Enjoy intersting short stories

Monday, 28 May 2018

POST MAN


🌸   ڈاکیا   🌸
تحریر۔ راجہ ابرار حسین عاجز

               وہ جزیرہ  شھر سے دور پہاڑوں اور سمندر میں گھرا ھوا تھا ۔ سمندر  کھاڑی کی شکل میں جزیرے کے اندر تک آ گیا تھا۔ کھاڑی کے ایک طرف کچھ آبادی تھی۔ جبکہ دوسری طرف پہاڑیوں کا  سلسلہ تھا۔ پہاڑی سلسلے کی دوسری طرف ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔
            اس جزیرے کی آبادی شائید دو سو کے لگ بھگ تھی۔ لوگوں کی آمدو رفت کشتیوں کے ذریعے ھوتی۔ اپنی ضرورت کی اشیاء لینے کے لیۓ جزیرے کے مکینوں کو پہاڑی کی دوسری طرف موجود قصبے میں جانا پڑتا تھا۔ ھنری اس جزیرے کا واحد  ڈاکیا تھا۔ جزیرے کے لوگوں کی ڈاک  لانا اور  لے جانا ۔ ڈاک بانٹنا ۔سب کام وہ خود ھی کیا کرتا۔ وہ سرکاری ملازم نہیں تھا ۔گورنمٹ وھاں کوئ ڈاکیا نہیں رکھنا چاھتی تھی ۔ کیونکہ ڈاک کی ترسیل کے اخراجات بہت زیادہ تھے ۔ اور ڈاک بہت کم ہوتی تھی ۔ ہنری نے اپنے آپ کو اس کام کےلیۓ پیش کر دیا تھا۔ سرکار کی طرف سے اسے بہت معمولی مشاھرہ دیا جاتا۔لیکن ھنری اس کام سے خوش اور مطمئن تھا۔
           ھنری پینسٹھ سال کا ایک بوڑھا آدمی تھا۔ اتنی عمر کے با وجود اس کی ہمت اور طاقت جوانوں کی طرح تھی ۔ اس کا  سفید رنگ چمکدار تھا۔بڑی سی الجھی ہوئ داڑھی جس کے سارے بال سفید ھو چکے تھے۔ سر کے بال گھنگھریالے تھے۔اور بالوں میں ابھی کسی کسی جگہ ہلکی سی سیاھی دکھائ دے جاتی تھی۔ اس کے ھاتھ پاؤں مضبوط تھے ۔ جزیرے کی آب و ھوا  تبدیل ھوتی رھتی تھی ۔۔ عموماً گہرے بادل چھاۓ رھتے ۔ اور دن میں ایک آدھ بار بارش بھی ھو جاتی۔ بارش کے بعد ھوائیں چلنا شروع ھو جاتیں۔ اور موسم دلفریب ھو جاتا۔ سال کے زیادہ تر حصے میں سردی پڑتی۔
             ھنری کا گھر سمندر سے تھوڑی فاصلے پر ایک چٹان پر بنا ھوا تھا۔ گھر لکڑی اور پتھروں سے بنا ھوا تھا۔ چھت ، دیواریں۔کھڑکیاں اور دروازہ سب اس نے خود ھی بنا لیۓ تھے۔  ایک کھڑکی سمندر کی طرف کھلتی تھی ۔ ھنری شام سے زرا پہلے کھڑکی کے پاس بیٹھ جاتا اور سمندر کی طرف دیکھتا رھتا۔ سمندر سے آنے والی ٹھنڈی ھوا سے اس کے بال لہراتے رھتے۔دور  سمندری بگلے اڑتے ھوۓ نظر آتے۔ بگلے غوطہ لگا کر مچھلیاں پکڑتے اور دوبارہ  فضا میں اڑان بھر جاتے ۔ ان کو دیکھنا اور انکی کیں کیں کی آوازوں کو سننا ھنری کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ کافی دیر بیٹھنے اور سمندر کا نظارہ کرنے کے بعد جب تھک جاتا تو کھڑکی بند کرتا اور سونے کے لیۓ چلا جاتا۔
