افسانہ : محبت کے غلام
تحریر : کنوت ھامسُن (ناروے)
ترجمہ : نصر ملک ۔
میں نے یہ کہانی لکھی۔ لکھی اپنے دل کو سکون
دینے کے لیے ۔ میں نے کیفے میں اپنے کام کو کھو دیا اور اور میری خوشی کے دن بھی
کھو گئے ہیں ۔ میں نے ہر شے کھو دی ہے ۔ یہ کیفے تھا ، '' کیفے
مکسیمیلیان''۔
ایک نوجوان شریف آدمی بھورے رنگ کے لباس میں ملبوس اور اُس کے دو دوست ہر رات بلا ناغہ وہاں آتے اور میری میزوں میں سے ایک پر بیٹھتے تھے ۔ بہت سارے شریف لوگ وہاں آتے اور وہ سبھی میرے لیے ایک بڑا ہی اچھا لفظ بولتے تھے لیکن یہ آدمی کچھ نہیں بولتا تھا ۔ وہ قد کا لمبا اور پتلا تھا ، اس کے بال نرم و کالے تھے، اور نیلی آنکھیں جو کبھی کبھی میری طرف دیکھتی تھیں۔ اُس کے اوپر والے ہونٹ پر مونچھیں ابھرنی شروع ہو چکی ہوئی تھیں ۔
شاید پہلے پہل ممکن ہے وہ آدمی میرے خلاف کوئی بات رکھتا ہو۔ وہ ایک ہفتے تک مسلسل آتا رہا ۔ اب میں اُس کے ساتھ عادی ہو گئی تھی اور جب وہ نہیں آتا تھا تو میں اُسے یاد کرتی تھی ۔ ایک شام وہ یہاں نہیں تھا ۔ میں نے اسے دیکھنے کے لیے اِدھر اُدھر کیفے میں چکر لگایا ۔ آخر کار وہ مجھے عقبی دروازے کے ساتھ بڑے ستونوں میں سے ایک کے قریب مل گیا ۔ وہ سرکس کی ایک خاتون کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔ یہ خاتون پیلے رنگ کا لباس زیب تن کیے ہوئے تھی اور اُس کے لمبے دستانے اس کی کہنیوں تک چڑھے ہوئے تھے ۔ وہ نوجوان تھی اور اس کی بڑی خوبصورت کالی آنکھیں تھیں، میری اپنی آنکھیں نیلی تھیں۔
میں وہاں تھوڑی دیر کے لیے رکی اور سُنا کہ وہ آپس میں کیا باتیں کر رہے تھے : وہ اسے کسی بات پر ملامت کر رہی تھی ۔ وہ اُس سے تھک چکی تھی اور اسے چلے جانے کو کہہ رہی تھی ۔ میں نے اپنے دل میں کہا: '' خدایا بھلا ہو! وہ میری طرف کیوں نہیں آتا؟''
اگلی شام وہ اپنے دونوں دوستوں کے ساتھ آیا اور میری ایک میز پر بیٹھ گیا ۔ مجھے پانچ میزوں پر گاہکوں کو خدمات پیش کرنی ہوتی تھیں ۔ میں اسے اُس طرح ملنے کے لیے نہ گئی جیسے کہ میں جایا کرتی تھی ۔ میں نے شرماتے ہوئے ظاہریہی کیا کہ میں نے اُسے دیکھا ہی نہیں ۔ پھر جب اُس نے مجھے متوجہ کیا تو اس کی جانب بڑھی ۔
'' تم کل یہاں نہیں تھے۔'' میں نے کہا ۔
'' ہماری ویٹرس کتنی پیاری اورنازک ہے، '' اُس نے اپنے ساتھیوں سے کہا ۔
'' بیئر؟'' میں نے پوچھا ۔
'' ہاں ''، اس نے جواب دیا ۔
اُن کے لیے بیئر کے تین بڑے مگ لانے کے لیے چلنے کی بجائے میں بھاگی ۔
چند دن گزر گئے ۔
اُس نے مجھے ایک کارڈ دیا اور کہا ۔۔۔۔ '' اسے اُس کو ۔۔۔۔''
اس سے پہلے وہ اپنا جملہ پورا کرتا میں نے اُس کے ہاتھ سے کارڈ لیا اور زرد رنگ کے لباس والی خاتون کے پاس لے گئی ۔ چلتے ہوئے میں نے اِس کارڈ پر درج اُس آدمی کا نام پڑھ لیا تھا، ولاڈیمئرز ٹایکس۔
میں جب کارڈ دے کرواپس آئی تو اس نے مجھے استفساری نگاہوں سے دیکھا ۔
'' ہاں، میں وہ دے آئی ہوں۔'' میں نے کہا ۔
'' اور وہاں سے کوئی جواب نہیں تھا؟'' اُس نے پوچھا ۔
'' نہیں۔''
'' پھر اُس نے مجھے ایک مارک دیا اور مسکراتے ہوئے بولا، '' کوئی جواب نہ ہونا بھی ایک جواب ہی ہے۔''
وہ ساری شام وہاں بیٹھا اُس خاتون اور اُس کے نگہبانوں پر نظریں جمائے گھورتا رہا ۔ گیارہ بجے کے قریب وہ اٹھا اور اُس خاتون کے میز پر جا پہنچا ۔ خاتون نے سرد مہری سے اُس کا استقبال کیا ۔ اُس کے دو ساتھوں نے اُس کے ساتھ کچھ گفتگو کی۔ بہرحال، انہوں نے اُس سے کچھ غیر مہربانہ سوالات کیے اور ہنسے۔ وہ وہاں کچھ ہی لمحے ٹھہرا اور پھر جب واپس آ گیا تو میں نے اُسے بتایا کہ اُس کی برساتی کوٹ کی ایک جیب میں بیئر انڈیل دی گئی ہے ۔ اُس نے اپنا برساتی کوٹ اتار دیا اور اچانک اسے اُلٹ دیا اور سرکس والی خاتون کے میز کی طرف واپس دیکھا ۔ میں نے اُس کے کوٹ کو خشک کیا تو اُس نے مجھے کہا ، '' تمہارا شکریہ، غلام۔''
میں نے جب اسے کوٹ پہننے میں مدد کی تو اس دوران میں نے چپکے سے اُس کی کمر پراپنا ہاتھ پھیرا ۔
وہ گہرے خیالوں میں گم بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کے ایک ساتھی مزید بیئر لانے کو کہا اور میں نے اس کے مگ میں بیئر بھرنے کے لیے اسے اٹھایا ۔ میں نے ٹایکس کا مگ بھی اُٹھانا چاہا۔
'' نہیں''، اس نے کہا اور میرے ہاتھ پراپنا ہاتھ رکھ دیا ۔
اُس کے یوں مجھے چھونے پر میں نے اپنا بازو پیچھے کر لیا اور یقیناً اُس نے اسے محسوس کیا کیونکہ اُس نے فوراً ہی اپنا ہاتھ واپس اٹھا لیا تھا ۔
رات کے وقت میں نے اپنے بستر کے قریب اپنے گھٹنوں پر جھک کر اُس کے لیے دعا کی اور اپنی خوشی اور چاہت میں اپنے دائیں ہاتھ کو چوما جسے وہ ایک بار چُھو چکا تھا ۔
