہ کہیں میں کوئی جلدی میں بدتہذیبی نہ دیکھ لوں۔ جب موسیقی رُکی تو میں اپنی جگہ پر رُکی رہی جہاں میں ٹھہری تھی اور اپنی آدھی آنکھیں اُٹھاتے ہوئے میں نے ایک لڑکے کو دیکھا جس کا نام میس ولیمز تھا اور وہ آہستگی سے میری جانب آرہاتھا۔ اس نے آہستگی سے میری کمراور انگلیوں کو چھُوااور میر ے ساتھ ڈانس کرنے لگا۔ میری ٹانگیں کھُل گئیں اور میرا بازو کندھوں سے تھرکنے لگااور میں نے ابھی ایک لفظ بھی نہ بولاتھا۔ میس ولیمز کاشمار سکول کے چند ایک ہیروز میں ہوتاتھا۔ وہ باسکٹ بال اور ہاکی کھیلتاتھا۔ اور وہ ایک شاہانہ غرور اور وحشیانہ انداز میں مختلف جگہوں پر گھومتانظرآتا۔ مجھ جیسی غیراہم لڑکی کے ساتھ ڈانس کرنا اُس کے لیے اتنا ہی غیراہم تھا جتنا اُس کے لیے شیکسپیئر یادکرنا۔ اُس نے بھی اس بات کو شدت سے محسوس کیاجتنا کہ میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنے دوستوں کو ناگواری کے تاثرات دے رہاتھا۔ اس نے فرش کے کنارے کو ٹھوکرلگاتے ہوئے مجھے زور سے گھمایا۔اُس نے میری کمر سے اپنا ہاتھ ہٹایااور میرا بازو جھٹک دیا۔
’’پھرملتے ہیں۔‘‘اُس نے کہااور چلاگیا۔
مجھے ایک دو منٹ بات سمجھنے میں لگے کہ کیا ہُوا ہے اور وہ اب دوبارہ واپس نہیں آئے گا۔ میں دیوار کے ساتھ اکیلی کھڑی ہوگئی۔ فزیکل ایجوکیشن کی ایک اُستانی دسویں کے طالب علم کی بانہوں میں خوش دلی سے ڈانس کرتی ہوئی جب میرے قریب سے گذری تو اُس نے مجھے متجسس نگاہوں سے دیکھا۔ پورے سکول میں وہ واحداُستانی تھی جو کہ معاشرے میں ہونے والی ساری حرکات اور الفاظ کو خوب سمجھتی تھی اور مجھے یہ خوف تھا کہ اگر اُس نے سب کچھ دیکھ لیا ہے یا اُس کو پتہ چل گیا تو وہ ضرور ماسن کو لوگوں کے سامنے مجبور کردے گی کہ وہ میر ے ساتھ ڈانس نہ کرے۔مجھے ماسنپر کوئی غصہ یا حیرت نہ تھی۔ میں سکول میں اُس کی حالت سمجھ گئی تھی اور اپنی بھی اور میں نے دیکھا کہ جو کچھ بھی اُس نے کیا تھا، وہ حقیقت پر مبنی تھا۔ وہ واقعاً ایک ہیروتھا، وہ سکول کونسل قسم کا کوئی ہیرو نہ تھا کہ جس کی کامیابی صرف سکول کی دیوار تک محدود ہو۔ اُن میں سے کئی لڑکوں نے میرے ساتھ بڑی جرأت اور سلیقے کے ساتھ ڈانس کیاتھا اور مجھے کسی خوشگوار لمحے کے بغیر چھوڑ گئے تھے۔ تاہم ابھی بھی مجھے امید تھی کہ مجھے کافی لوگوں نے دیکھا تھا۔ مجھے لوگوں کے دیکھنے سے نفرت تھی۔ میں نے اپنے انگوٹھے کی جلد کو کاٹنا شروع کردیا۔ جب موسیقی رُکی تو میں ورزش گاہ کے ایک کونے میں جمع لڑکیوں کے گروپ میں شامل ہوگئی۔ میں نے یہ تاثر دیا کہ جیسے کچھ ہُوا ہی نہیں اور خو دسے کہا کہ سب کچھ ابھی شروع ہونے والا ہے۔
موسیقی دوبارہ شروع ہو گئی تھی۔ کمرے میں ہماری جانب کے گھنے ہجوم میں حرکت پیدا ہوئی اور جلد ہی یہ ہجوم کم ہونے لگا۔لڑکے آئے اور لڑکیاں ان کے ساتھ ڈانس کے لیے چلی گئیں۔لُونئی بھی چلی گئی اور میرے ساتھ ٹھہری لڑکی بھی چلی گئی۔ کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا۔ میں نے رسالے کے اس مضمون کو یاد کیا جو میں نے اور لُونئی نے پڑھا تھا جس میں لکھا تھا ۔ خوش رہو اور لڑکوں کو اپنی چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھنے دو! ان کو اپنی آواز میں خوشی کے قہقے محسوس کرنے دو! بالکل سادہ اور واضح، لیکن کتنی ہی لڑکیاں بھول گئیں؟ یہ سچ تھا ، میں بھی بھول گئی تھی۔ میرے آبرو پریشانی کی وجہ سے تن گئے تھے، میں خوفزدہ اور بد صورت دکھائی دینے لگی تھی۔ میں نے ایک سانس لیا اور اپنا چہرہ ڈھیلا چھوڑنے کی کوشش کی، میں مسکرائی لیکن مجھے کسی پر بھی مسکراتے ہوئے بہت عجیب سا محسوس ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ ڈانس کرتی ہوئی لڑکیاں، مشہور و معروف لڑکیاں، ان میں سے کوئی بھی نہیں مسکرا رہی تھی ، ان میں سے زیادہ تر کے چہرے نیند سے بھرے اور آزردہ تھے اور وہ بالکل نہیں مسکرا رہی تھیں۔ لڑکیاں ابھی تک ڈانس کرنے کے لیے جا رہی تھیں، کچھ نے مایوس ہو کر آپس میں جوڑے بنا کر ڈانس شروع کر دیا تھا لیکن زیادہ تر لڑکوں کے ساتھ گئی تھیں۔ موٹی لڑکیاں، کیل مہاسوں والی لڑکیاں، ایک غریب لڑکی جس کے پاس پہننے کے لیے اچھا لباس نہ تھا اور نہ کوئی خوبصورت اسکرٹ یا سویٹر، وہ بھی ڈانس کے لیے چلی گئی تھی، ان کو بلایا گیا تھا اور وہ ڈانس میں مشغول تھیں۔ وہ ان کو کیوں لے گئے تھے اور مجھے کیوں نہیں؟ کیوں باقی سب اور میں کیوں نہیں؟ میں نے سرخ مخمل کا لباس پہنا تھا ۔میں نے اپنے بال گھنگریالے بنائے تھے اور میں نے خوشبو بھی لگائی تھی اور لوشن بھی۔ دعا کروں، میں نے سوچا میں اپنی آنکھیں بند نہ کر سکی لیکن میں اپنے دماغ میں بار بار منصوبے بناتی رہی۔ پلیز میں، ’’پلیز میں، پلیز میں‘‘ اور میں نے اپنی انگلیاں اپنی پیٹھ کے پیچھے جما دی تھیں۔ ایک ایسے انداز میں جو صلیب کے نشان سے زیادہ طاقتور تھا، وہی خفیہ نشان جو میں اور لُونی ریاضی کی کلاس میں بلیک بورڈ کی جانب نہ جانے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔
اس نے بھی کام نہ کیا جس کا مجھے خوف تھا، وہ سچ ثابت ہوا میں اکیلی ہی پیچھے رہنے والی تھی۔ اس معاملے میں میرے ساتھ کچھ عجیب و غریب معما تھا، بالکل ایسا ہی جیسے کہ غلط سانس کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا یا کیل مہاسوں والے چہرے کو خوبصورتی نہیں لوٹائی جا سکتی۔ ہر شخص یہ جانتا تھا اور میں بھی جانتی تھی اور میں کافی عرصے سے یہ جانتی تھیں۔ لیکن مجھے یقینی طور پر کچھ بھی معلوم نہ تھا میں نے غلط ہونے کی امید کی تھی ۔یقین میرے اندر بیماری کی طرح ابھر رہا تھا۔ میں ایک یا دو لڑکیوں میں سے جلدی سے گزری جو کہ جگہ چھوڑ کر لڑکیوں کے واش روم کی جانب چلی گئیں تھیں۔ میں نے خود کو اپنی خوابگاہ میں چھپا لیا تھا۔
یہ وہ جگہ تھی جہاں میں ٹھہری تھی۔ ناچنے والی لڑکیاں جلدی میں وہاں سے آتی جاتی رہیں۔ وہاں پر بہت سے کمرے تھے ، کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ میں وہاں پر عارضی رہنے والی تھی۔ ڈانس کے دوران میں موسیقی سنتی رہی جو کہ مجھے پسند تھی لیکن اب میں نے مزید اس میں کوئی حصہ نہیں لینا تھا۔ اور اب مجھے کوئی اور کوشش بھی نہیں کرنی تھی ۔ میں صرف یہاں چھپا رہنا چاہتی تھی اور یہ چاہتی تھی کہ یہاں سے خاموشی کے ساتھ اپنے گھر چلی جاؤں اور کوئی بھی مجھے نہ دیکھے۔
ایک بار پھر جب موسیقی شروع ہو ئی تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میرے پیچھے کھڑا ہے۔ وہ زور زور سے پانی کے چھینٹے مار رہی تھی ، اپنے ہاتھ دھو رہی تھی اور بالوں کو کنگی کر رہی تھی اسے یہ بات مضحکہ خیز لگ رہی تھی کہ میں اتنی دیر سے یہاں بیٹھی ہوں۔ مجھے باہر جانا چاہئے تھا، ہاتھ دھونے چاہئیں تھے اور شاید جبکہ میں وہ دھو رہی تھی، وہاں سے چلی جاتی۔
اس کا نام میری فارچیون تھا، میں اسے نام سے جانتی تھی کیونکہ وہ گرلز اتھلیکٹس سوساسٹی کی ایک آفیسر تھی۔ وہ آج کل اعزازی طور پر کام کر رہی تھی اور ہر وقت مختلف کاموں کو مکمل کرنے میں لگی رہتی تھی۔ اس کو اس ڈانس کے منعقد کرنے میں بھی کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔ وہ تمام کلاسوں میں باری باری گئی تھی کہ سجاوٹ کے لیے مدد گار تلاش کیے جا سکیں۔ وہ شاید گیارہویں یا بارہویں جماعت کی طالبہ تھی۔
’’ یہاں بہت اچھا اور ٹھنڈا ماحول ہے‘‘ اس نے کہا۔’’ میں یہاں آرام کرنے آئی ہوں، وہاں بہت گرمی لگ رہی تھی‘‘۔
وہ ابھی تک اپنے بالوں کو کنگھی کر رہی تھی جب تک میں اپنے ہاتھ دھو چکی۔
تمہیں موسیقی پسند آئی، اس نے پوچھا۔
’’ ہاں اچھی ہے‘‘ مجھے خود پتہ نہیں تھا کہ کیا کہنا ہے۔ مجھے اس پر حیرت ہو رہی تھی کہ اتنی سینئر لڑکی مجھ سے باتیں کرنے کے لیے اتنا وقت ضائع کر رہی تھی۔
میں نہیں، میں نہیں ٹھہر سکتی۔ جب مجھے موسیقی پسند نہ ہو،تو مجھے ڈانس سے بھی نفرت ہو جاتی ہے۔ سنو وہ اتنا تلاطم خیز اور شور والا ہے۔ اور میں اس پر کسی صورت بھی ڈانس نہیں کر سکتی۔
میں نے اپنے بالوں میں کنگھی کی۔ وہ مجھے دیکھتے ہوئے بیسن کی جانب جھک گئی۔
’’ میں ڈانس نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی میں یہاں پر اب زیادہ دیر رکنا چاہتی ہوں۔ آؤ چلیں اور سگریٹ پئیں۔
کہاں؟
آؤ میں تمہیں بتاتی ہوں!
واش روم کے آخر میں ایک دروازہ تھا جو کھلا تھا اور ایک اندھیری الماری کی جانب جاتا تھا جس میں جھاڑن اور بالٹیاں رکھی تھیں۔ اس نے مجھے دروازہ کھلا رکھنے کو کہا تاکہ واش روم کی روشنی آتی رہے جب تک کہ وہ دروازے کی مٹھ تلاش نہ کرے۔ یہ دروازہ اندھیرے میں کھلتا تھا۔
’’ میں بتی نہیں جلا سکتی، کہیں کوئی دیکھ نہ لے‘‘ اس نے کہا، یہ دربار کا کمرہ ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ کھیل کود میں حصہ لینے والے لوگوں کو ہمیشہ اس اسکول کی عمارت کے بارے میں ہم سب سے زیادہ معلوم تھا ان کو معلوم تھا کہ چیزیں کہاں رکھی جاتی تھیں اور وہ ہمیشہ غیر قانونی دروازوں سے بہادری کے ساتھ آتے جاتے تھے۔’’ دیکھو تم کہاں جا رہے ہو؟
اس نے کہا۔’’بالکل آخری حصے میں ، وہاں پر کچھ سیڑھیاں ہیں۔ وہ دوسری منزل تک ایک الماری تک جائیں گی، اوپر والا دروازہ بند تھا لیکن کمرے اور سیڑھیوں کے درمیان ایک تقسیم تھی، اگر ہم ان سیڑھیوں پر بیٹھیں ، ویسے ہی اتفاقاً کوئی یہاں آ جائے تو وہ ہمیں دیکھ نہ پائے گا۔‘‘