       ہنری اس گھر میں اکیلا رھتا تھا ۔ برسوں پہلے اس کی بیوی مر گئ تھی ۔ اس کے مرنے کے بعد ھنری کے بس دو کام رہ گۓ تھے ۔ جزیرے کے لوگوں کی ڈاک اکٹھی کرنا اور منزل پر پہنچانا۔۔اور واپس آ کر کھانا کھانے کے بعد کھڑکی کے سامنے بیٹھ جانا۔ کبھی وہ اپنے لکڑی کے کیبن سے باھر نکل آتا ۔ سمندر کے پانی کے قریب پتھروں پر بیٹھ  کر چھوٹے چھوٹے روڑے پانی میں پھینکتا رھتا۔ اس سمندر کے ساحل پر ریت کم تھی اور پتھر زیادہ تھے۔ سمندر اس جگہ زیادہ گہرا نہیں تھا۔یہاں سمندر ایک کھاڑی کی شکل میں جزیرے کے اندر تک آ گیا تھا۔کھاڑی کی دوسری طرف پہاڑوں کا ایک سلسلہ دور تک پھیلا ھوا تھا۔ یہ خشک اور بنجر پہاڑ تھے ۔ اور ان کا رنگ سیاھی مائل تھا۔ شام کے وقت پہاڑ  ، پانی اور پانی پر منڈلاتے ھوۓ سمندری بگلے  مسحور کن منظر پیش کرتے ۔ ھنری ان مناظر سے دیر تک لطف اندوز ھوتا رہتا۔
           ھنری کے گھر کے باھر ایک ڈبہ لٹکا ھوا تھا۔ یہ ھنری کا لیٹر بکس تھا۔ جزیرے کے لوگ اپنے خط اس ڈبے میں ڈال دیتے۔ ھنری دوسرے دن وہ خط نکالتا ۔ پہاڑیوں کی دوسری طرف قصبہ تھا۔ ڈاک وھاں تک پہنچانی ھوتی تھی ۔ ھنری اپنی کشتی نکالتا اور چپوؤں سے کشتی کو دھکیلنا شروع کر دیتا۔ دوسرے کنارے پر پھنچنے کے بعد وہ ڈاک کا تھیلا نکالتا ۔ اور ایک مخصوص جگہ پر کھڑا ھو جاتا۔ اس کا کام بس یہیں تک تھا۔ اس سے آ گے مارتھا کا کام شروع ھو جاتا۔۔مارتھا لگ بھگ پچاس سال کی تھی۔ اس کی صحت قابل رشک تھی ۔ وہ پہاڑوں کے بیچوں بیچ بنی ھوئ سڑک پر سائیکل چلاتی ھوئ آتی۔ ھنری کے پاس پہنچ کر سائیکل سے اترتی ۔ اس کے چہرے پر ایک مہربان سی مسکراھٹ ھوتی ۔۔ وہ ھنری کا حال پوچھتی ۔ اس سے ڈاک لیتی ۔۔ اگر کوئ خط دینے والا ھوتا تو ھنری کے حوالے کرتی ۔پھر اپنی سائیکل پر بیٹھ کر آگۓ روانہ ھو جاتی۔ ھنری کھڑا اسے دیکھتا رھتا ۔جب اس کی سائیکل پہاڑوں میں اوجھل ھو جاتی ۔ تو ھنری بھی واپسی کی راہ لیتا ۔
           کل جب مارتھا نے ھنری سے ڈاک لی تو ایک چھوٹا سا پیکٹ ھنری کے ھاتھ میں تھما دیا۔ اس میں رنگ بھری ٹافیاں تھیں۔ ھنری کے چہرے پر مسکراھٹ بکھر گئ۔ اس نے مارتھا کا شکریہ ادا کیا ۔ ایک ٹافی منہ میں ڈال لی ۔ دونوں تھوڑی دیر کھڑے رھے اور اس کے بعد مارتھا چلی گئ۔