ایک بار اُس نے مجھے پھول دیے ۔ بہت زیادہ پھول ۔ اُس نے یہ کیفے میں داخل ہونے سے پہلے دروازے کے قریب گلفروش لڑکی سے خریدے تھے ۔ پھول تروتازہ اور سرخ تھے اور لگتا تھا کہ اُس نے لڑکی کی ٹوکری میں رکھے کم و بیش سبھی پھول خرید لیے تھے ۔ اُس نے کافی وقت تک انہیں اپنے سامنے میز پر ہی پڑے رہنے دیا ۔ اُس کے دوستوں میں سے کوئی بھی اُس کے ساتھ نہیں تھا ۔ مجھے جب بھی وقت ملتا میں ایک بڑے ستوں کے پیچھے سے اُسے جھانکتی رہتی، '' ولاڈیمئرز ٹایکس اس کا نام ہے۔'' میں سوچتی ۔
کوئی ایک گھنٹہ گزر چکا ہو گا ۔ وہ بار بار اپنی گھڑی کو دیکھ رہا تھا ۔
'' کیا تم کسی کا انتظار کر رہے ہو؟'' میں نے اس سے پوچھا ۔
اس نے بے توجہی سے مجھے دیکھا اور پھر اچانک کہا ، '' نہیں کسی کی توقع نہیں کر رہا، مجھے کس کا منتظرہونا چاہیے؟''
''میں صرف سوچ رہی تھی کہ شاید تم کسی کا انتظارکر رہے ہو۔'' میں نے کہا۔
' اِدھر آؤ ''، اس نے جواب دیا ۔ '' یہ تمہارے لیے ہے۔''
اور اُس نے سارے پھول مجھے تھما دیے ۔
میں نے اُس کا شکریہ ادا کیا لیکن لمحہ بھر کے لیے میری آواز گم ہو گئی اور میں صر ف پُھسپھسا ہی سکی ۔ میری خوشی کی کوئی انتہا ہی نہ تھی ۔ اب میں اس ''بوفہ ٹیبل '' کے قریب کھڑی تھی جہاں سے میں گاہکوں کے لیے کھانابُک کرتی تھی ۔ میری سانس رکی ہوئی تھی ۔
'' تمہیں کیا چاہیے؟'' وہاں کی انچارج عورت نے پوچھا ۔
'' تمہارا کیا خیال ہے۔'' میں نے جواب دیا ۔
'' میرا کیا خیال ہےَ''، عورت نے کہا، '' کیا تم پاگل ہو؟''
'' بوجھو تو، میں نے یہ پھول کس سے لیے ہیں؟'' میں نے کہا ۔
'' تم نے اُس لکڑی کے ٹانگ والے آدمی کو ابھی تک بیئر نہیں پہنچائی۔ میں نے منیجر کو کہتے ہوئے سُنا ۔
'' یہ پھول میں نے ولاڈیمئرز سے لیے ہیں۔'' میں نے جلدی میں کہا اور بیئر لے کر چل دی ۔
ٹایکس ابھی گیا نہیں تھا ۔ اور جب وہ جانے کے لیے اُٹھا تو میں نے ایک بار پھر اُس کا شکریہ ادا کیا ۔ اس نے قدرے ہچکچاہٹ سے کہا، '' اصل میں یہ پھول میں نے کسی اور کے لیے خریدے تھے۔''
چلو، کچھ بھی تھا، شاید اُس نے یہ پھول کیسی اور ہی کے لیے خریدے ہوں لیکن ملے تو مجھے ہی نا، جس کسی کے لیے اُس نے خریدے تھے اس کی بجائے آخر وہ حاصل تو میں نے ہی کیے نا۔ اور پھر اُس نے مجھے شکریہ ادا کرنے کا موقع بھی تو دیا ۔ شب بخیرولاڈیمئرز ۔
اگلی صبح سے بارش تھی ۔ میں اپنا بلیک یا گرین لباس پہنوں، میں نے سوچا، گرین اچھا رہے گا ۔ یہ بالکل نیا ہے، میں یہی پہنوں گی ۔ میں بہت خوش تھی ۔
جب میں ٹرام کے سٹاپ پر پہنچی وہاں ایک عورت بارش میں کھڑی ٹرام کا انتظار کر رہی تھی ۔ اُس کے پاس چھتری نہیں تھی ۔ میں نے اسے اپنی چھتری کے نیچے آجانے کو کہا ۔ '' نہیں، تمہارا شکریہ ۔'' اس نے کہا ۔
میں نے بھی اپنی چھتری بندکر لی اور ٹرام کا انتظار کرنے لگی ۔ '' اب یہ عورت اکیلی نہیں بھیگ رہی۔'' میں نے سوچا ۔
اس شام ولاڈیمئرز کیفے میں آیا ۔
'' کل کے پھولوں کے لیے بیحد شکریہ''، میں بڑے فخر سے کہا ۔
'' کونسے پھول؟'' اُس نے پوچھا۔ '' میرے ساتھ اُن پھولوں کے متعلق بات مت کرو۔''
'' میں تو اُن کے لیے تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔'' میں نے کہا ۔
'' یہ تم نہیں، میں جس سے محبت کرتا ہوں، غلام!'' اُس نے اپنے شانے جھٹکتے ہوئے کہا ۔
یہ میں نہیں تھی وہ جس سے محبت کرتا تھا ۔۔۔۔ یقیناً نہیں۔ میں نے اس کی روق نہیں کی تھی اور میں بڑی مایوس ہو گئی تھی ۔ لیکن میں ہر رات اُسے دیکھتی رہی ۔ وہ میرے میز پر بیٹھتا ۔ کسی اور کے میز پر ہرگز نہیں ۔ اور یہ میں تھی جو اس کے لیے بیئر لاتی تھی ۔ خوش آمدید ولاڈیمئرز۔
اگل شام وہ دیر سے آیا ۔ '' کیا تمہارے پاس بہت سے پیسے ہیں، غلام؟ '' اُس نے پوچھا ۔
'' نہیں، مجھے افسوس ہے، میں تو ایک غریب لڑکی ہوں۔'' میں نے کہا ۔
پھر اس نے مجھے دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا، '' میرا خیال ہے تم نے مجھے غلط سمجھا ہے۔ مجھے کل صبح تک کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔''
'' میرے پاس کچھ پیسے ہیں ، میرے پاس گھر پر ایک سو تیس مارک رکھے ہیں ۔ میں نے کہا ۔
'' گھر پر، یہاں نہیں؟۔''
'' بس پندرہ منٹ تک انتظار کرو جب ہم کیفے بند کریں، میرے ساتھ چلنا پھر میں تمہیں دے دوں گی۔ میں نے جواب دیا ۔
اس نے پندرہ منٹ تک انتظار کیا اور پھر میرے ساتھ چل دیا ۔ '' صرف ایک سو مارک '' اس نے کہا اور میرے ساتھ چلتا رہا ۔ اس نے نہ مجھے خود سے آگے نکلنے کا موقع دیا اورنہ ہی پیچھے رہ جانے کا۔۔ ۔سارا وقت وہ برابر میرے ساتھ چل رہا تھا بالکل جیسے شریف آدمی اکثر کرتے ہیں ۔