کیا ان کو سگریٹ کی بو نہیں آئے گی؟ میں نے کہا۔
’’ او ،اچھا۔۔۔ خطرے میں جینا سیکھو‘‘
سیڑھیوں کے اوپر ایک اونچی کھڑکی تھی جس سے ہمیں تھوڑی سی روشنی آ رہی تھی۔میری فارچیون کے پاس پرس میں سگریٹ اور ماچس تھی۔ میں نے اس سے پہلے سگریٹ نوشی نہیں کی تھی سوائے ان سگریٹ کہ جو میں نے اور لُونئی نے مختلف اوراق اورلونئی کے باپ کے چرائے ہوئے تمباکو سے خود بنائے تھے، وہ بہت ہی مختلف ہوتے اور اس سے کئی درجہ بہتر ہوتے۔
’’ آج رات کو یہاں آنے کی صرف ایک وجہ تھی‘‘میری فارچیون نے کہا کہ میں یہاں کی سجاوٹ کی ذمہ دار ہوں اور میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ یہ سب کیسا دکھائی دیتا ہے جب لوگ ایک بار یہاں پر آتے ہیں ورنہ مجھے کیا پرواہ۔ مجھے لڑکوں سے کوئی دلچسپی نہیں‘‘۔
اونچی کالی کھڑکی سے آتی ہوئی روشنی میں، میں اس کا تنگ، حقارت آمیز چہرہ دیکھ سکتی تھی، اس کی سیاہ جلد جو مہاسوں سے بھری ہوئی تھی، باہر کی جانب اس کے نکلے ہوئے دانت جو اس کی شخصیت کو بڑا اور رعب دار بنا رہے تھے۔
’’ زیادہ تر لڑکیاں، تم نے محسوس نہیں کیا؟ کہ تم لڑکوں پر مرنے والی لڑکیاں ، سب سے زیادہ اس اسکول میں تلاش کر سکتی ہوں‘‘۔
میں اس کی توجہ، اس کے ساتھ اور سگریٹ کی بھی ممنون تھی۔ میں نے کہا اور شاید سوچا بھی یہی۔
’’ اس دوپہر کی طرح۔ اس دوپہر میں ان سے گھنٹیاں اور دوسری چیزیں لٹکانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ صرف سیڑھیوں پر چڑھ گئی اور وہاں سے لڑکوں کو گھورنے لگی۔ ان کو پرواہ بھی نہ تھی کہ سجاوٹ مکمل ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ صرف ایک بہانہ تھا، ان کی زندگی میں صرف ایک ہی مقصد ہے کہ وہ لڑکوں کے پیچھے بھاگیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے ساری بیوقوف ہیں‘‘۔
ہم نے اساتذہ کے بارے میں باتیں کیں اور اسکول کے بارے میں بھی۔ اس نے کہا کہ وہ فزیکل ایجوکیشن کی استانی بننا چاہتی ہے اور اس کے لیے اسے کالج جانا پڑے گا لیکن اس کے والدین کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا۔ اس نے کہا کہ اس نے اپنے لیے خود کام کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ ہر صورت آزاد ہونا چاہتی تھی۔ وہ کیفے میں کام کرے گی اور گرمیوں میں کھیتوں میں کام کرے گی جس طرح تمباکو چننے کاکام۔ اس کو سن کر مجھے اپنے اندر دکھ کا احساس ہوا۔ یہاں پر کوئی اور بھی تھا جس کو مجھ جیسی شکست ملی تھی۔ میں نے اسے دیکھا لیکن وہ خود داری اور جذبے سے بھر پور تھی۔ اس نے دوسرے کام کرنے کا سوچ لیا تھا کہ وہ تمباکو چننے کو چنے گی۔
ہم وہاں پر موسیقی کے وقفے کے دوران کھڑے باتیں کرتے اور سگریٹ پیتے رہے۔ جب باہر وہ کافی اور کیک وغیرہ کھا رہے تھے۔
جب موسیقی دوبارہ شروع ہوئی،میری فارچیون نے کہا’’ دیکھو! کیا ہمیں مزید بھی یہاں پر رکنا ہے؟ آؤ اپنے کوٹ لیں اور چلیں۔ کیوں نہیں، ہم نیچے لیئی کی جانب چلے گئے، گرم گرم چاکلیٹ کھائی اور آرام سے باتیں کرتے رہے۔
سگریٹ کے ٹکڑے اور راکھ اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہم نے دربار کے کمرے کے درمیان سے اپنا راستہ تلاش کیا ، الماری کے قریب ہم رکے اور یہ یقین کرنے کے لیے توجہ کی کہ واش روم میں کوئی نہیں تھا۔ ہم دوبارہ روشنی میں آئے اور راکھ کو واش روم کے ٹائلٹ میں پھینک دیا۔ ہمیں باہر جانا تھا اور سامان گاہ کی جانب ڈانس والے کمرے سے ہو کر گزرنا تھا جو کہ بیرونی دروازے کے بالکل ساتھ تھا۔
ڈانس شروع ہونے والا تھا،’’ کمرے کے کنارے کی جانب جاؤ‘‘میری فارچیون نے کہا’’ کسی کو ہمارا پتہ نہیں چلے گا‘‘ میں نے اس کا پیچھا کیا اور کسی بھی شخص پر نظر نہ ڈالی۔ میں نے لونئی کو تلاش نہ کیا۔ آج کے بعد لونئی میری اتنی دوست نہ رہی تھی جتنی کہ پہلے تھی وہ ویسی ہی تھی جیسیمیری فارچیون لڑکوں کا دیوانہ کہتی تھی۔
میں نے محسوس کیا کہ میں زیادہ ڈرئی ہوئی نہ تھی اور اب میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے ہونے والے ڈانس کو چھوڑ دینا ہے۔ میں کسی کا بھی انتظار نہیں کر رہی تھی کہ وہ میرا انتخاب کرے۔ میرے اپنے منصوبے تھے، مجھے اب کسی پر مسکرانے یا قسمت آزمانے کے لیے اشارے کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ یہ میرے لئے اہم نہ تھا، میں اپنے دوستوں کے ساتھ چاکلیٹ کھانے جا رہی تھی، ایک لڑکے نے مجھے کچھ کہا تھا، وہ میرے راستے میں تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھے کہے گا کہ میری کوئی چیز راستے میں گر گئی ہے یا میں اس راستے پر نہیں چل سکتی یا یہ کہ یہ کمر بند ہے۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ وہ میرے ساتھ ڈانس کرنے کے لیے کہہ رہا ہے جب تک کہ اس نے دوبارہ مجھ سے نہ کہا۔ یہ ہمارا کلاس فیلو ریمنڈ بوٹنگ تھا جس سے میں نے اپنی زندگی میں کبھی بات نہیں کی تھی۔ اس نے سوچا کہ شاید میں رضا مند ہوں، اس نے میری کمر پر ہاتھ رکھا اور بغیر کسی اعتراض کے میں نے اس کے ساتھ ناچنا شروع کر دیا۔
ہم کمرے کے پیچھے نہیں پہنچے، میں ناچ رہی تھی، میری ٹانگوں نے لرزنا اور ہاتھوں میں پسینہ ختم ہو چکا تھا میں ایک ایسے لڑکے کے ساتھ ناچ رہی تھی تھی جس نے مجھے منتخب کیا تھا،کسی نے اسے بتایا نہیں تھا اور اسے ضرورت بھی نہ تھی ، اس نے صرف مجھ سے پوچھا تھا۔ کیا یہ ممکن تھا؟ کیا میں اس پر یقین کر سکتی تھی؟ کیا میرے ساتھ کوئی بھی مسئلہ نہ تھا۔
میں نے سوچا کہ مجھے اسے بتانا چاہئے کہ یہ ایک غلطی تھی کہ میں چھوڑ کے جا رہی تھی، میں اپنی دوست کے ساتھ گرم چاکلیٹ کھانے جا رہی تھی، لیکن میں نے کچھ نہ کہا۔ میرے چہرے پر خوشگواری کے تاثرات ابھر رہے تھے، بغیر کسی کوشش کے، ان غیر دماغ اور سرد مہر لوگوں کے لیے جن کو ڈانس کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ یہ وہ چہرہ تھا جو کہمیری فارچیون نے دیکھا تھا، جب اس نے سامان گاہ کے کمرے سے باہر کی جانب دیکھا تھا اور اس کا اسکارف اس کے سر پر جما تھا، میں نے اپنے ہاتھ سے ایک کمزور سا اشارہ کیا جو کہ لڑکے کے کندھے سے لگا، یہ بتانے کے لیے کہ میں معافی چاہتی ہوں کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ کیا ہوا تھا؟ اور یہ کہ اب میرا مزید انتظار کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ پھر میں نے اپنا سر اس جانب موڑا اور جب میں نے دوبارہ دیکھا تو وہ چلی گئی تھی۔
ریمنڈ بوٹنگ مجھے اپنے گھر لے گیا اور ہورولڈ سمسن لونئی کو۔ ہم اکٹھے لونئی کے گھر کے نکڑ تک پیدل آئے۔ لڑکے ہاکی کے کھیل پر بحث کر رہے تھے جس کی مجھے اور لونئی کو کوئی دلچسپی نہ تھی پھر ہم جوڑوں میں بٹ گئے اور ریمنڈ نے میرے ساتھ گفتگو جاری کر دی جو وہ ہورولڈ کے ساتھ کر رہا تھا اس کو یہ محسوس تک نہ ہوا کہ اب وہ اس کے بجائے مجھ سے بات کر رہا تھا ایک دو بار میں نے کہا’’ اچھا مجھے معلوم نہیں، میں یہ کھیل نہیں دیکھتی‘‘ لیکن کچھ دیر کے بعد جب میں نے یہ کہنے کا فیصلہ کیا،ہاں ہاں اور یہ ایسے معلوم ہوا جیسے یہ بہت ضروری تھا۔
ایک اور بات جو اس نے کہی وہ یہ تھی’’ مجھے معلوم نہ تھا کہ تم اتنی دور رہتے ہو‘‘ اور وہ ناک سے، سردی کی وجہ سے میرے ناک کچھ زیادہ ہی بہہ رہی تھی اور میری انگلیاں بار بار میرے کوٹ کی جانب میں ٹشو پیپر تلاش کر رہی تھیں یہاں تک کہ جب میں نے ایک پرانا پھٹا ہوا رومال تلاش کر لیا۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ کیا مجھے یہ رومال اسے بھی دینا چاہیے یا نہیں لیکن وہ اتنے زور سے ناک سے چھینکا کہ آخر مجھے کہنا پڑا ’’میرے پاس صرف یہی ایک رومال ہے اور یہ اتنا صاف بھی نہیں ہے ، شاید اس پر سیاہی لگی ہوئی ہے، لیکن اس کو میں نے دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا تو ہم دونوں ایک ایک رکھ سکتے ہیں‘‘ شکریہ،اس نے کہا’’ یقیناً میں اسے استعمال کر سکتا ہوں ‘‘۔
یہ اچھی بات تھی، میں نے سوچا کہ میں نے ایسا کیا ہے۔ گیٹ پر پہنچ کر جب میں نے کہا’’ اچھا ، شب بخیر‘‘ اور اس کے بعد اس نے کہا’’ او اچھا، شب خیر‘‘ وہ میری جانب جھکا اور مجھے چوما۔ پھر وہ واپس شہر کی جانب مڑا، یہ جانے بغیر کہ وہ میرا بچانے والا تھا، کہ وہ مجھیمیری فارچیون کی دنیا سے واپس اس عام سی دنیا میں لے کر آیا تھا۔
میں پچھلے دروازے سے گھر میں داخل ہوئی، یہ سوچتے ہوئے کہ میں ایک ڈانس پارٹی میں گئی تھی اور ایک لڑکا میرے ساتھ میرے گھر تک آیا تھا اور مجھے چوما تھا، یہ سب کچھ سچ تھا، میری زندگی ممکن تھی، میں کچن کی کھڑکی سے گزری اور اپنی ماں کو دیکھا۔ وہ تندور کے پاس پاؤں کے بل بیٹھی تھی اور پیالے سے چائے پرچ میں انڈھیل کر پی رہی تھی، وہ شایدوہاں میرا انتظار کر رہی تھی کہ میں گھر آؤں اور اس کو سب کچھ بتاؤ۔ میں ایسا نہیں کروں گی کبھی بھی نہیں۔ جب میں نے اپنے لیے منتظر کچن کو دیکھا اور ماں کو وہاں پرانے اور مبہم مگر اپنے نیند سے بھرے لیکن مستقل مزاج چہرے کے ساتھ بیٹھا دیکھا تو سمجھ گئی کہ ماں کی خوشنودی کے حصول کے لیے مجھے کس قسم کے پر اسرار اور مختلف فرض کونبھانا ہو گا۔ شاید اس میں ناکام تھی اور شاید میں ہر وقت ناکام ہونا ہی پسند کروں گی اور اسے کبھی معلوم بھی نہ ہوگا۔