          آج ھنری  بہت خوش لگ رھا تھا۔ ٹافیاں منہ میں رکھتے وقت  با ر بارمارتھا کا چہرہ اس کی نگاھوں کے سامنے پھر جاتا۔ شام کو وہ باھر نکلا اور سمندر کے کنارے پتھروں پہ چلنا شروع کر دیا۔ اس کی نگاھیں زمین پر جمی ھوئیں تھیں۔ اسے کسی ایسی چیز کی تلاش تھی جو وہ اگلے روز مارتھا کو دیتا۔ اس نے کئ پتھروں کو اٹھا کر بغور دیکھا۔ لیکن کوئ بھی اسے پسند نہیں آ رھا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مارتھا کو ایسا ھی کوئ خوبصورت پتھر دینا چاھیے۔ جیسی خوبصورت وہ خود تھی۔ نیلی آنکھوں والی مارتھا شائید ھنری کے بوڑھے دل کو گد گدانے لگی تھی ۔ تلاش کرتے کرتے ھنری کو ایک گول سفید رنگ کا پتھر نظر آگیا۔ ھنری نے محسوس کیا کہ یہ پتھر مارتھا کو دینے کے لیۓ مناسب ھے۔ھنری نے پتھر اٹھا کر جیب میں ڈال لیا ۔ اور سرشاری کی ایک کیفیت میں واپس اپنے کیبن میں آگیا۔
           دوسری صبح ھنری  جاگا  اور جانے کی تیاری شروع کر دی ۔ آج دینے کیلیۓ کوئ ڈاک نہ تھی۔ لیکن ھنری کو تو جانا ھی تھا۔ وہ اپنی کشتی کھیتا ھوا دوسرے کنارے تک پھنچا اور چلتا ھوا اپنی جگہ پہنچ گیا۔ سفید پتھر اس کی جیب میں تھا۔ اس نے پتھر کو نکال کر دیکھا اور پھر جیب میں ڈال لیا ۔ اس پر خوشی اور مسرت کی کیفیت طاری تھی ۔ اس کے بال ھوا میں لہرا رہے تھے۔ اس نے پرانا سا  اوور  کوٹ پہن رکھا تھا اور گلے میں مفلر لپیٹ رکھا تھا ۔ دھوپ کے باجود ھوا میں خنکی تھی ۔ پھر پہاڑی کی اوٹ سے مارتھا کی سائیکل نمودار ھوئ ۔ آہستہ آہستہ سائیکل قریب پہنچی ۔ مارتھا نے   سایکل روکی اور نیچے اتر کر ھنری کے پاس آئ۔
"""کیسے ھو ھنری ۔ لاؤ مجھے ڈاک دے دو"  ھنری بولا"" آج جزیرے سے کوئ ڈاک نہیں ھے ۔کیا تم کوئ خط لائ ھو مارتھا""""""
"""""ھاں آج ایک خط ھے جو تمھارے نام ھے ""
مارتھا نے خط ھنری کے ھاتھ میں تھما دیا۔ ھنری نے وہیں کھڑے کھڑے خط کھولا اور پڑھنا شروع کر دیا۔خط دو لائینوں پر مشتمل تھا۔ خط میں معلوم نہیں ایسی کیا بات لکھی تھی کہ پڑھتے ھی ھنری کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ مارتھا نے محسوس کیا کہ کوئ اچھی خبر نہیں ھے۔۔۔اس کے پوچھنے پر ھنری نے بتایا"""
"حکومت نے جزیرے کے لیۓ ڈاک سروس بند کر دی ھے ۔ اور لکھا ھے کہ  بطور پوسٹ مین ھنری کی خدمات کی مزید ضرورت اب نہیں رہی۔""
مارتھا تھوڑی دیر تک گم صم کھڑی رہی۔ھنری بھی خاموش کھڑا رہا۔مارتھا کو سمجھ نہیں آرھی تھی کہ وہ کیا بولے۔۔چند لمحوں بعد وہ آہستہ سے اپنی سائیکل کی طرف بڑھی اور سر جھکاۓ  ھاتھ سے کھینچتی ھوئ سڑک پر آگے بڑھ گئ۔ ھنری کے قریب سے گزرتے ھوۓ اس نے دیکھا ۔ ھنری کی آنکھوں میں ھلکی سی نمی آگئ تھی۔ مارتھا نے سر جھکا کر اس کا کاندھا تھپتھپایا اور آہستگی سے آگۓ بڑھ گئ۔۔ھنری اسے جاتا ھوا دیکھتا رہا ۔ جب مارتھا نظروں سے اوجھل ھو گئ تو ھنری بھی جزیرے کی جانب کشتی پر لوٹنے لگا۔ آج اس سے چپو نہیں چلاۓ جا رھے تھے۔ اس کی نظریں دور پہاڑوں پر جمی ھوئ تھیں ۔ اور دونوں ھاتھ الٹے سیدھے چپو چلانے میں مصروف تھے۔ اسے یک لخت ھی دنیا ایک ویران اور ڈراونی  سی لگنے لگی تھی ۔ اس کا دل ایک سخت پتھر کی طرح ھو گیا ۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کا دل دھڑکنا چھوڑ دے گا۔ اس کا جھریوں سے اٹا ھوا چہرہ تن گیا تھا ۔ اور آنکھیں پتھرا سی گئ تھیں ۔ اسے اب جا کر علم ھوا کہ مارتھا کے ساتھ روزانہ چند لمحوں کا تعلق کس قدر گہرا تھا ۔ اس نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ منہ ھی منہ میں بڑ بڑا رھا تھا
       "" ۔  بوڑھے ! اس عمر میں ایسی باتیں اچھی نہیں ھیں۔ اور مارتھا کے ساتھ اس کا تعلق بہت مختصر رھا ھے ۔ اس لیۓ اب اگر اس سے ملنا بند ھو چکا تو اس پر زیادہ پریشان ھونا ٹھیک نہیں۔ ۔ اور پھر شائید مارتھا کو بھی معلوم نہیں ھو گا کہ میں اس کے بارے میں کن خیالات میں مبتلا ھو چکا ھوں۔""
بوڑھا ھنری خیالوں میں الجھا ھوا کنارے تک پہنچ آیا۔ اپنے قدم گھیسٹتے ھوۓ وہ کیبن تک پھنچا ۔ ایک چوڑے سے لکڑی کے تختے پر اس نے لکھا ۔""  آئیندہ ڈاک سروسز بند ھو گئ ھے"" تختے کو لکڑی سے باندھ گھر کے باھر نصب کر دیا ۔
      واپس کیبن میں آیا۔ اور بے جان سا ھو کر بستر پر گر گیا۔ اس میں ھلنے جلنے کی طاقت ختم ھو چکی تھی۔ ھاتھ پاؤں ساکت تھے۔ صرف سانس چل رہی تھی ۔ اور دل دھڑک رہا تھا۔ اس کی دھڑکن ڈوب رہی تھی ۔ اس نظریں کھڑکی کے شیشے پر چپک گئ تھیں۔ باھر سمندری بگلوں کی کیں کیں کی آوازیں آ رہی تھی ۔ اس کے کان یہ آوازیں سن رھے تھے۔ لیکن وہ چپ چاپ لیٹا رھا۔ اس میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ کھڑکی کے پاس جاتا اور سمندر سے لطف اندوز ھو سکتا۔
  صبح جزیرے والے جب ڈاک دینے آۓ تو انھوں نے دیکھا کہ ڈاک خانہ بند ھونے کا بورڈ لگا ھوا ھے ۔ اور ھنری بھی کہیں نظر نہیں آ رھا۔ انھوں نے کیبن میں جاکر ھنری کو دیکھنے کا فیصلہ کیا ۔ کیبن میں پہنچے تو ان کی آنکھیں حیرت اور خوف سے چھپکنا بھول گئیں۔ ھنری کا جسم اوندھا پڑا تھا اور وہ مر چکا تھا۔ لوگوں نے اس کا جسم سیدھا کیا۔  اس کے پاوں سے جوتے اتارے ۔ اسکی آنکھوں اور کھلے ھوۓ منہ کو بند کیا۔ اسکی ایک  مٹھی زور سے بھنچی ھوئ تھی ۔ ایک آدمی نے زور لگا کر اسکی مٹھی کھولی ۔ لوگوں نے دیکھا کہ بوڑھے ھنری کی مٹھی کھلتے ھی ایک سفید رنگ کا گول سا پتھر مٹھی سے نکل کر زمین پر گر گیا تھا۔۔۔۔
The End