'' میرے پاس صرف ایک چھوٹا کمرہ ہے۔'' جب ہم مکان کے دروازے پر پہنچے میں نے کیا ۔
'' میں اندر نہیں جاؤں گا۔'' اس نے کہا، '' میں یہیں انتظار کروں گا۔''
وہ وہیں انتظارکرتا رہا ۔
جب میں واپس آئی تو اُس نے پیسے گنے اور کہا، '' یہ تو ایک سو سے زیادہ مارک ہیں۔ میں تمہیں دس مارک بطور ''ٹپ'' دیتا ہوں، ہاں، ہاں، میری
بات سنو! میں تمہیں دس مارک بطور ٹپ دوں گا۔'' اور اس نے پیسے مجھے تھما دیے اور شب بخیر کہتا ہوا چلا گیا ۔ میں نے دیکھا کہ وہ گلی کے کونے پر ٹھہرا اوراُس نے وہاں بیٹھی ایک لنگڑی فقیر عورت کو ایک ایک سکّہ دیا ۔
اگلی شام اس نے فوراً کہا کہ اُسے افسوس ہے کہ وہ مجھے پیسے واپس ادا نہیں کر سکتا ۔ میں نے اس کا شکریہ ادا اور کہا کہ کوئی بات نہیں ۔ اس نے بے تکلفی سے اعتراف کیا کہ اُس نے سارے پیسے خرچ کر دیے ہیں ۔
'' کوئی کیا کہہ سکتا ہے، غلام؟'' اُس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ''تم جانتی ہو ۔۔۔۔ وہ زرد لباس والی خاتون۔''
'' تم ہماری ویٹرسز کو ''غلام '' کیوں کہتے ہو؟'' ، اُس کے ایک دوست نے پوچھا ۔ '' جتنی یہ غلام ہے تم اس سے کہیں زیادہ ہو۔''
'' بیئر؟ '' میں نے دخل دیتے ہوئے پوچھا ۔
تھوڑی ہی دیر بعد وہ رزد لباس والی خاتون میں بھی آگئی۔ ٹایکس اپنی جگہ اٹھا اور جھک گیا۔ وہ اتنا جھک گیا تھا کہ اس کے لمبے بال مڑکر اُس کے چہرے پر گر گئے تھے ۔ وہ خاتون اس کے قریب سے گزر کر ایک خالی میز پر جا بیٹھی ۔ اس کے سامنے دو کرسیاں خالی پڑی ہوئی تھیں ۔ ٹایکس فراً اس کے پاس پہنچا اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا ۔ دو منٹ بعد وہ وہاں سے اُٹھا اور اُونچی آواز میں بو، '' بہت اچھا، میں چلتا ہوں اور میں کبھی واپس نہیں آؤں گا ۔''
'' تمہارا شکریہ۔'' خاتون نے جواباً کہا ۔
میں خوشی سے شَل ہوگئی اور '' بُفے ٹیبل '' کی جانب بھاگ کر وہاں دوسروں کو کچھ کہا ۔کسی شک کے بغیر میں نے انھیں بتایا کہ اب وہ زرد لباس والی کے پاس کبھی واپس نہیں جانے والا ۔ مینیجر نے گزرتے ہوئے رک کر مجھے ترش لیجے میں ڈانٹ پلائی لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی ۔
رات بارہ بجے جب کیفے بند ہوا ۔ ٹایکس میرے دروازے تک میرے ساتھ آیا ۔
'' وہ دس مارک جو میں نے تمہیں کل دیے تھے، ان میں سے پانچ۔'' اس نے کہا ۔
'' میں نے اُسے پورے دس مارک دینے چاہا اور اُس نے وہ لے لیے، لیکن پانچ مارک مجھے واپس کر دیے ۔ وہ میرے کسی اعتراض یا التجا کو سننا ہی نہیں چاہتا تھا ۔
:'' میں آج شب بہت خوش ہوں''، میں نے کہا ۔ کاش میں تمہیں اوپر آنے کے لیے کہنے کہ ہمت کر سکتی ، لیکن میرے پاس تو صرف ایک چھوٹا سا کمرہ ہے'۔''
نہیں، میں اوپر نہیں جاؤں گا''، اس نے کہا، '' شب بخیر۔''
وہ چلا گیا ۔ وہ اُسی لنگڑی بوڑھی بھکارن کے پاس سے گزرا لیکن اسے کچھ دینا بھول گیا اگرچہ اُس نے اُسے پکارا بھی ۔ میں بھاگ کراُس بھکارن کے پاس پہنچی اور اُسے کچھ دیتے ہوئے کہا، '' یہ اُس آدمی کی طرف سے ہے جو ابھی ابھی یہاں سے گزرا ہے، وہ بھلا مانس جس نے خاکستری کوٹ پہنا ہوا تھا۔''
'' وہ بھلا مانس خاکستری کوٹ والا؟ '' عورت نے پوچھا ۔
'' وہ جس کے کالے بال ہیں، ولاڈیمئرز۔'' میں نے کہا ۔
''کیا تم اُس کی بیوی ہو؟''
''نہیں، میں اس کی غلام ہوں۔'' میں نے جواب دیا ۔
مسلسل کئی شام محفل میں وہ یہی بات دہراتا رہا کے اُسے بیحد افسوس ہے کہ ُاس نے ابھی تک مجھے میرے پیسے واپس ادا نہیں کیے۔ میں نے اس سے اس کی منت کی کہ وہ اس کا ذکر نہ کرے ۔ وہ اتنی اونچی آواز میں بولتا کہ ہر کوئی اُس کی آواز سنتا اور بیشتر اُس پر ہنستے ۔
'' میں ایک لُچا اور بدمعاش ہوں '' ، اس نے کہا، '' میں نے تم سے ادھارپیسے لیے اور اب میں واپس ادا نہیں کرسکتا ۔ میں اپنا دایاں ہاتھ کاٹ پچاس مارک کے نوٹ کے لیے کاٹ دوں گا ۔''
یہ الفاظ سُن کر مجھے بڑا رنج ہوا اور حیران تھی کہ اُسے کس طرح پیسے دے سکتی تھی اگرچہ میں جانتی تھی کہ میں ایسا نہیں کر سکتی تھی ۔
وہ ابھی تک مجھ سے مخاطب تھا، '' اگر تم مجھ سے پوچھو کہ اس صورتحال کے برعکس کچھ اور ہے تو لو سنو، میں تمہیں بتاسکتا ہوں کہ وہ زرد لباس والی خاتوں اپنے سرکس کے ساتھ کوچ کر گئی ہے ۔ میں اُس کو بھول چکا ہوں ۔ وہ اب مجھے مزید یاد نہیں رہی۔''
''اور اِس کے باوجود تم نے آج بھی اُسے ایک خط لکھا ہے''، اس کے دوستوں میں سے ایک نے کہا ۔
'' یہ آخری تھا ''،ولاڈیمئرز نے جواب دیا ۔