Tuesday, 21 November 2017

افسانہ : میرا جنونی بیٹا ---- تحریر: حنیف قریشی برطانیہ

Read online 
or


افسانہ : میرا جنونی بیٹا

تحریر: حنیف قریشی (برطانیہ)

مترجم: مسعود اشعر (لاہور، پاکستان)

باپ نے چوری چوری اپنے بیٹے کے کمرے میں جانا شروع کیا۔ وہ وہاں گھنٹوں بیٹھا رہتا، صرف اس وقت اٹھتا جب اسے اپنی ہر روز کی تلاش اور چھان بین کے سلسلے میں کوئی نئی چیز یا کوئی نیا سراغ ملتا۔ اسے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر تھی کہ علی روز بروز صفائی پسند اور سلیقہ مند ہوتا جارہا تھا۔ اس کا کمرہ جس میں ہمیشہ اس کے کپڑے، کتابیں، کرکٹ کے بلے اور وڈیو گیمز اِدھر اُدھر بکھرے پڑے رہتے تھے، اب صاف ستھرا اور نہایت قرینے سے سجا سجایا نظر آنے لگا تھا۔ وہ کمرہ جس میں اتنا  اُلٹا سیدھا انبار پڑا ہوتا تھا کہ پاؤں رکھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی تھی، وہاں اب جگہ ہی جگہ تھی۔ کمرہ خوب کُھلا کُھلا نظر آتا تھا۔
شروع میں تو پرویز کو خوشی ہوئی کہ اس کا بیٹا بالغ ہوگیا ہے اور لڑکپن کا لااُبالی پَن پیچھے چھوڑ آیا ہے۔ لیکن ایک دن کوڑے دان کے پاس پرویز کو ایک پھٹا ہوا پلاسٹک کا تھیلا نظر آیا۔ تھیلے میں پرانے کھلونوں کے ساتھ بہت سی کمپیوٹر ڈسکیں، وڈیو ٹیپس، نئی کتابیں اور نئے فیشن کے وہ کپڑے بھی تھے جو علی نے ابھی دو تین مہینے پہلے ہی خریدے تھے۔ علی نے کوئی وجہ بتائے بغیر ہی اپنی اس انگریز گرل فرینڈ سے بھی ملنا چھوڑ دیا تھا جو اکثر ان کے گھر بھی آتی رہتی تھی۔ اس کے پرانے دوستوں نے اسے ٹیلی فون کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔
ان عجیب و غریب حرکتوں کے بارے میں پرویز ابھی تک علی سے بات نہیں کرپایا تھا۔ بات کیوں نہیں کر پایا تھا۔ یہ پرویز خود بھی نہیں جانتا تھا۔ ہاں اتنا ضرور جانتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سے ڈرتا ہے۔ بیٹا جہاں اکثر خاموش رہتا تھا وہاں وہ زبان دراز بھی ہوتا جارہا تھا۔ ایک بار پرویز نے یونہی پوچھ لیا، "تم اب گٹار نہیں بجاتے؟" اس پر اسے ایک پراسرار لیکن منھ توڑ جواب ملا۔ "اس سے بھی زیادہ اہم کام ہیں کرنے کو۔"
پرویز محسوس کرتا تھا اس کے بیٹے کا یہ سنکی پن اس کے اپنے ساتھ ناانصافی ہے۔۔۔۔ وہ جو اس کا باپ  ہے اور اس کے اچھے برے کا ذمہ دار۔ وہ ان خرابیوں سے خوب واقف تھا جن کا شکار دوسرے لوگوں کے بچے ہوگئے تھے۔ وہ دن رات علی کے لیے ہی تو محنت کرتا تھا۔ اس نے علی کو اکاؤنٹنٹ بنانے کے لیے اس کی تعلیم   پر بے تحاشا  رقم خرچ کی تھی۔ اس نے علی کو نیا سے نیا سوٹ خرید کر دیا۔ جتنی بھی کتابوں کی ضرورت ہوئی اس نے خرید کر دیں ، اتنا مہنگا کمپیوٹر خرید کر دیا اس کو ۔۔۔۔۔ اور یہ صاحب زادے ہیں کہ یہ سب کچھ کوڑے میں پھینک رہے ہیں۔ پہلے گٹار گیا، اس کے بعد ٹیلی وژن، وڈیو پلیئر اور پھر اسٹیریو سسٹم۔ اب تو دیواروں پر بھی پیلے پیلے دھبے دکھائی دینے لگے تھے۔۔۔۔ وہاں پہلے علی کی تصویریں ٹنگی تھیں۔
پرویز کی نیندیں اڑ گئی تھیں۔ اب وہ کام کے وقت بھی شراب پینے لگا تھا۔ وسکی کی بوتل اب اکثر اس کے ہاتھ میں ہوتی۔ آخر اس نے سوچا اب تو کسی ایسے آدمی سے مشورہ کرنا ضروری ہوگیا ہے جسے اس کے ساتھ ہمدردی ہو۔
پرویز بیس سال سے ٹیکسی چلا رہا تھا۔ دس سال سے وہ ایک ہی فرم میں کام کررہا تھا۔ اس کی طرح اکثر ڈرائیور پنجابی تھے۔ وہ رات ہی کو کام کرتے تھے جب ساری سڑکیں خالی ہوتیں اور کرایہ زیادہ ملتا۔ وہ دن کو سوتے تھے اور اپنی بیویوں سے دور دور ہی رہتے تھے۔ وہ سب چھڑے چھانٹ لڑکوں کی سی زندگی گزارتے تھے۔ تاش کھیلتے، ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے، گندے لطیفے سناتے قریب کے ہوٹلوں سے بالٹی گوشت منگا کر کھاتے، سیاست پر باتیں کرتے اور اپنی پریشانیاں بانٹتے۔
لیکن پرویز کو علی کے بارے میں اپنے دوستوں سے باتیں کرتے شرم آتی تھی۔ وہ ڈرتا تھا کہ علی کی ان حرکتوں کا ذمہ دار اسی کو ٹہرایا جائے گا۔ وہ بھی ان ماں باپ کو برا بھلا کہتا تھا جن کے لڑکے الٹی سیدھی لڑکیوں کے پیچھے بھاگے پھرتے تھے۔ اسکول نہیں جاتے تھے اور آوارہ لڑکوں کے گروہ میں شامل ہوگئے تھے۔
برسوں سے پرویز اپنے ساتھیوں پر رعب گانٹھتا آرہا تھا کہ علی کتنی اچھی کرکٹ کھیلتا ہے، تیراکی اور فٹ بال میں اس کا کتنا نام ہے اور پھر پڑھائی میں کتنا اچھا ہے۔۔۔۔۔ اکثر مضمونوں میں  A  لیتا ہے۔ اب اگر وہ علی سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ کوئی اعلٰی ملازمت کرے، اچھی سی لڑکی سے شادی کرے اور اپنا گھربار بنائے تو کیا یہ غلط ہے؟ ایسا ہوجائے تو وہ دنیا کا سب سے زیادہ خوش قسمت انسان ہوگا۔ اس کا وہ خواب پورا ہوجائے گا جو اس نے انگلستان میں ہنسی خوشی زندگی گزارنے کے لیے دیکھاہے۔ آخر اس سے کہاں غلطی ہوئی؟
ایک رات وہ ٹیکسیوں کے دفتر میں اپنے دو بے تکلف دوستوں کے ساتھ بیٹھا سلویسٹر اسٹالون کی فلم دیکھ رہا تھا تو اس نے زبان کھولی۔
"میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا!" وہ پھٹ پڑا۔ "اس کے کمرے سے ایک  ایک چیز غائب ہوتی جارہی ہے اور میں اس سے بات بھی نہیں کرسکتا۔ ہم تو باپ بیٹا نہیں، بھائی بھائی تھے۔ اسے کیا ہوگیا ہے؟ مجھے کیوں تنگ کررہا ہے وہ؟" پرویز نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکر لیا۔
وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال رہا تھا تو اس کے دوست سر ہلا رہے تھے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کررہے تھے۔
"تمھارا کیا خیال ہے، کیا ہوا ہے اسے؟" اس نے سوال کیا۔
اس سوال کا جواب اسے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ ملا۔ وہ دوست جیسے سب کچھ سمجھ گئے تھے۔ معاملہ صاف تھا۔ علی نشہ کرنے لگا ہے اور نشے کے لیے اپنی تمام چیزیں بچک رہا ہے۔ اسی لیے اس کا کمرہ خالی ہوتا جارہا ہے۔
"میں کیا کروں ؟"
پرویز کے دوستوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ علی کی حرکتوں کی نگرانی کرے اور اس کے ساتھ سختی کرے۔ ورنہ وہ لڑکا زیادہ نشیلی چیزیں کھا کر مر جائے گا یا کسی کو قتل کردے گا۔
صبح کی ٹھنڈی ہوا میں پرویز وہاں سے لڑکھڑاتا ہوا نکلا۔ یہ لوگ سچ کہتے ہیں۔ وہ خوف سے کانپنے لگا۔ اس کا بیٹا اور نشئی۔۔۔۔ قاتل؟
اسے یہ دیکھ کر تسلی ہوئی کہ اس کی گاڑی میں بیٹینا بیٹھی تھی۔