میں نے گلفروش لڑکی سے گلاب کا ایک پھول خریدا اور اُس کے کوٹ کے بائیں بٹن والے سوراخ میں اَٹکا دیا ۔ جب میں ایسا کر رہی تھی تو مجھے اپنے ہاتھوں پر اس کی سانسیں محوس ہو رہی تھیں اور مجھے پھول اٹکانا مشکل ہو رہا تھا ۔
''شکریہ''، اُس نے کہا ۔
میں نے ڈیسک مینیجر سے چند مارک مانگے ان کے ذمے ابھی تک میرے کچھ پیسے باقی تھے ۔ میں نے وہ پیسے اُسے دے دیے ۔ یہ ایک بہت چھوٹی سے بات تھی ۔
'' شکریہ''، اس نے دوبارہ کہا ۔
جب تک ولاڈیمئرز اچانک نہ بول پڑا میں ساری شام بہت خوش رہی، '' ان پیسوں کے ساتھ میں ایک ہفتہ کے لیے جا سکتا ہوں۔ میں جب واپس آؤں گا تمہیں تمہارے پیسے مل جائیں گے''۔ جب اُس نے دیکھنا چاہا میں وہاں سے ہٹ گئی تھی ۔ '' یہ تم ہو، تم، میں جس سے محبت کرتا ہوں''، اس نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ تھام لیا تھا ۔
میں الجھن میں تھی کہ وہ جا رہا ہے لیکن یہ بتائے بغیر کہ کہاںجا رہا ہے حالانکہ میں نے اُس سے پوچھا بھی تھا۔ مجھے ہر ایک شے، سارا ریسٹورنٹ اور سارے فانوس اور تمام مہمان گاہک اپنے سامنے گھومتے ہوئے دکھائی دیے ۔ میں یہ سب کچھ برداشت نہ کر سکی اور میں نے اُس کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔'' میں ایک ہفتے کے بعد دوبارہ تمہارے ساتھ ہوں گا۔'' اُس نے کہا ، اور اچانک اُٹھ کھڑا ہوا ۔ میں نے مینیجر کی آواز سنی ، '' تم کوجانا ہو گا، تمہارا کام ختم ۔''
ٹھیک ہے، میں نے سوچا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا! ایک ہفتے میں ولاڈیمئرز واپس لوٹ آئے گا اور میرے ساتھ ہو گا! میں اس کے لیے اُس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے پلٹی ۔ وہ جا چکا تھا ۔
ایک ہفتے بعد جب میں ایک رات گھر پہنچی تو مجھے اُس کی جانب سے ایک خط ملا ۔ اس نے یہ خط بڑی شکستہ دلی سے لکھا تھا ۔ اُس نے مجھے لکھا تھا کہ وہ زرد لباس والی خاتون کو تلاش کرنے گیا ہے ، وہ مجھے کبھی میرے پیسے واپس ادا نہیں کر سکے گا، اور وہ بڑی تنگ دستی میں مبتلا ہے۔ پھر اس نے دوبارہ خود پر الزام لگاتے ہوئے اور خود کو برا بھلا کہتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ ایک نیچ نا پسندیدہ روح ہے ۔ اور پھر خط میں ایک نوٹ کے طور پر اُس نے لکھا تھا ، '' میں اُس زرد لباس والی خاتون کا غلام ہوں ۔''
میں رات دن رنجیدہ رہتی اور کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی ۔ ایک ہفتے کے بعد میری ملازمت بھی جاتی رہی اور میں نے نئے کام کی تلاش شروع کردی ۔ دن کے وقت میں دوسرے کیفوں اور ہوٹلوں میں کام کے لیے درخواستیں دیتی ۔ میں نے کئی ایک پرائیویٹ گھروں کے دروازوں کی گھنٹیاں بھی بجائیں اور اپنی خدمات پیش کیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، سب کچھ بیکار و فضول رہا ۔ شام گئے میں دن کے اخبارات آدھی قیمت پر خریدتی اور گھر جاکر اشتہارات کے کالم پڑھتی ۔ میرا خیال تھا کہ شائد میں کوئی ایسا کام تلاش کر لوں جو ولاڈیمئرز اور مجھے، ہم دونوں کو بچا سکے ۔۔۔۔
گزشتہ رات میں نے اُس کا نام اخبار ات میں دیکھا اور اُس کے بارے میں پڑھا ۔ اس کے بعد میں سیدھی باہر نکل گئی، گھر سے باہر، گلیوں میں چکر لگاتی رہی اور پھر صبح کو واپس لوٹ آئی۔ ہو سکتا ہے میں کہیں یہاں وہاں سو بھی گئی ہوں گی ، یا کہیں اس لیے ٹھہر گئی ہوں گی کہ مجھ میں چلنے کی سکت نہیں رہی ہوگی ۔ مجھے اب کچھ بھی یاد نہیں تھا ۔
میں نے اسے آج دوبارہ پڑھا ہے۔ لیکن یہ تو کل رات تھی جب میں گھر آئی تھی اور اسے پہلے پڑھا تھا ۔
پہلے میں نے اپنے ہاتھ جوڑے، پھر میں ایک کرسی پر بیٹھی اورتھوڑی دیر بعد وہاں سے میں فرش پر بیٹھ گئی اور کرسی کی جانب جھک گئی اور سوچنے لگی، میں نے فرش کو اپنی ہتھیلیوں سے پیٹا ۔ شائد مجھے احساس نہیں تھا یا خیال ہی نہیں آیا تھا لیکن میرے سر کی حالت یوں تھی کہ جیسے اس میں کوئی سوراخ ہو رہا ہو لیکن مجھے کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا ۔ شائد یہی لمحہ تھا جب میں اٹھی اور باہر چلی گئی ۔ باہر گلی کی نکڑ پر، مجھے یاد ہے، میں نے بوڑھی بھکارن کو ایک پینی کا سکّہ دیا ۔ '' یہ خاکستری کوٹ والے اُس شریف آدمی کی طرف سے ہے، تمہیں یاد ہے نا ؟ '' میں نے کہا۔
'' شائد تم اُس کی منگیتر ہو؟'' اُس نے پوچھا ۔
''نہیں، میں اُس کی بیوہ ہوں ۔۔۔۔ '' میں نے جواب دیا ۔
پھر میں رات بھر اگلی صبح تک گلیوں میں آوارہ گردی کرتی ۔۔۔ چکر لگاتی رہی ۔ اور اب میں نے اِسے دوبارہ پڑھا ہے۔
ولاڈیمئرز ٹایکس اس کا نام تھا ۔۔
ایک نوجوان شریف آدمی بھورے رنگ کے لباس میں ملبوس اور اُس کے دو دوست ہر رات بلا ناغہ وہاں آتے اور میری میزوں میں سے ایک پر بیٹھتے تھے ۔ بہت سارے شریف لوگ وہاں آتے اور وہ سبھی میرے لیے ایک بڑا ہی اچھا لفظ بولتے تھے لیکن یہ آدمی کچھ نہیں بولتا تھا ۔ وہ قد کا لمبا اور پتلا تھا ، اس کے بال نرم و کالے تھے، اور نیلی آنکھیں جو کبھی کبھی میری طرف دیکھتی تھیں۔ اُس کے اوپر والے ہونٹ پر مونچھیں ابھرنی شروع ہو چکی ہوئی تھیں ۔
شاید پہلے پہل ممکن ہے وہ آدمی میرے خلاف کوئی بات رکھتا ہو۔ وہ ایک ہفتے تک مسلسل آتا رہا ۔ اب میں اُس کے ساتھ عادی ہو گئی تھی اور جب وہ نہیں آتا تھا تو میں اُسے یاد کرتی تھی ۔ ایک شام وہ یہاں نہیں تھا ۔ میں نے اسے دیکھنے کے لیے اِدھر اُدھر کیفے میں چکر لگایا ۔ آخر کار وہ مجھے عقبی دروازے کے ساتھ بڑے ستونوں میں سے ایک کے قریب مل گیا ۔ وہ سرکس کی ایک خاتون کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔ یہ خاتون پیلے رنگ کا لباس زیب تن کیے ہوئے تھی اور اُس کے لمبے دستانے اس کی کہنیوں تک چڑھے ہوئے تھے ۔ وہ نوجوان تھی اور اس کی بڑی خوبصورت کالی آنکھیں تھیں، میری اپنی آنکھیں نیلی تھیں۔
میں وہاں تھوڑی دیر کے لیے رکی اور سُنا کہ وہ آپس میں کیا باتیں کر رہے تھے : وہ اسے کسی بات پر ملامت کر رہی تھی ۔ وہ اُس سے تھک چکی تھی اور اسے چلے جانے کو کہہ رہی تھی ۔ میں نے اپنے دل میں کہا: '' خدایا بھلا ہو! وہ میری طرف کیوں نہیں آتا؟''
اگلی شام وہ اپنے دونوں دوستوں کے ساتھ آیا اور میری ایک میز پر بیٹھ گیا ۔ مجھے پانچ میزوں پر گاہکوں کو خدمات پیش کرنی ہوتی تھیں ۔ میں اسے اُس طرح ملنے کے لیے نہ گئی جیسے کہ میں جایا کرتی تھی ۔ میں نے شرماتے ہوئے ظاہریہی کیا کہ میں نے اُسے دیکھا ہی نہیں ۔ پھر جب اُس نے مجھے متوجہ کیا تو اس کی جانب بڑھی ۔
'' تم کل یہاں نہیں تھے۔'' میں نے کہا ۔
'' ہماری ویٹرس کتنی پیاری اورنازک ہے، '' اُس نے اپنے ساتھیوں سے کہا ۔
'' بیئر؟'' میں نے پوچھا ۔
'' ہاں ''، اس نے جواب دیا ۔
اُن کے لیے بیئر کے تین بڑے مگ لانے کے لیے چلنے کی بجائے میں بھاگی ۔
چند دن گزر گئے ۔
اُس نے مجھے ایک کارڈ دیا اور کہا ۔۔۔۔ '' اسے اُس کو ۔۔۔۔''
اس سے پہلے وہ اپنا جملہ پورا کرتا میں نے اُس کے ہاتھ سے کارڈ لیا اور زرد رنگ کے لباس والی خاتون کے پاس لے گئی ۔ چلتے ہوئے میں نے اِس کارڈ پر درج اُس آدمی کا نام پڑھ لیا تھا، ولاڈیمئرز ٹایکس۔
میں جب کارڈ دے کرواپس آئی تو اس نے مجھے استفساری نگاہوں سے دیکھا ۔
'' ہاں، میں وہ دے آئی ہوں۔'' میں نے کہا ۔
'' اور وہاں سے کوئی جواب نہیں تھا؟'' اُس نے پوچھا ۔
'' نہیں۔''
'' پھر اُس نے مجھے ایک مارک دیا اور مسکراتے ہوئے بولا، '' کوئی جواب نہ ہونا بھی ایک جواب ہی ہے۔''
وہ ساری شام وہاں بیٹھا اُس خاتون اور اُس کے نگہبانوں پر نظریں جمائے گھورتا رہا ۔ گیارہ بجے کے قریب وہ اٹھا اور اُس خاتون کے میز پر جا پہنچا ۔ خاتون نے سرد مہری سے اُس کا استقبال کیا ۔ اُس کے دو ساتھوں نے اُس کے ساتھ کچھ گفتگو کی۔ بہرحال، انہوں نے اُس سے کچھ غیر مہربانہ سوالات کیے اور ہنسے۔ وہ وہاں کچھ ہی لمحے ٹھہرا اور پھر جب واپس آ گیا تو میں نے اُسے بتایا کہ اُس کی برساتی کوٹ کی ایک جیب میں بیئر انڈیل دی گئی ہے ۔ اُس نے اپنا برساتی کوٹ اتار دیا اور اچانک اسے اُلٹ دیا اور سرکس والی خاتون کے میز کی طرف واپس دیکھا ۔ میں نے اُس کے کوٹ کو خشک کیا تو اُس نے مجھے کہا ، '' تمہارا شکریہ، غلام۔''
میں نے جب اسے کوٹ پہننے میں مدد کی تو اس دوران میں نے چپکے سے اُس کی کمر پراپنا ہاتھ پھیرا ۔
وہ گہرے خیالوں میں گم بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کے ایک ساتھی مزید بیئر لانے کو کہا اور میں نے اس کے مگ میں بیئر بھرنے کے لیے اسے اٹھایا ۔ میں نے ٹایکس کا مگ بھی اُٹھانا چاہا۔
'' نہیں''، اس نے کہا اور میرے ہاتھ پراپنا ہاتھ رکھ دیا ۔
اُس کے یوں مجھے چھونے پر میں نے اپنا بازو پیچھے کر لیا اور یقیناً اُس نے اسے محسوس کیا کیونکہ اُس نے فوراً ہی اپنا ہاتھ واپس اٹھا لیا تھا ۔
رات کے وقت میں نے اپنے بستر کے قریب اپنے گھٹنوں پر جھک کر اُس کے لیے دعا کی اور اپنی خوشی اور چاہت میں اپنے دائیں ہاتھ کو چوما جسے وہ ایک بار چُھو چکا تھا ۔