عام طور پر رات کے پچھلے پہر میں اس کے آخری گاہک محلے کی آوارہ عورتیں یا طوائفیں ہوتی تھیں۔ ٹیکسی ڈرائیور ان عورتوں کو اچھی طرح جانتے تھے اور انھیں ان کے دلالوں تک پہنچا دیتے تھے۔ رات گئے فارغ ہونے کے بعد وہ عام طور پر تو گھروں کو چلی جاتی تھیں لیکن کبھی کبھی ان میں سے کوئی عورت ان کے ساتھ پینے پلانے ان کے دفتر میں بیٹھ بھی جاتی تھی۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی لڑکی کسی ڈرائیور کو بھی خوش کردیا کرتی تھی۔ اسے وہ کہتے: سواری کے بدلے سواری۔
بیٹینا پرویز کو تین سال سے جانتی تھی۔ وہ شہر سے باہر رہتی تھی اور اپنے گھر جاتے ہوئے کار میں وہ پرویز کے ساتھ ہی بیٹھتی تھی۔ اس لمبے راستے میں پرویز نے اسے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا۔۔۔۔ وہ کون ہے، اس کی امنگیں اور آرزوئیں کیا ہیں، وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ بیٹینا نے بھی اسے اپنے بارے میں  بتایا تھا۔ وہ راتوں کو اکثر ملتے رہتے تھے۔
پرویز بیٹینا سے وہ باتیں بھی کرلیتا تھا جو وہ اپنی بیوی سے نہیں کرسکتا تھا۔ بیٹینا بھی اسے اپنی راتوں کی کار گزاریاں سنایا کرتی تھی۔ پرویز بھی جانتا تھا کہ وہ رات اس نے کس کے ساتھ گزاری۔ ایک مرتبہ پرویز نے اسے ایک جھگڑالُو گاہک سے بچایا بھی تھا۔ اس کے بعد ہی وہ دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھنے لگے تھے۔
بیٹینا علی سے کبھی ملی تو نہیں تھی مگر اس کے بارے   میں اتنا سنا تھا کہ وہ اسے خوب جانتی تھی۔ اس رات جب پرویز نے اس سے کہا کہ علی شاید نشہ کرنے لگا ہے تو اس نے نہ تو علی کو برا بھلا کہا اور نہ پرویز پر کوئی الزام لگایا، بلکہ نرمی سے بولی،  "یہ تو آنکھوں سے پتا چل سکتا ہے۔ آنکھیں لال رہتی ہوں گی، پتلیاں پھیلی پھیلی ہوں گی، علی تھکا تھکا سا لگتا ہوگا، اسے پسینہ آتا رہتا ہوگا، جلدی جلدی مزاج بدل جاتا ہوگا۔ بس تم یہ دیکھ لو۔" یہ باتیں سن کر پرویز کو جیسے تسلی سی ہوگئی۔
اب پرویز نے علی پر نظر رکھنا شروع کردیا۔ وہ جانتا تھا کہ کن چیزوں پر غور کرنا ہے۔ وہ دیکھ رہا تھا اور اسے اطمینان ہورہا تھا کہ حالات ابھی زیادہ خراب نہیں ہوئے ہیں۔
علی کے منھ میں جو بھی نوالہ جاتا پرویز اس پر نظر رکھتا۔ وہ اس کے ساتھ ہی بیٹھتا اور تھوڑی دیر بعد اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھتا۔ کسی نہ کسی بہانے لڑکے کا ہاتھ پکڑ لیتا اور دیکھتا کہ اس کے ہاتھ گرم تو نہیں ہیں۔ علی گھر پر نہ ہوتا تو پرویز کو موقع مل جاتا اور وہ قالین کے نیچے علی کی درازوں میں اور خالی وارڈروب کے پیچھے کھکھوڑتا رہتا۔ ہر چیز کو سونگھتا، ہر چیز کو غور سے دیکھتا اور پتا لگانے کی کوشش کرتا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ کیا تلاش کررہا ہے۔ بیٹینا نے کیپسول، سرنج، گولیوں، پاؤڈر اور وکس کی تصویریں بنا دی تھیں۔
ہر رات بیٹینا انتظار کرتی کہ پرویز کیا خبر لایا ہے۔ آخر کئی دن کی دیکھ بھال کے بعد پرویز نے اسے بتایا کہ علی نے کھیلوں میں حصہ لینا تو بند کردیا ہے مگر وہ بالکل صحت مند ہے۔ اس کی آنکھیں صاف صاف شفاف ہیں۔ پرویز کو تو بتایا گیا تھا کہ جرم کے احساس سے علی اس سے آنکھیں چرائے گا مگر وہ بالکل ایسا نہیں کرتا تھا۔ بلکہ ایسا لگتا تھا کہ لڑکا پہلے سے بھی زیادہ چاق و چوبند ہوگیا ہے اور اس کے اندر ذرا سا بھی چڑچڑا پن نہیں ہے۔ وہ ہر بات پر زیادہ توجہ دینے لگا ہے۔ وہ اپنے باپ کی ٹٹولتی نظروں کا جواب اس سے بھی زیادہ شکایت بھری نظروں سے دیتا۔ ایسی نظروں سے جن میں ملامت بھی شامل ہوتی۔ حتی کہ پرویز کو محسوس ہونے لگتا کہ اس کا بیٹا نہیں وہ خود غلطی پر ہے۔
"اور جسمانی طور پر بھی اس کے اندر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی؟" بیٹینا نے پوچھا۔
"بالکل نہیں۔" پرویز نے سوچتے ہوئے کہا۔ "مگر وہ داڈھی بڑھا رہا ہے۔"ایک رات پرویز بہت دیر تک کافی شاپ میں بیٹھا بیٹینا سے باتیں کرتا رہا۔ وہ کافی شاپ رات بھر کھلی رہتی تھی۔ بیٹینا اور پرویز کو یقین کرنے کو جی تو نہیں چاہتا تھا لیکن وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ علی نشہ نہیں کرتا، کیونکہ پرویز کو علی کے کمرے میں ایک بھی چیز ایسی نہیں ملی تھی جو نشے والی لگتی ہو۔ اس کے علاوہ علی اپنا سامان بیچ نہیں رہا تھا بلکہ وہ اسے پھینک دیتا تھا، کسی کو دے دیتا تھا یا خیرات والی دکانوں پر رکھ آتا تھا۔
پرویز نیچے ہال میں کھڑا تھا کہ علی کے کمرے سے ٹائم پیس کا الارم بنےن کی آواز آئی۔ وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگا۔ اس کی بیوی بستر پر بیٹھی کوئی کپڑا سی رہی تھی۔ اس نے اس سے کہا، "خاموشی سے بیٹھی رہو، اٹھنا نہیں۔" حالانکہ وہ بالکل نہیں اٹھ رہی تھی اور نہ اس نے ایک لفظ بھی بُولا تھا۔ پرویز دروازے کی جھری میں سے اپنے بیٹے کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی بیوی حیران پریشان اسے دیکھ رہی تھی۔
لڑکا غسل خانے میں گیا۔ پرویز اس وقت تک جھانکتا رہا جب تک لڑکا غسل خانے سے واپس نہیں آگیا۔ وہ باہر نکلا تو پرویز نے اس کے دروازے سے کان لگا دیے۔ اندر سے کچھ پڑھنے کی آواز آرہی تھی۔ پرویز کی سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا مگر اسے تسلی ہوئی کہ کوئی گڑ بڑ نہیں ہے۔ یہ پتا چل گیا تو اس نے یقین کرنے کے دوبارہ پھر کان لگا کر سنا۔ لڑکا نماز پڑھ کر دعا مانگ رہا تھا۔ جب بھی وہ گھر پر ہوتا، پانچوں وقت کی نماز پڑھتا۔
پرویز لاہور میں پلا بڑھا تھا جہاں تمام بچوں کو قرآن پڑھایا جاتا تھا۔ مولوی صاحب پرویز کے بالوں میں رسی باندھ کر رسی کا ایک سرا چھت سے باندھ دیتے تھے کہ اسے نیند آئے تو رسی کے جھٹکے سے اس کی اؔٓنکھ کھل جائے اور وہ اپنا سبق یاد کرلے۔ پرویز پر اس کا ایسا اثر ہوا تھا کہ وہ مذہب سے ہی بھاگنے لگا تھا۔ دوسرے ڈرائیور بھی اس کے ہم خیال تھے بلکہ وہ تو ان مولویوں کا مذاق اڑاتے تھے جو ٹوپیاں پہنے اور لمبی لمبی داڑھیاں رکھے ادھر سے گزرتے تھے۔ وہ کہتے، یہ مولوی سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں کو نیک پاک زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھارہے ہیں حالانکہ خود ان کی نظریں ان لڑکوں اور لڑکیوں کا پیچھا کرتی رہتی ہیں، جو ان کے پاس پڑھنے آتی ہیں۔ پرویز نے جو دیکھا تھا وہ سب بیٹینا کو بتا دیا۔ ٹیکسی آفس میں اپنے ساتھیوں کو بھی بتایا کہ اس نے کیا دیکھا اور کیا سنا۔ اس کے دوست جو ہر وقت ٹوہ میں لگے رہتے تھے اب خاموش ہوگئے۔ وہ محض اس لیے تو علی کو برا بھلا نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ مذہبی ہوگیا ہے۔