ایک بار اُس نے مجھے پھول دیے ۔ بہت زیادہ پھول ۔ اُس نے یہ کیفے میں داخل ہونے سے پہلے دروازے کے قریب گلفروش لڑکی سے خریدے تھے ۔ پھول تروتازہ اور سرخ تھے اور لگتا تھا کہ اُس نے لڑکی کی ٹوکری میں رکھے کم و بیش سبھی پھول خرید لیے تھے ۔ اُس نے کافی وقت تک انہیں اپنے سامنے میز پر ہی پڑے رہنے دیا ۔ اُس کے دوستوں میں سے کوئی بھی اُس کے ساتھ نہیں تھا ۔ مجھے جب بھی وقت ملتا میں ایک بڑے ستوں کے پیچھے سے اُسے جھانکتی رہتی، '' ولاڈیمئرز ٹایکس اس کا نام ہے۔'' میں سوچتی ۔
کوئی ایک گھنٹہ گزر چکا ہو گا ۔ وہ بار بار اپنی گھڑی کو دیکھ رہا تھا ۔
'' کیا تم کسی کا انتظار کر رہے ہو؟'' میں نے اس سے پوچھا ۔
اس نے بے توجہی سے مجھے دیکھا اور پھر اچانک کہا ، '' نہیں کسی کی توقع نہیں کر رہا، مجھے کس کا منتظرہونا چاہیے؟''
''میں صرف سوچ رہی تھی کہ شاید تم کسی کا انتظارکر رہے ہو۔'' میں نے کہا۔
' اِدھر آؤ ''، اس نے جواب دیا ۔ '' یہ تمہارے لیے ہے۔''
اور اُس نے سارے پھول مجھے تھما دیے ۔
میں نے اُس کا شکریہ ادا کیا لیکن لمحہ بھر کے لیے میری آواز گم ہو گئی اور میں صر ف پُھسپھسا ہی سکی ۔ میری خوشی کی کوئی انتہا ہی نہ تھی ۔ اب میں اس ''بوفہ ٹیبل '' کے قریب کھڑی تھی جہاں سے میں گاہکوں کے لیے کھانابُک کرتی تھی ۔ میری سانس رکی ہوئی تھی ۔
'' تمہیں کیا چاہیے؟'' وہاں کی انچارج عورت نے پوچھا ۔
'' تمہارا کیا خیال ہے۔'' میں نے جواب دیا ۔
'' میرا کیا خیال ہےَ''، عورت نے کہا، '' کیا تم پاگل ہو؟''
'' بوجھو تو، میں نے یہ پھول کس سے لیے ہیں؟'' میں نے کہا ۔
'' تم نے اُس لکڑی کے ٹانگ والے آدمی کو ابھی تک بیئر نہیں پہنچائی۔ میں نے منیجر کو کہتے ہوئے سُنا ۔
'' یہ پھول میں نے ولاڈیمئرز سے لیے ہیں۔'' میں نے جلدی میں کہا اور بیئر لے کر چل دی ۔
ٹایکس ابھی گیا نہیں تھا ۔ اور جب وہ جانے کے لیے اُٹھا تو میں نے ایک بار پھر اُس کا شکریہ ادا کیا ۔ اس نے قدرے ہچکچاہٹ سے کہا، '' اصل میں یہ پھول میں نے کسی اور کے لیے خریدے تھے۔''
چلو، کچھ بھی تھا، شاید اُس نے یہ پھول کیسی اور ہی کے لیے خریدے ہوں لیکن ملے تو مجھے ہی نا، جس کسی کے لیے اُس نے خریدے تھے اس کی بجائے آخر وہ حاصل تو میں نے ہی کیے نا۔ اور پھر اُس نے مجھے شکریہ ادا کرنے کا موقع بھی تو دیا ۔ شب بخیرولاڈیمئرز ۔
اگلی صبح سے بارش تھی ۔ میں اپنا بلیک یا گرین لباس پہنوں، میں نے سوچا، گرین اچھا رہے گا ۔ یہ بالکل نیا ہے، میں یہی پہنوں گی ۔ میں بہت خوش تھی ۔
جب میں ٹرام کے سٹاپ پر پہنچی وہاں ایک عورت بارش میں کھڑی ٹرام کا انتظار کر رہی تھی ۔ اُس کے پاس چھتری نہیں تھی ۔ میں نے اسے اپنی چھتری کے نیچے آجانے کو کہا ۔ '' نہیں، تمہارا شکریہ ۔'' اس نے کہا ۔
میں نے بھی اپنی چھتری بندکر لی اور ٹرام کا انتظار کرنے لگی ۔ '' اب یہ عورت اکیلی نہیں بھیگ رہی۔'' میں نے سوچا ۔
اس شام ولاڈیمئرز کیفے میں آیا ۔
'' کل کے پھولوں کے لیے بیحد شکریہ''، میں بڑے فخر سے کہا ۔
'' کونسے پھول؟'' اُس نے پوچھا۔ '' میرے ساتھ اُن پھولوں کے متعلق بات مت کرو۔''
'' میں تو اُن کے لیے تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔'' میں نے کہا ۔
'' یہ تم نہیں، میں جس سے محبت کرتا ہوں، غلام!'' اُس نے اپنے شانے جھٹکتے ہوئے کہا ۔
یہ میں نہیں تھی وہ جس سے محبت کرتا تھا ۔۔۔۔ یقیناً نہیں۔ میں نے اس کی روق نہیں کی تھی اور میں بڑی مایوس ہو گئی تھی ۔ لیکن میں ہر رات اُسے دیکھتی رہی ۔ وہ میرے میز پر بیٹھتا ۔ کسی اور کے میز پر ہرگز نہیں ۔ اور یہ میں تھی جو اس کے لیے بیئر لاتی تھی ۔ خوش آمدید ولاڈیمئرز۔
اگل شام وہ دیر سے آیا ۔ '' کیا تمہارے پاس بہت سے پیسے ہیں، غلام؟ '' اُس نے پوچھا ۔
'' نہیں، مجھے افسوس ہے، میں تو ایک غریب لڑکی ہوں۔'' میں نے کہا ۔
پھر اس نے مجھے دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا، '' میرا خیال ہے تم نے مجھے غلط سمجھا ہے۔ مجھے کل صبح تک کچھ پیسوں کی ضرورت ہے۔''
'' میرے پاس کچھ پیسے ہیں ، میرے پاس گھر پر ایک سو تیس مارک رکھے ہیں ۔ میں نے کہا ۔
'' گھر پر، یہاں نہیں؟۔''
'' بس پندرہ منٹ تک انتظار کرو جب ہم کیفے بند کریں، میرے ساتھ چلنا پھر میں تمہیں دے دوں گی۔ میں نے جواب دیا ۔
اس نے پندرہ منٹ تک انتظار کیا اور پھر میرے ساتھ چل دیا ۔ '' صرف ایک سو مارک '' اس نے کہا اور میرے ساتھ چلتا رہا ۔ اس نے نہ مجھے خود سے آگے نکلنے کا موقع دیا اورنہ ہی پیچھے رہ جانے کا۔۔ ۔سارا وقت وہ برابر میرے ساتھ چل رہا تھا بالکل جیسے شریف آدمی اکثر کرتے ہیں ۔
'' میرے پاس صرف ایک چھوٹا کمرہ ہے۔'' جب ہم مکان کے دروازے پر پہنچے میں نے کیا ۔
'' میں اندر نہیں جاؤں گا۔'' اس نے کہا، '' میں یہیں انتظار کروں گا۔''
وہ وہیں انتظارکرتا رہا ۔
جب میں واپس آئی تو اُس نے پیسے گنے اور کہا، '' یہ تو ایک سو سے زیادہ مارک ہیں۔ میں تمہیں دس مارک بطور ''ٹپ'' دیتا ہوں، ہاں، ہاں، میری
بات سنو! میں تمہیں دس مارک بطور ٹپ دوں گا۔'' اور اس نے پیسے مجھے تھما دیے اور شب بخیر کہتا ہوا چلا گیا ۔ میں نے دیکھا کہ وہ گلی کے کونے پر ٹھہرا اوراُس نے وہاں بیٹھی ایک لنگڑی فقیر عورت کو ایک ایک سکّہ دیا ۔
اگلی شام اس نے فوراً کہا کہ اُسے افسوس ہے کہ وہ مجھے پیسے واپس ادا نہیں کر سکتا ۔ میں نے اس کا شکریہ ادا اور کہا کہ کوئی بات نہیں ۔ اس نے بے تکلفی سے اعتراف کیا کہ اُس نے سارے پیسے خرچ کر دیے ہیں ۔
'' کوئی کیا کہہ سکتا ہے، غلام؟'' اُس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ''تم جانتی ہو ۔۔۔۔ وہ زرد لباس والی خاتون۔''
'' تم ہماری ویٹرسز کو ''غلام '' کیوں کہتے ہو؟'' ، اُس کے ایک دوست نے پوچھا ۔ '' جتنی یہ غلام ہے تم اس سے کہیں زیادہ ہو۔''
'' بیئر؟ '' میں نے دخل دیتے ہوئے پوچھا ۔
تھوڑی ہی دیر بعد وہ رزد لباس والی خاتون میں بھی آگئی۔ ٹایکس اپنی جگہ اٹھا اور جھک گیا۔ وہ اتنا جھک گیا تھا کہ اس کے لمبے بال مڑکر اُس کے چہرے پر گر گئے تھے ۔ وہ خاتون اس کے قریب سے گزر کر ایک خالی میز پر جا بیٹھی ۔ اس کے سامنے دو کرسیاں خالی پڑی ہوئی تھیں ۔ ٹایکس فراً اس کے پاس پہنچا اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا ۔ دو منٹ بعد وہ وہاں سے اُٹھا اور اُونچی آواز میں بو، '' بہت اچھا، میں چلتا ہوں اور میں کبھی واپس نہیں آؤں گا ۔''
'' تمہارا شکریہ۔'' خاتون نے جواباً کہا ۔
میں خوشی سے شَل ہوگئی اور '' بُفے ٹیبل '' کی جانب بھاگ کر وہاں دوسروں کو کچھ کہا ۔کسی شک کے بغیر میں نے انھیں بتایا کہ اب وہ زرد لباس والی کے پاس کبھی واپس نہیں جانے والا ۔ مینیجر نے گزرتے ہوئے رک کر مجھے ترش لیجے میں ڈانٹ پلائی لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی ۔
رات بارہ بجے جب کیفے بند ہوا ۔ ٹایکس میرے دروازے تک میرے ساتھ آیا ۔
'' وہ دس مارک جو میں نے تمہیں کل دیے تھے، ان میں سے پانچ۔'' اس نے کہا ۔
'' میں نے اُسے پورے دس مارک دینے چاہا اور اُس نے وہ لے لیے، لیکن پانچ مارک مجھے واپس کر دیے ۔ وہ میرے کسی اعتراض یا التجا کو سننا ہی نہیں چاہتا تھا ۔
:'' میں آج شب بہت خوش ہوں''، میں نے کہا ۔ کاش میں تمہیں اوپر آنے کے لیے کہنے کہ ہمت کر سکتی ، لیکن میرے پاس تو صرف ایک چھوٹا سا کمرہ ہے'۔''
نہیں، میں اوپر نہیں جاؤں گا''، اس نے کہا، '' شب بخیر۔''
وہ چلا گیا ۔ وہ اُسی لنگڑی بوڑھی بھکارن کے پاس سے گزرا لیکن اسے کچھ دینا بھول گیا اگرچہ اُس نے اُسے پکارا بھی ۔ میں بھاگ کراُس بھکارن کے پاس پہنچی اور اُسے کچھ دیتے ہوئے کہا، '' یہ اُس آدمی کی طرف سے ہے جو ابھی ابھی یہاں سے گزرا ہے، وہ بھلا مانس جس نے خاکستری کوٹ پہنا ہوا تھا۔''
'' وہ بھلا مانس خاکستری کوٹ والا؟ '' عورت نے پوچھا ۔
'' وہ جس کے کالے بال ہیں، ولاڈیمئرز۔'' میں نے کہا ۔
''کیا تم اُس کی بیوی ہو؟''
''نہیں، میں اس کی غلام ہوں۔'' میں نے جواب دیا ۔
مسلسل کئی شام محفل میں وہ یہی بات دہراتا رہا کے اُسے بیحد افسوس ہے کہ ُاس نے ابھی تک مجھے میرے پیسے واپس ادا نہیں کیے۔ میں نے اس سے اس کی منت کی کہ وہ اس کا ذکر نہ کرے ۔ وہ اتنی اونچی آواز میں بولتا کہ ہر کوئی اُس کی آواز سنتا اور بیشتر اُس پر ہنستے ۔
'' میں ایک لُچا اور بدمعاش ہوں '' ، اس نے کہا، '' میں نے تم سے ادھارپیسے لیے اور اب میں واپس ادا نہیں کرسکتا ۔ میں اپنا دایاں ہاتھ کاٹ پچاس مارک کے نوٹ کے لیے کاٹ دوں گا ۔''
یہ الفاظ سُن کر مجھے بڑا رنج ہوا اور حیران تھی کہ اُسے کس طرح پیسے دے سکتی تھی اگرچہ میں جانتی تھی کہ میں ایسا نہیں کر سکتی تھی ۔
وہ ابھی تک مجھ سے مخاطب تھا، '' اگر تم مجھ سے پوچھو کہ اس صورتحال کے برعکس کچھ اور ہے تو لو سنو، میں تمہیں بتاسکتا ہوں کہ وہ زرد لباس والی خاتوں اپنے سرکس کے ساتھ کوچ کر گئی ہے ۔ میں اُس کو بھول چکا ہوں ۔ وہ اب مجھے مزید یاد نہیں رہی۔''
''اور اِس کے باوجود تم نے آج بھی اُسے ایک خط لکھا ہے''، اس کے دوستوں میں سے ایک نے کہا ۔
'' یہ آخری تھا ''،ولاڈیمئرز نے جواب دیا ۔
میں نے گلفروش لڑکی سے گلاب کا ایک پھول خریدا اور اُس کے کوٹ کے بائیں بٹن والے سوراخ میں اَٹکا دیا ۔ جب میں ایسا کر رہی تھی تو مجھے اپنے ہاتھوں پر اس کی سانسیں محوس ہو رہی تھیں اور مجھے پھول اٹکانا مشکل ہو رہا تھا ۔
''شکریہ''، اُس نے کہا ۔