ایک دن پرویز نے فیصلہ کیا کہ ایک رات چھٹی کی جائے اور بیٹے کے ساتھ لمبی سیر کی جائے۔ سیر کرتے وقت اس کے ساتھ کھل کر باتیں کی جاسکتی ہیں۔ وہ چاہتا تھا کہ اس سے اس کے کالج کے بارے میں باتیں کرے۔ اس کی پڑھائی کسی  ہورہی ہے؟ کون کون دوست ہیں، اس کے؟ اور وہ کیا کرتا ہے؟ وہ پاکستان میں رہنے والے اپنے رشتے داروں کے متعلق بھی اسے بتانا چاہتا تھا۔ سب سے زیادہ تو وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ علی مذہب کی طرف راغب کیسے ہوا۔۔۔۔ بیٹینا اسے روحانی شعور یا زندگی کا روحانی پہلو کہتی تھی۔۔۔۔ کہ علی نے زندگی کا یہ روحانی پہلو کیسے دریافت کیا؟لیکن لڑکے نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ پرویز کو شدید صدمہ ہوا۔ علی نے کہہ دیا، "مجھے کام سے جانا ہے۔" پرویز نے بہت اصرار کیا۔۔۔ اسے سمجھایا کہ باپ کی بات ماننے سے زیادہ اہم کوئی کام نہیں ہوسکتا۔۔ مگر علی نہیں مانا۔
دوسرے دن پرویز سیدھا گلی کے اس نکڑ پر پہنچا جہاں بیٹینا کھڑی بارش میں بھیگ رہی تھی۔ اس نے اونچی ایڑی کے جوتے  اونچا اسکرٹ اور لمبی برساتی پہن رکھی تھی۔ وہ آتے جاتے لوگوں کو للچائی نظروں سے دیکھ رہی تھی اور جو بھی اس کے قریب سے گزرتا وہ جلدی سے اپنی برساتی  سامنے سے کھول دیتی۔
"جلدی بیٹھو، جلدی بیٹھو۔" پرویز نے کہا۔وہ جھاڑیوں بھرے کھلے میدان کی طرف نکل گئے اور ایسی جگہ گاڑی کھڑی کردی جہاں اچھے دنوں میں میلوں چٹیل میدان ہوتا تھا اور جنگلی ہرنوں اور گھوڑوں کے سوا انھیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ وہ وہاں آنکھیں بند کرکے لیٹ جاتے اور سوچتے، ہاں، زندگی اسی کا نام ہے، لیکن اس دن پرویز کانپ رہا تھا۔ بیٹینا نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔
"کیا ہوا؟"
"مجھے اپنی زندگی کا سب سے خوفناک تجربہ ہوا ہے۔"
بیٹینا پرویز کا سر سہلانے لگی۔ وہ بتانے لگا کہ کل شام وہ علی کے ساتھ ہوٹل گیا۔ ابھی وہ کھانے کا مینو دیکھ ہی رہا تھا کہ ویٹر، جو پرویز کو جانتا تھا، اس کی پسند کی وسکی لے آیا۔ وہ شراب دیکھ کر پہلی بار اپنے بیٹے کے سامنے ایسا بوکھلایا کہ اس سے الٹے سیدھے سوال کرنے لگا۔ وہ پوچھنے لگا تھا کہ کیا علی اس لیے پریشان ہے کہ اس کے امتحان ہونے والے ہیں۔۔۔۔ لیکن زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ گھبراہٹ میں اس نے اپنی ٹائی ڈھیلی کی جلدی جلدی پو پوڈوم کھانے لگا۔ پھر وہسکی کا لمبا گھونٹ لیا۔
ابھی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ علی نے برا سا منھ بنایا۔ "آپ جانتے نہیں شراب پینا حرام ہے؟"
"اس نے میرے ساتھ بدتمیزی سے بات کی تھی۔" پرویز نے بیٹینا سے کہا۔ "مجھے اتنا غصہ آیا کہ جی چاہا میں اسے وہیں ڈانٹوں کہ اپنے باپ سے اس طرح بات کرتے ہیں؟ مگر میں خاموش رہا۔ "
پرویز نے علی سے کہا کہ وہ برسوں سے دس دس بارہ بارہ گھنٹے کام کررہا ہے۔ آرام یا تفریح کے لیے بھی مشکل سے ہی وقت ملتا ہے۔ "میں نے کبھی چھٹی نہیں کی۔ اگر کبھی کبھی شراب پی لیتا ہوں تو کونسا گناہ کرتا ہوں؟"
"مگر یہ حرام ہے۔" بیٹے نے کہا۔
"میں جانتا ہوں۔" پرویز نے کندھے اچکائے۔
"اور جوا کھیلنا بھی حرام ہے۔"
"مگر ہم بھی آخر انسان ہیں۔"
پرویز جب بھی وسکی کا گھونٹ لیتا لڑکا برا سا مجھ بناتا اور تیوی چڑھا لیتا۔ پرویز بھی چڑگیا تھا۔ علی جتنا منھ بناتا وہ اور بھی لمبی چسکی لیتا۔ ویٹر نے انھیں خوش کرنے کے لیے وسکی کا ایک اور گلاس لا کر رکھ دیا۔ پرویز جانتا تھا کہ اس پر نشہ چڑھ رہا ہے لیکن وہ پیئے جارہا تھا۔ علی کے چہرے کا رنگ بدل رہا تھا۔ وہ گھن اور کراہیت کے ساتھ اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا۔ لگتا تھا جیسے وہ اپنے باپ سے نفرت کرتا ہے۔
کھانا کھاتے ہوئے اچانک پرویز کا غصہ ابل پڑا۔ اس نے طیش میں آکر پلیٹ فرش پر پٹخ دی۔ وہ میز پوش بھی کھینچ کر پھینکنے والا تھا لیکن ویٹر اور دوسرے لوگ اس کی طرف دیکھ رہے تھے اس لیے اس نے اپنے اوپر قابو پالیا۔ وہ کیسے برداشت کرسکتا تھا کہ اس کا اپنا بیٹا سے اچھے برے کا فرق بتائے۔ وہ جاتا تھا کہ وہ برا آدمی نہیں ہے، اسے اچھے برے کی تمیز ہے۔ ہاں کچھ ایسی باتیں ہیں جن پر وہ خود بھی شرمندگی محسوس کرتا ہے لیکن اس نے عزت اور شرافت کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔
"تم بتاؤ۔ مجھے برائیاں کرنے کا وقت ہی کب ملا؟" اس نے علی سے سوال کیا۔
بیتے نے دھیمی آواز میں آہستہ آہستہ باپ کو سمجھایا کہ آپ زندگی میں کبھی نیکی کی راہ پر نہیں چلے۔ آپ نے ہمشہس شریعت کی خلاف ورزی کی ہے۔
"مثلاً؟" پرویز نے چیخ کر پوچھا۔
مثالوں کے لیے علی کو زیادہ سوچنا نہیں پڑا۔ لگتا تھا جیسے وہ اس سوال کا انتظار ہی کررہا تھا۔ اس نے کہا، "کیا آپ سور کی پائی شوق سے نہیں کھاتے؟"
بھلا پرویز انکار کےست کرسکتا تھا کہ اسے وہ خستہ کرارا بیکن بہت پسند ہے جس پر بہت سے مشروم رکھے ہوں، ساتھ میں سرسوں کی چٹنی اور تلی ہوئی ڈبل روٹی کے سلائسوں میں اس کا سینڈوچ بنا ہو ۔ بلکہ وہ تو ہر روز اسی کا ناشتہ کرتا تھا۔
علی نے پرویز کو یاد دلایا کہ آپ نے تو امی سے بھی زبردستی سور کے ساسج پکوائے تھے۔ انھوں نے انکار کیا تھا تو آپ نے انھیں ڈانٹا تھا کہ تم اپنے گاؤں میں نہیں ہو۔ یہ انگلینڈ ہے۔ ہمیں ویسے ہی رہنا ہو گا جیسے یہاں لوگ رہتے ہیں۔ پرویز غصے میں کانپنے لگا اور اس نے طیش میں ایک اور وسکی منگالی۔"اصل مسئلہ یہ ہے۔" علی بولا۔ وہ میز پر اور آگے کو جھک آیا۔ اس رات پہلی بار اس کی آنکھیں بھی بول رہی تھیں۔ "کہ آپ پوری طرح مغربی تہذیب میں رنگ گئے ہیں۔"شراب کا گھونٹ پرویز کے حلق میں اٹک گیا۔ اسے لگا کہ اس کا دم گھٹ جائے گا۔ "مغربی تہذیب میں رنگ گیا ہوں؟" پرویز روہانسی آواز میں بولا۔ "مگر ہم یہیں تو رہتے ہیں۔""مغرب کے یہ مادہ پرست ہم سے نفرت کرتے ہیں پاپا۔" علی نے کہا۔ "آپ ان لوگوں سے کیسے محبت کرسکتے ہیں جو آپ سے نفرت کرتے ہوں؟""پھر ۔۔۔" پرویز نے زچ ہوکر کہا۔ "تمہارے خیال میں اس کا حل کیا ہے؟"علی کو شراب کے نشے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اپنے باپ کو ایسے مخاطب کررہا تھا جیسے کسی مشتعل مجمعے سے خطاب کررہا اور اپنی باتوں کی روانی سے اس ہجوم کا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہتا ہو۔ اسے قائل کرنا چاہتا ہو کہ ساری دنیا میں اسلام کا پرچم ہی لہرائے گا، کافر جہنم کی آگ میں جلیں گے اور یہودیوں اور عیسائیوں کا صفایا ہوجائے گا۔ مغرب ریا کاروں، بدکاروں، ہم جنس پرستوں ، نشیوں اور طوائفوں کا نبدان ہے۔ علی بول رہا تھا تو پرویز کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا کہ  وہ واقعی لندن میں ہی بیٹھا ہے۔
"ہم لوگ اب تک بہت برداشت کرتے رہے ہیں لیکن اب اگر یہ ظلم و ستم نہ ہوا تو پھر اس کے خلاف جہاد ہی ہوگا۔""مگر کیوں، آخر کیوں؟" پرویز بولا۔"اس کا اجر ہمیں جنت میں ملے گا۔""جنت؟"پرویز کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس کا بیٹا اس سے کہہ رہا تھا۔ "اب بھی آپ توبہ کرلیجئے۔""مگر کیوں؟" پرویز نے کہا۔"آپ توبہ کریں۔ اپنے لیے دعا مانگیں۔ میرے ساتھ عبادت کریں۔" علی نے زور سے کہا۔
پرویز نے جلدی سے بل ادا کیا اور بیٹے کو لے کر باہر نکل گیا۔ وہ اس سے زیادہ نہیں سن سکتا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے علی کے اندر کسی اور کی آواز سما گئی ہے۔ اس کے اندر کوئی اور بول رہا ہے۔
راستے میں علی کار میں پیچھے بیٹھا جیسے وہ سواری ہو۔ "ایسی کون سی چیز تھی جس نے تمھیں ایسا بنا دیا؟"
پرویز نے سوال کیا لیکن اس کے اندر ایک خوف بھی تھا کہ شاید اس کا ذمہ دار وہ خود بھی ہے۔ "کیا کوئی  خاص واقعہ ہوا ہے جس سے تم متاثر ہوئے ہو؟"
"اس ملک میں رہنا ہی کافی ہے اس کے لیے۔"
"مگر مجھے انگلینڈ پسند ہے۔" پرویز نے کہا اور سامنے آئینے میں سے علی کو دیکھا۔ "یہاں تمھیں ہر کام کرنے کی آزادی ہے۔"
"یہی تو مشکل ہے۔" علی نے جواب دیا۔
برسوں کار چلانے کے بعد اس وقت پرویز کو محسوس ہوا کہ وہ سیدھا نہیں دیکھ سکتا۔ اس نے کار کو ایک لاری کے ساتھ ٹکردیا۔ اس کی کار کا سائیڈ مرر ٹوٹ گیا۔ وہ خوش قسمت تھے کہ پولیس والے نے انھیں روکا نہیں ورنہ پرویز اپنے لائسسنس سے محروم ہوجاتا اور اس کے ساتھ ہی اس کی نوکری بھی جاتی۔
گھر پہنچے تو کار سے اترتے ہوئے پرویز لڑکھڑایا اور سڑک پر گرگیا۔ اس کے ہاتھوں میں کھرونچے لگ  گئے اور پتلون پھٹ گئی۔وہ بڑی مشکل سے خود ہی کھڑا ہوا۔ بیٹے نے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
پرویز نے بیٹینا سے کہا کہ وہ نماز پڑھنے کو تیار ہے اگر اس کا بیٹا اس سے خوش ہوتا ہے۔ اگر میری نماز سے اس کی بے رحم نظریں میرے چہرے سے ہٹ سکتی ہیں تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔ مجھے تو افسوس اس بات کا ہے کہ میرا اپنا  بیٹا مجھ سے کہتا ہے کہ تو جہنم میں جائے گا۔"
اس دن تو پرویز بالکل ہی پاگل ہوگیا جب علی نے اسے بتایا کہ اس نے اپنی پڑھائی ختم کردی ہے۔ پرویز نے سوال کیا، "کیوں ؟" تو نہایت حقارت کے ساتھ جواب ملا، "مغربی تعلیم مذہب سے دشمنی سکھاتی ہے۔ اور ایک اکاؤنٹنٹ کی زندگی میں عورتوں سے ملنا، شراب پینا اور سود کھانا عام بات ہے۔"
"مگر اس میں بہت اچھی تنخواہ بھی تو ملتی ہے۔" پرویز نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔ "کئی سال سے تم اس کے لیے محنت کررہے ہو۔"
علی کہنے لگا کہ اب وہ جیلوں میں جاکر رضاکارانہ کام کرے گا۔" وہاں غریب مسلمان قیدی غلاظت اور گناہوں کے ماحول میں اپنا ایمان بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔"
اپنے کمرے میں جانے سے پہلے علی نے اپنے باپ سے سوال کیا کہ وہ داڑھی کیوں نہیں رکھتے۔ کم سے کم مونچھیں ہی رکھ لے۔
"مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے اپنا بیٹا کھودیا۔" پرویز نے بیٹینا سے کہا۔ "میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ میرا اپنا بیٹا میری طرف ایسے دیکھے جیسے میں مجرم ہوں۔ اب میں نے بھی سوچ لیا ہے مجھے کیا کرنا ہے"
"کیا کرنا ہے؟"
"میں اس سے صاف صاف کہہ دوں گا کہ اپنی جانماز لپیٹے اور نکل جائے گھر سے۔ یہ کام میرے لیے بہت مشکل تو ہوگا مگر آج رات میں یہ کرکے رہوں گا۔"
"تم اتنی جلدی مایوس کیوں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔" اس نے کہا پرویز کو چاہیئے کہ علی کو اپنے ساتھ ہی رکھے۔
پرویز بھی مان گیا کہ وہ ٹھیک کہتی ہے۔ حالانہہ وہ سمجھتا تھا کہ اب وہ اپنے بیٹے سے زیادہ پیار نہیں کر سکتا۔ پہلے بھی وہ جو پیار کرتا رہا ہے اس کے لیے ہی بیٹا کب اس کا ممنون ہوا ہے۔
اگلے دو ہفتے پرویز اپنے بیٹے کی زہریلی نظریں اور جلی کٹی باتیں برداشت کرتا رہا۔ اس نے علی سے اس عقیدے کے متعلق بات کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جب بھی اس کے منھ سے کوئی ایسی بات نکلتی جس میں ذرا سی بھی نکتہ چینی ہوتی تو علی نہایت دُرشتی کے ساتھ اس کا جواب دیتا۔ ایک بار علی نے پرویز سے کہا، "آپ تو گوروں کے آگے گڑگڑاتے ہیں، ناک رگڑتے ہیں ان کے سامنے، مگر میں اپنے آپ کو ذلیل نہیں کروں گا۔ آپ کو معلوم ہے مغرب کے باہر بھی دنیا ہے، حالانکہ مغرب اپنے آپ کو ہشہے  سب سے برتر سمجھتا رہا ہے۔"
"تمھیں کیسے پتا؟ تم تو کبھی انگلینڈ سے باہر گئے ہی نہیں۔"
علی نے اس کا جواب حقارت بھری نظروں سے دیا۔
ایک رات، یہ یقین کرلینے کے بعد کہ اس کے منھ سے شراب کی بو نہیں آرہی ہے پرویز کھانے کی میز پر علی کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس نے سوچا تھا کہ علی یہ دیکھ کر ضرور خوش ہوگا کہ اس  نےداڑھی رکھ لی ہے۔ لیکن علی ایسے بیٹھا رہا جیسے اس نے اس کی داڑھی دیکھی ہی نہیں۔
اس سے ایک دن پہلے پرویز نے بیٹینا سے کہا تھا کہ اس کے خیال میں مغرب کے لوگ کبھی کبھی اپنے آپ کو ضرور اندر سے خالی محسوس کرتے ہوں گے۔ انسان کو زندہ رہنے کے ہے بہرحال کسی فلسفے کی ضرورت ہوتی ہے۔
"ہاں، یہ اچھا جواب ہوسکتا ہے۔" بیٹینا نے کہا تھا۔ "تم اسے ضرور بتاؤ کہ تمھارا زندگی کا فلسفہ کیا ہے۔ پھر اسے پتا چلے گا کہ دنیا میں دوسرے عقیدے بھی موجود ہیں۔"
بہت سوچنے کے بعد پرویز نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا۔ لڑکا اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ اس سے کسی بات کی توقع ہی نہیں کررہا ہے۔ لرزتی آواز میں پرویز  نےکہنا شروع کیا: "انسان کو دوسروں کی عزت کرنا چاہے پ۔ خاص طور سے بچوں کو اپنے ماں باپ کی ضرور عزت کرنا چاہیئے۔"
         لمحہ بھر کے لیے اسے ایسا لگا جیسے علی پر اس کی باتوں کا اثر ہورہا ہے۔ اس سے اس کی ہمت بندھی اور وہ بُولتا رہا۔ "اس دنیا میں یہی ایک زندگی ہے۔ میں جب مروں گا تو مٹی میں گل سڑ جاؤں گا۔ میری قبر سے گھاس اور پھول پودے اگیں گے۔ لیکن میری کوئی نہ کوئی چیز بہرحال زندہ رہے گی۔"
"وہ کس طرح؟"
"میں دوسرے لوگوں میں زندہ رہوں گا۔ مثلاً تمھارے اندر۔"
یہ سن کر لڑکے کے چہرے پر کرب ناک کیفیت نمودار ہوئی۔
"اور تمھارے بچوں اور تمھارے پوتوں پوتیوں میں۔" پرویز نے جلدی جلدی کہا۔ "لیکن جب تک ہم اس دنیا میں ہیں ہمیں اس زندگی سے پورا فائدہ اٹھانا چاہیئے۔"
"فائدہ اٹھانے سے آپ کا کیا مطلب ہے؟" لڑکے نے پوچھا۔
"مطلب یہ ہے کہ تمھیں زندگی کا مزہ لینا چاہیئے۔ مزہ لینا چاہیئے، دوسروں کو تکلیف پہنچائے بغیر۔"
علی بولا:  "عیاشی تو ایسا گڑھا ہے جس کی کوئی تہہ نہیں ہے۔"
"میں ایسی عیاشی کی بات نہیں کررہا ہوں۔ میں تو خوبصورت زندگی کی بات کررہا ہوں۔"
"ساری دنیا میں ہمارے لوگ جبرو استبداد کا شکار ہیں۔" علی نے جواب دیا۔
"میں جانتا ہوں۔" پرویز بولا ۔ حالانکہ وہ بالکل نہیں جانتا تھا کہ ہمارے لوگوں سے علی کا کیا مطلب ہے۔" پھر بھی زندگی زندہ رہنے کے لیے ہے۔"
"اس دنیا میں حق اور صداقت کا ایک ہی سچا راستہ ہے۔ ہمیں اس راستے پر چلنا چاہیئے۔ دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں لوگ میرے ہم عقیدہ ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے، آپ سچے ہیں اور وہ سب چھوٹے ہیں؟" اس کے ساتھ ہی علی نے ایسی شعلہ بار نظروں سے پرویز کو دیکھا کہ وہ آگے کچھ نہ بول سکا۔
کئی شاموں کے بعد بیٹینا ایک گاہک کو بھگتانے کے بعد پرویز کے ساتھ کار میں بیٹھی جارہی تھی کہ ایک گلی میں ایک لڑکا نظر آیا۔ وہ پیدل جارہا تھا۔
"وہ ہے میرا بیٹا۔" پرویز نے اپنا چہرہ کرخت کرتے ہوئے کہا۔ وہ شہر کے ایک غریب محلے سے گزر رہے تھے۔ جہاں دو مسجدیں تھیں۔
بیٹینا لڑکے کو دیکھنے مڑی۔ "آہستہ چلو۔ آہستہ چلو۔ لڑکا پیاری شکل کا ہے۔ تم پر گیا ہے لیکن اس کے چہرے پر اعتماد تم سے زیادہ ہے۔ ہم یہاں رُک نہیں سکتے؟"
"کس لیے؟"
"میں اس سے بات کرنا چاہتی ہوں۔"
پرویز نے کار موڑی اور لڑکے پاس جاکر کھڑی کردی۔
"گھر جارہے ہو؟" پرویز نے پوچھا۔ "کافی فاصلہ ہے۔ آؤ بیٹھ جاؤ۔" لڑکے نے سر جھٹکا اور پیچھے بیٹھ گیا۔ بیٹینا آگے بیٹھی تھی۔ پرویز کو احساس ہوا کہ بیٹینا نے خاصی اونچی اسکرٹ پہنی ہوئی ہے۔ بھڑ کیلی سی انگوٹھیاں بھی اس نے انگلیوں میں ڈال رکھی ہیں اور ہکاہ نیلا آئی شیڈ لگا رکھا ہے۔ اسے بیٹینا کے لباس پر لگی تیز خوشبو کا احساس بھی ہوا جسے وہ بہت پسند کرتا تھا۔ وہ خوشبو پوری کار میں بھر ی ہوئی تھی۔
پرویز تیزی کے ساتھ کار چلا رہا تھا۔ بیٹینا نے لڑکے سے پوچھا۔ "کہاں سے آرہے ہو؟"
"مسجد سے۔" اس نے جواب دیا۔
"اور پڑھائی کیسی ہورہی ہے؟ خوب محنت کررہے ہو نا؟"
"تم کون ہوتی ہو مجھ سے پوچھنے والی؟" علی نے یہ کہا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ پھر وہ بھیڑ میں پھنس گئے اور کار روک کر کھڑی ہوگئی۔ بیٹینا نے بے خیالی میں پرویز کے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
"تمھارے والد بہت اچھے آدمی ہیں۔ بہت پریشان رہتے ہیں تمھاری وجہ سے۔ وہ اپنی جان سے بھی زیادہ تم سے پیار کرتے ہیں۔"
"اچھا؟ تمھارا خیال ہے یہ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟" لڑکے نے پوچھا۔
"ہاں، بالکل" بیٹینا بولی۔
"تو پھر یہ تم جیسی عورت کو اپنے کندھے پر ہاتھ کیوں رکھنے دے رہے ہیں؟"
بیٹینا نے غصے میں سرخ ہوکر لڑکے کی طرف دیکھا۔ لڑکا طیش میں ابلتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔
"مجھ جیسی عورت سے کیا مطلب ہے تمھارا؟ اور تم مجھ سے ایسے بات کیوں کر رہے ہو؟" اس نے کہا۔
"تم جانتی ہو تم کیسی عورت ہو۔" لڑکے نے کہا، اور اپنے باپ کی طرف مڑ کر بولا۔ "مجھے نیچے اتار دیجیئے۔"
"ہر کز نہیں۔"
"تم فکر نہ کرو میں اتر رہی ہوں۔" بیٹینا نے کہا۔
"نہیں۔ تم بھی نہیں اتر سکتیں۔" پرویز بولا۔ لیکن اسی وقت بیٹینا نے چلتی کار سے چھلانگ لگا دی۔ وہ پہلے بھی ایسا کرتی رہی تھی۔ پھر وہ سڑک سے اٹھی اور بھاگ کھڑی ہوئی۔ پرویز نے کار روک کر اسے بہت آوازیں لگائیں لیکن وہ سڑک کے دوسری طرف جاچکی تھی۔
پرویز علی کو لے کر گھر پہنچا۔ راستے میں وہ ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ گھر پہنچتے ہی علی سیدھا اپنے کرکے میں گھس گیا۔ اب پرویز کے لیے اخبار پڑھنا یا ٹیلی وژن دیکھنا بھی مشکل ہوگیا تھا حتی کہ وہ ایک جگہ بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ شراب پیے جارہا تھا۔
آخر اس سے رہا نہیں گیا اور وہ اوپر چلا گیا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ علی کے کمرے کے سامنے ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر ٹہلنے لگا۔ پھر اس نے کمرے کا دروازہ کھولا۔ علی نماز پڑھ رہا تھا۔
علی کو اس سکون کے ساتھ نماز پڑھتا دیکھ کر پرویز آپے سے باہر ہوگیا۔ اس نے آگے بڑھ کر زور سے ٹھوکر ماری۔ پھر علی کا گریبان پکڑ کر اسے زور سے گھسیٹا اور منھ سے خون بہنے لگا تھا۔   پرویز بھی ہانپ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا بیٹا اس کے قابو سے باہر نکل چکا ہے، پھر بھی وہ اسے مارتا رہا۔ لڑکا اپنے آپ کو بچانے کی بالکل کوشش نہیں کررہا تھا اور نہ اس کا مقابلہ کررہا تھا۔ وہ خاموشی سے مار کھا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف کا شائبا تک نہیں تھا۔
پھر اس نے اپنے خونم خون ہونٹ کھولے اور بولا۔ "دیکھ لو کون جنونی ہے۔"
Original Title: My Son the fanatic
Written by
Hanif Kureishi, CBE (born 5 December 1954) is a British playwright, screenwriter, filmmaker and novelist of Pakistani and English descent. In 2008, The Times included Kureishi in their list of "The 50 greatest British writers since 1945". (Wikipedia)
نوٹ: حنیف قریشی کے اس افسانے پر 1997ء میں ایک  انگلش مووی    “My Son the fanatic”  بنی۔ جس کا اسکرین پلے بھی حنیف قریشی نے ہی لکھا تھا۔ اس مووی میں پرویز کا کردار مشہور بھارتی اداکار "اوم پوری" نے ادا کیا۔ علی کے کردار کا نام تبدیل کرکے فرید  رکھا گیا۔ یہ فلم باکس آفس پر بہت  کامیاب بھی رہی۔
اس فلم کا ٹریلر دیکھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔

Friday, 17 November 2017

افسانہ : آخری فیصلہ تحریر: کارل چوپیک مترجم: ڈاکٹر اعجاز راہی



Read online this short story    
or



افسانہ  : آخری فیصلہ                                                                                                                      

  تحریر: کارل چوپیک                                                                                                                       

مترجم: ڈاکٹر اعجاز راہی  پاکستان                                                                                                              

کگلر  کو خطرناک مجرم قرار دیے جانے کے بعد اس کے کئی وارنٹ، خفیہ اداروں کے لوگ، پولیس
 حتٰی کہ فوج کے جوان بھی اس کا پیچھا کرتے رہے مگر اس کے زندہ وجود تک کوئی نہیں پہنچ سکا اور جب وہ پکڑا گیا تو زندگی کا چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ چکا تھا۔ اور آخری قتل اس نے اس پولیس کے سپاہی کا کیا تھا جو اسے گرفتار کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ پولیس کا سپاہی اس کی گولی سے مر تو گیا مگر مرنے سے قبل اس نے اپنے پستول کے چیمبر کی ساتوں گولیاں اس پر داغ دیں۔ ان سات گولیوں میں سے تین پر اس کی موت کی تقدیر لکھ دی گئی تھی۔ کگلر نے جتنی مشکل زندگی گزاری تھی اتنی ہی آسانی سے مر گیا اور مرتے ہوئے اسے اتنی فرصت بھی نہیں ملی کہ وہ ذرا سی تکلیف بھی محسوس کرسکتا۔ تاہم اس کی موت نے زمین پر اس کے ساتھ قانون اور انصاف کے ہونے  والے ڈرامے کا ڈراپ سین بھی کردیا۔
  جب اس کی روح اس کے جسم کو چھوڑ کر دوسری دنیا میں پہنچی تو وہاں اس کے لیے ہر چیز حیران کردینے والی تھی۔ اب وہ ایک ایسی دنیا میں تھا، جو اس کے تصور خیال اور خلا سے پرے تاحدِ نظر ایک حیران اور اجاڑ پن سے لبریز۔ لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ یہ کوئی بالکل ہی نئی جگہ ہو۔ ایک ایسا شخص جسے جیل میں ڈال دیا گیا ہو اور وہ خیال کرے کہ د و  دنیا میں کتنا فرق ہوتا ہوتا جتنی اس کے خیال کی وسعت تھی، اس سے زیادہ فرق محسوس نہ کرسکا۔ کگلر یہاں بھی محض جدوجہد کرسکتا تھا، کیونکہ اس میں وہی حوصلہ باقی تھا جسے وہ پچھلی دنیا میں ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا رہا تھا۔ تاہم آخر کار اسے آخری فیصلے کا سامنا کرنا ہی تھا۔ جو اب رفتہ رفتہ اس کے قریب آرہا تھا۔
جنت میں غیر معمولی حالات دکھائی دے رہے تھے۔ اسے تین ججوں کی ایک خصو صی عدالت میں لایا گیا، کیونکہ اس کے جرائم کی نوعیت کے سبب اسے خصوصی عدالت اور ایک بڑی جیوری کے سامنے ہی پیش کیا جانا چاہیئے تھا۔
عدالت کا کمرہ سادہ سا تھا، جیسے کہ دنیا کی عدالتوں کے کمرے ہوتے ہیں۔ صرف ایک فرق تھا کہ دنیا کی عدالتوں کی طرح یہاں دہادت کے لیے قسم کھانے کی ضرورت نہیں تھی اور اس کی وجہ بھی جلد ہی سامنے آنے والی تھی۔

تینوں جج عمر رسیدہ سخت گیر اور بور چہروں والے لوگ تھے۔ کگلر نے معمول کی خانہ پوری کی۔