میں نے ڈیسک مینیجر سے چند مارک مانگے ان کے ذمے ابھی تک میرے کچھ پیسے باقی تھے ۔ میں نے وہ پیسے اُسے دے دیے ۔ یہ ایک بہت چھوٹی سے بات تھی ۔
'' شکریہ''، اس نے دوبارہ کہا ۔
جب تک ولاڈیمئرز اچانک نہ بول پڑا میں ساری شام بہت خوش رہی، '' ان پیسوں کے ساتھ میں ایک ہفتہ کے لیے جا سکتا ہوں۔ میں جب واپس آؤں گا تمہیں تمہارے پیسے مل جائیں گے''۔ جب اُس نے دیکھنا چاہا میں وہاں سے ہٹ گئی تھی ۔ '' یہ تم ہو، تم، میں جس سے محبت کرتا ہوں''، اس نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ تھام لیا تھا ۔
میں الجھن میں تھی کہ وہ جا رہا ہے لیکن یہ بتائے بغیر کہ کہاںجا رہا ہے حالانکہ میں نے اُس سے پوچھا بھی تھا۔ مجھے ہر ایک شے، سارا ریسٹورنٹ اور سارے فانوس اور تمام مہمان گاہک اپنے سامنے گھومتے ہوئے دکھائی دیے ۔ میں یہ سب کچھ برداشت نہ کر سکی اور میں نے اُس کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔'' میں ایک ہفتے کے بعد دوبارہ تمہارے ساتھ ہوں گا۔'' اُس نے کہا ، اور اچانک اُٹھ کھڑا ہوا ۔ میں نے مینیجر کی آواز سنی ، '' تم کوجانا ہو گا، تمہارا کام ختم ۔''
ٹھیک ہے، میں نے سوچا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا! ایک ہفتے میں ولاڈیمئرز واپس لوٹ آئے گا اور میرے ساتھ ہو گا! میں اس کے لیے اُس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے پلٹی ۔ وہ جا چکا تھا ۔
ایک ہفتے بعد جب میں ایک رات گھر پہنچی تو مجھے اُس کی جانب سے ایک خط ملا ۔ اس نے یہ خط بڑی شکستہ دلی سے لکھا تھا ۔ اُس نے مجھے لکھا تھا کہ وہ زرد لباس والی خاتون کو تلاش کرنے گیا ہے ، وہ مجھے کبھی میرے پیسے واپس ادا نہیں کر سکے گا، اور وہ بڑی تنگ دستی میں مبتلا ہے۔ پھر اس نے دوبارہ خود پر الزام لگاتے ہوئے اور خود کو برا بھلا کہتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ ایک نیچ نا پسندیدہ روح ہے ۔ اور پھر خط میں ایک نوٹ کے طور پر اُس نے لکھا تھا ، '' میں اُس زرد لباس والی خاتون کا غلام ہوں ۔''
میں رات دن رنجیدہ رہتی اور کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی ۔ ایک ہفتے کے بعد میری ملازمت بھی جاتی رہی اور میں نے نئے کام کی تلاش شروع کردی ۔ دن کے وقت میں دوسرے کیفوں اور ہوٹلوں میں کام کے لیے درخواستیں دیتی ۔ میں نے کئی ایک پرائیویٹ گھروں کے دروازوں کی گھنٹیاں بھی بجائیں اور اپنی خدمات پیش کیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، سب کچھ بیکار و فضول رہا ۔ شام گئے میں دن کے اخبارات آدھی قیمت پر خریدتی اور گھر جاکر اشتہارات کے کالم پڑھتی ۔ میرا خیال تھا کہ شائد میں کوئی ایسا کام تلاش کر لوں جو ولاڈیمئرز اور مجھے، ہم دونوں کو بچا سکے ۔۔۔۔
گزشتہ رات میں نے اُس کا نام اخبار ات میں دیکھا اور اُس کے بارے میں پڑھا ۔ اس کے بعد میں سیدھی باہر نکل گئی، گھر سے باہر، گلیوں میں چکر لگاتی رہی اور پھر صبح کو واپس لوٹ آئی۔ ہو سکتا ہے میں کہیں یہاں وہاں سو بھی گئی ہوں گی ، یا کہیں اس لیے ٹھہر گئی ہوں گی کہ مجھ میں چلنے کی سکت نہیں رہی ہوگی ۔ مجھے اب کچھ بھی یاد نہیں تھا ۔
میں نے اسے آج دوبارہ پڑھا ہے۔ لیکن یہ تو کل رات تھی جب میں گھر آئی تھی اور اسے پہلے پڑھا تھا ۔
پہلے میں نے اپنے ہاتھ جوڑے، پھر میں ایک کرسی پر بیٹھی اورتھوڑی دیر بعد وہاں سے میں فرش پر بیٹھ گئی اور کرسی کی جانب جھک گئی اور سوچنے لگی، میں نے فرش کو اپنی ہتھیلیوں سے پیٹا ۔ شائد مجھے احساس نہیں تھا یا خیال ہی نہیں آیا تھا لیکن میرے سر کی حالت یوں تھی کہ جیسے اس میں کوئی سوراخ ہو رہا ہو لیکن مجھے کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا ۔ شائد یہی لمحہ تھا جب میں اٹھی اور باہر چلی گئی ۔ باہر گلی کی نکڑ پر، مجھے یاد ہے، میں نے بوڑھی بھکارن کو ایک پینی کا سکّہ دیا ۔ '' یہ خاکستری کوٹ والے اُس شریف آدمی کی طرف سے ہے، تمہیں یاد ہے نا ؟ '' میں نے کہا۔
'' شائد تم اُس کی منگیتر ہو؟'' اُس نے پوچھا ۔
''نہیں، میں اُس کی بیوہ ہوں ۔۔۔۔ '' میں نے جواب دیا ۔
پھر میں رات بھر اگلی صبح تک گلیوں میں آوارہ گردی کرتی ۔۔۔ چکر لگاتی رہی ۔ اور اب میں نے اِسے دوبارہ پڑھا ہے۔
ولاڈیمئرز ٹایکس اس کا نام تھا ۔۔
نوٹ: نصر ملک صاحب نے یہ افسانہ براہِ راست
نارویجین زبان سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
Written by:Knut Hamsun (August 4, 1859 – February 19, 1952) was a major Norwegian writer, who was awarded the Nobel Prize in Literature in 1920
No comments:
Post a Comment