نام - فرنانڈس کگلر، پیشہ - بے کاری، کب اور کہاں پیدا ہوا، مگر جب وہ موت کے کالم پر پہنچا تو رک گیا۔ کیونکہ اسے اپنی موت کی صحیح تاریخ کا علم نہ تھا۔ لیکن اچانک اسے احساس ہوا جیسے اس کی یہ غلطی ججوں پر اچھا اثر مرتب نہیں کرے گی۔ اسے اپنا حوصلہ پست ہوتا محسوس ہوا۔
"کیا تم اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہو یا انکار۔" کرسیٔ صدارت پر براجمان جج نے گفتگو کا آغاز کیا۔
"میں جرم سے انکار کرتا ہوں۔" کگلر نے جواب دیا۔
"پہلے گواہ کو پیش کیا جائے۔" جج نے کہا۔
کگلر کی مخالف سمت کے دروازے سے ایک شخص اندر داخل ہوا۔ وہ دیکھنے میں نہایت معتبر اور محترم باریش شخص تھا۔ اس کے لباس پر ایک خوبصورت پٹی لگی ہوئی تھی، جس پر ستارے جھلملا رہے تھے۔
اس شخص کے اندر داخل ہوتے ہی تمام ججوں اور جیوری کے اراکین سمیت سب لوگ کھڑے ہوگئے۔ کگلر بھی قدرے ہچکچاہٹ کے ساتھ اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا۔ جب اس شخص نے اشارہ کیا تو جج اپنی اپنی کرسی پر دوبارہ بیٹھ گئے۔
"محترم گواہ" بڑے جج نے کہنا شروع کیا۔ "اے خداوند ہم نے آپ کو عدالت میں اس لیے آنے کی زحمت دی تاکہ آپ مجرم کگلر کے خلاف گواہی دے سکیں۔ چونکہ آپ حتمی سچائی ہیں، اس لیے آپ کو حلف لینے کی ضرورت نہیں ۔ تاہم اس مقدمے کی سماعت کے سلسلے میں اتنا عرض کرنا ہے کہ آپ صرف اس مقدمے سے متعلق حقائق کا اظہار فرمائیں دیگر غیر متعلق جزیات سے گریز ضروری ہے۔۔۔۔ اور کگلر تم گواہی کے دوران مداخلت نہیں کرو گے، کیونکہ محترم گواہ ہر حقیقیت سے پوری طرح آشنا ہیں۔ چنانچہ تمہارا کسی بات سے انکار بے معنی ہوگا۔ اب گواہ سے درخواست ہے کہ وہ اپنا بیان شروع کریں۔"
اتنا کہنے کے بعد صدر جج نے اپنا چشمہ اتار کر میز پر رکھا اور کرسی سے ٹیک لگا کر آرام سے بیٹھ گیا جیسے اسے اب ایک طویل گفتگو سننی تھی۔ تینوں ججوں میں سے بزرگ جج نے آنکھیں بند کرلیں اور ریکارڈ کیپر فرشتے نے کگلر کی زندگی کی کتاب کھول لی۔
خداوند نے ہلکا سا کھنکھورا  لیا اور بولنے کیلئے تیار ہوگیا۔
"ہاں کگلر فرنانڈس۔۔۔۔۔۔۔ فرنانڈس کگلر۔۔۔۔ فیکٹری مزدور کا بیٹا ۔۔۔۔۔ ایک بُرا آدمی۔۔۔۔ بہت زیادہ ۔۔۔۔ مگر کبھی اس کا اظہار نہیں کرسکا۔ جس کے سبب وہ محرومی اور بے قاعدگی کا شکار ہوتا گیا۔ نوجوان کگلر ۔۔۔ تمارے لیے ہر کوئی ایک تھا۔ ہر ایک کو بے عزت کرسکتے تھے۔ تمہیں یاد ہے ایک بار وکیل کے باغ سے پُھول چرانے پر تمھارے باپ نے سرزنش کرنے کی کوشش کی تو تم نے اس کے انگوٹھے کو زخمی کردیا تھا۔"
"ہاں ۔۔۔۔ وہ پھول میں نے  ارما کے لیے چرایا تھا۔ جو ٹیکس کلکٹر کی خوبصورت بیٹی تھی۔"
"ہاں۔۔ مجھے معلوم ہے۔ ارما اس وقت سات سال کی تھی۔ تمہیں معلوم ہے بعد ازاں اس کے ساتھ کیا بیتی۔۔"
"نہیں مجھے معلوم نہیں۔"
"اس کی شادی ایک فیکٹری مالک کے بیٹے آسکر سے ہوگئی تھی۔ مگر آسکر کے سبب اسے ایک جنسی بیماری کا شکار ہونا پڑا اور وہ بے یارو مددگار فوت ہوگئی۔ تمہیں   روڈی زوردبا   یاد ہے؟"
"ہاں ۔۔۔۔ ہاں۔۔۔ اس کے ساتھ کیا بییر؟" کگلر نے جلدی سے پوچھا۔
"کیوں۔۔۔؟ اس نے نیوی میں ملازمت کرلی اور بعد ازاں ایک حادثے میں ممبئی میں انتقال کرگیا۔ روڈسی تمہارا دوست تھا۔ اور تم دونوں پورے گاؤں کے نہایت بگڑے ہوئے نوجوان تھے۔ کگر دو سال کی عمر سے قبل ہی ایک ماہر چور اور ایک پکا جھوٹا تھا۔ وہ جلد ہی برے لوگوں کی صحبت میں پہنچ گیا۔ مثلاً شرابی گریبل اور ایک کاہل اور بگڑا ہوا بوڑھا کگلر کا دوست تھا اور کگلر اکثر کھانے پینے کی چیزیں اس تک پہنچا تا تھا۔"
صدر جج نے ہاتھ کے اشارے سے استفسار کیا کہ اب غیر متعلق گفتگو کی بجائے اصل بات پر آجایا جائے۔ مگر کگلر نے جلدی سے پوچھا۔
"اور ۔۔۔۔۔ اس کی لڑکی پر کیا بیتی۔۔۔۔۔؟"
"میری ۔۔۔۔؟ اس نے اپنے آپ کو بہت گرا لیا تھا۔ چودہ سال کی عمر میں اس کی شادی ہوئی اور بیس سال کی عمر میں فوت ہوگئی۔۔۔۔ اس کی موت بڑی عبرت ناک تھی اور مرتے ہوئے وہ تمہیں ہی یاد کررہی تھی۔ مگر تم تو ابھی چودہ سال کے تھے، جب شرابی بن گئے اور آخرکار گھر سے بھاگ لیے۔ تمہارا  باپ اسی دکھ میں انتقال کرگیا۔ تمہاری ماں کی بینائی تمہاری جدائی نے چھین لی۔ تم اپنے خاندان والوں کے لیے نہایت بددیانت ثابت ہوئے۔ تمہاری بے چاری بہن مارتھا  اب تک کنواری ہے۔ بھلا کون ایک چور کے گھر رشتہ مانگنے آئے گا۔ وہ اپنی عسرت بھری زندگی کو چلالنے کے لیے لوگوں کے کپڑے سیتی ہے۔"
"وہ ٹھیک اس وقت کیا کررہی ہے؟"
"اس وقت وہ وولف کی دکان سے دھاگہ خرید رہی ہے۔ کیا تمہیں وہ دکان یاد ہے؟ جب تم چھ برس کے تھے تو تم نے ماربل کا ایک رنگین کھلونا خریدا تھا۔ جو اسی روز تم سے گم ہوگیا تھا۔ اس کے بعد تم وہ کبھی خرید نہیں سکے مگر اس کے لیے تم کس قدر روئے تھے۔۔۔۔۔"
"وہ کہاں چلا گیا تھا۔۔۔۔ کون لے گیا ۔۔۔۔؟"
"وہ لڑھکتا ہوا گٹر میں جاگرا تھا اور آج تیس سال گزر جانے کے باوجود اب تک وہیں پڑا ہے۔ اس وقت بارش ہورہی ہے اور تمہارا ماربل کا خوبصورت کھلونا ٹھنڈے پانی میں بھیگ رہا ہے۔"
کگلر نے ہلکے سے سر کو ہلایا جیسے وہ ماضی کے جھمیلے سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔ اسی لمحے صدر جج نے اپنی عینک دوبارہ پہن لی اور گواہ سے نہایت نرم لہجے میں بولا۔
"جناب ہم ممنون ہوں گے اگر آپ اصل کیس کی طرف واپس آئیں، کیا اس نے واقعی قتل کیے ہیں۔۔۔۔۔؟"
گواہ نے سر ہلایا اور بولنا شروع کیا۔
"اس نے نو انسانوں کو قتل کیا ہے۔ پہلا قتل اس نے ایک جھگڑے میں کیا اور اس جرم کی پاداش میں جب جیل گیا، تو مکمل طور پر ایک بُرا انسان بَن چکا تھا۔ دوسرا قتل اس نے اپنی ایک بے وفا دوست کا کیا، جس پر اسے سزائے موت سنائی گئی مگر یہ جیل سے فرار ہوگیا۔ تیسرا مقتول ایک بوڑھا آدمی تھا جس کو یہ لوٹنا چاہتا تھا اور چوتھا ایک چوکیدار۔"
"کیا وہ بھی مرگیا تھا۔۔۔۔"
"ہاں۔ وہ تیسرے دن مرا تھا، مگر یہ تین دن اس کے لیے بڑے عذاب کے تھے۔"
خداوند نے کہا "اس نے اپنے پیچھے چھ بچے چھوڑے تھے۔ پانچواں اور چھٹا قتل اس نے ایک جوڑے کا کیا تھا، مگر ان کی جیب سے صرف سولہ ڈالر نکلے تھے۔۔۔۔۔ جبکہ انہوں نے بیس ہزار ڈالر چھپا رکھے تھے۔"
کگلر ایک دم اچھل پڑا۔
"کہاں ۔۔۔۔۔۔۔؟"
پیال کی چٹائی کے نیچے۔۔۔۔ ریشمی کپڑے کی تھیلی میں، جو پیال سے بنی چٹائی کے نیچے رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے یہ رقم نہایت کنولسی سے پائی پائی کرکے جمع کی تھی۔۔۔۔ ساتواں قتل اس نے امریکہ میں جس شخص کا کیا، وہ غریب ایک تارک وطن تھا۔"
"تو انہوں نے یہ رقم چٹائی کے نیچے چھپا کر رکھی تھی۔" کگلر بڑبڑایا۔
"ہاں۔۔۔۔۔ "خداوند نے کہا اور اپنی بات جاری رکھی۔ "آٹھواں قتل اس نے اس وقت کیا، جب یہ پولیس سے چھپتے ہوئے بھاگ رہا تھا اور وہ شخص اس کے راستے میں آگیا۔ اس زمانے میں کگلر ہڈیوں کے مرض میں مبتلا تھا اور اسے اس وقت شدید تکلیف تھی۔ نوجوان۔۔۔۔۔ اس وقت تم شدید تکلیف میں تھے اور ۔۔۔۔۔۔۔ نواں قتل کگلر نے اس پولیس والے کا کیا، جس نے مرتے مرتے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی تھی۔۔۔۔"
ـآخر یہ قتل کیوں کرتا رہا؟" صدر جج نے پوچھا۔
"وہی اسباب ہیں، جس پر دوسرے قتل ہوئے۔ غصے میں یا پیسوں کے لیے۔ جان بوجھ کر بھی اور حادثاتی طور پر بھی۔۔۔۔۔ کچھ تسکین خاطر کے لیے۔۔ کچھ ضرورتاً ۔۔۔۔ بہرحال یہ ایک اچھا آدمی بھی تھا۔ مددگار۔۔۔۔ خصوصاً عورتوں پر بہت مہربان بھی رہا۔ جانوروں سے پیار کرنے والا اور بات کا پکا تھا۔ کیا میں اس کی اچھائیاں بھی بیان کروں۔۔۔۔؟"
"نہیں شکریہ ۔۔۔۔۔ وہ غیر متعلق ہوگا۔" صدر جج نے کہا۔ "کیا مجرم اپنے دفاع میں خود بھی کچھ کہنا چاہتا ہے۔"
"نہیں۔۔۔ " کگلر کا جواب تھا۔

"اب عدالت کے جج فیصلے کے لیے آپس میں صلاح و مشورہ کریں گے۔" صدر جج نے اعلان کیا اور تینوں جج اٹھ کر چلے گئے۔ اب کمرہ عدالت میں خداوند اور کگلر رہ گئے تھے۔
"یہ لوگ کون تھے۔۔۔۔۔" کگلر نے پوچھا۔
"تمہاری طرح انسان " خداوند کا جواب تھا۔ "یہ لوگ زمین پر بھی جج تھے۔ چنانچہ یہاں بھی جج بنا دیئے گئے ہیں۔"
"مجھے توقع نہیں تھی۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے۔ میں نے اس کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ تاہم میرا خیال ہے آپ کو جج ہونا چاہیئے کیونکہ ۔۔۔۔۔"
"کیونکہ میں خداوند ہوں۔" خداوند نے بات کو نرمی سے جاری رکھتے ہوئے کہا۔ "میرے نزدیک یہ انصاف کا تقاضا ہے۔ کیا تم نے دیکھا نہیں میں ہر چیز کو جانتا ہوں۔ اس لیے میرے لیے کسی جرم کا انصاف کرنا ممکن نہیں۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ تم ادھر کیسے آئے تھے؟
"نہیں مجھے معلوم نہیں۔۔۔۔" کگلر نے حیرت سے دیکھا۔
"لکی۔۔۔۔ ویٹرس۔۔۔۔۔ جس نے حسد کے سبب مخبری کی۔"
"معاف کیجیئے۔۔۔۔ آپ ٹیڈی کو بھول گئے، جسے میں نے شکاگو میں گولی ماری تھی۔"
"نہیں بالکل نہیں۔۔۔ وہ ٹھیک ہوگیا تھا اور اب بھی زندہ ہے مجھے معلوم ہے۔ وہ ایک مخبر ہے مگر عام طور پر وہ ایک اچھا انسان بھی ہے اور بچوں سے بڑی محبت کرتا ہے۔ تم کسی شخص کو مکمل طور پر برا نہیں کہہ سکتے۔"
"لیکن ۔۔۔۔۔ میں اب تک نہیں سمجھ سکا کہ آپ خود جج کیوں نہیں۔" کگلر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"کیونکہ میرا علم لامحدود ہے۔ میں ہر بات کو جانتا ہوں۔ اگر ایک جج کو ہر چیز کا علم ہو جانے اور ہر بات کو سمجھنے لگے، تو اس کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ وہ صحیح انصاف نہیں کرسکتا۔ بالکل اسی طرح میں بھی ہوں۔ وہ صرف تمہارے جرائم کے بارے میں جانتے ہیں۔ لیکن میں ہر چیز سے واقف ہوں۔ کگلر کو مکمل طور پر جانتا ہوں۔ اس کے جرائم کو بھی اور جرائم کے اسباب کو بھی ۔۔۔۔۔ چنانچہ اسی لیے میں انصاف نہیں کرسکتا۔۔۔۔"
"پھر وہ لوگ جج کیوں ہیں۔۔۔ جبکہ زمین پر بھی وہی لوگ جج تھے۔۔۔۔"
"اس لیے کہ انسان کا انسان سے تعلق ہے۔ تم نے دیکھا۔۔۔ میں تو صرف گواہ تھا اور فیصلہ خود انسان کریں گے۔ جنت میں بھی یہی لوگ ہیں۔۔۔۔ یقین کرو۔۔۔۔۔ انصاف کا یہی ایک طریقہ ہے۔ انسان خدا کے فیصلے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ وہ اسی قابل ہے کہ اس پر انسان ہی فیصلے صادر کرتا رہے۔"
عین اس وقت تینوں جج واپس آگئے اور اپنی اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ صدر جج نے گونجدار آواز میں بولنا شروع کیا۔
"مسلسل قتل عمد، ڈاکہ زنی، قانون کی خلاف ورزی، غیر قانونی اسلحہ کی نمائش اور گلاب کا ایک پھول چوری کرنے کے جرم میں کگلر فرنانڈس کو جہنم میں ہمیشہ کے لیے ڈال دینے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ سزا کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔۔۔۔"
"اگلا مقدمہ۔۔۔۔ ٹورنس فرینک۔۔۔۔۔"
"ملزم حاضر عدالت ہے جناب۔۔۔۔۔۔"

English Title: The Last Judgment 
Written by:
Karel Čapek (9 January 1890 – 25 December 1938) was a Czech writer of the early 20th century. He had multiple roles throughout his career, including playwright, dramatist, essayist, publisher, literary reviewer, photographer and art critic.