Friday, 4 May 2018

صوبیدار خدا داد خان۔۔۔آف ڈب ضلع چکوال


                                                   صوبیدار خدا داد خان۔۔۔آف ڈب ضلع چکوال   



تحقیق وتحریر= راجہ ابرار حسین عاجز

اگر ھم اسلام آباد سے لاھور کی طرف موٹر وے پر سفر کر رہے ھوں تو بلکسر انٹر چینج کے بلکل ساتھ ھماری نظر ایک بورڈ پر پڑتی ھے۔۔۔۔اس بورڈ پر لکھاھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
well come to Dabb
village of Subedaar Khuda dad khan
The first muslim receipient of victoria cross
22 km
                 یہ صوبیدار خدا داد خان کا ھلکا سا تعارف ھے۔۔۔جن کو برطانیہ کی طرف سے پہلی جنگ عظیم میں بہادری کا کارنامہ دکھانے پر وکٹوریہ کراس دیا گیا۔۔۔وکٹوریہ کراس   برطانیہ کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ھے۔۔
           خدا داد خان 20 اکتوبر 1888 میں چکوال کے ایک گاؤں ڈب میں پیدا ھوا۔۔اس کا تعلق ایک راجپوت گھرانے سے تھا۔ فوج میں  سپاھی بھرتی ھونے پر  خدا داد خان کو جس بٹالین میں بھیجا گیا اس کا نام تھا
129 Duke of Connaught's Own Baluchis, British Indian Army
آج کل پاکستان میں اس بٹالین کو
11th Battalion۔۔ The Baloch Regiment of Pakistan Army
کہا جاتا ھے۔
                 خدا داد خان کے فوج میں جانے کے کچھ عرصہ بعد پہلی جنگ عظیم چھڑ گئ۔۔پہلے پہل یہ جنگ ۔۔۔۔آسٹریا ھنگری اور سربیا کے درمیان تھی ۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں 32 ملک شامل ھو گۓ۔ ایک طرف اتحادی فوجیں تھیں جن میں برطانیہ فرانس اٹلی امریکہ اور روس کی افواج تھیں۔ جبکہ ان کے مقابلے میں جرمنی بلغاریہ۔آسٹریا۔ھنگری اور خلافت عثمانیہ کی افواج تھیں
              1914 میں شروع ھونے والی اس  عالمی جنگ میں حصہ لینے کیلۓ خدا داد خان کی بٹالین فرانس پہنچ گئ۔۔خدا داد خان اس وقت ایک سپاہی اور مشین گن آپریٹر تھا۔جرمن فوجیں بیلجیم اور فرانس کی طرف پیشقدمی کر رہی تھیں۔۔جرمن چاھتے تھے کہ وہ فرانس اور بیلجیم کی دو اہم بندر گاہوں پر قبضہ کر لیں۔ یہ فرانس کی بندر گاہ Boulogne
اور بیلجیم کی بندر گاہ Nieuport تھی۔ ان بندر گاہوں پر قبضے کیلۓ جو جنگ لڑی گئ اس کو
                                    ۔ First battle of Ypres کہا جاتا ھے۔ برطانوی د ستے اس محاذ پر شدید دباؤ کا شکار تھے۔۔129 بلوچ رجمنٹ کو فوری طور اس جنگ میں بھیج دیا گیا-  Gheluvelt
 نامی گاوں کے قریب   Hollebeke سیکٹر میں جرمن دستوں اور بلوچ رجمنٹ کی دو کمپنیوں کا آمنا سامنا ھوا۔
         بلوچ بڑی بہادری سے لڑے۔ اس فوج میں مشین گنوں کے دو گروپ تھے۔۔۔جو مسلسل فائرنگ کر رھے تھے ایک گروپ میں سپاھی خدا دادخان تھا۔۔جرمنوں نے اپنا  پورا زور اس جنگ میں لگا ڈالا۔۔شدید گولا باری سے بلوچ رجمنٹ کے زیادہ تر سپاھی مر گۓ یا شدید زخمی ھوگۓ۔۔بلوچوں کی ایک مشن گن توپ کا گولا لگنے سے خاموش ھو گئ ۔ وہاں تمام سپاھی مر چکے تھے۔۔۔۔لیکن دوسری مشن گن سے مسلسل فائرنگ جاری تھی۔۔
  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔      یہ خدا داد خان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
              اس کے تمام ساتھی مر چکے تھے اور    خدا  داد خان بھی شدید زخمی ھو چکا تھا۔لیکن اس نے فایرنگ جاری رکھی ۔۔۔۔اور اکیلا جرمن فوج کے سامنے ڈٹا رہا۔
      اب رات ھو چکی تھی اور دوسری مشین گن بھی خاموش ھوگئ۔۔۔جرمن فوج نے سمجھ لیا کہ یہ سپاہی بھی مر چکا ھے۔۔۔۔مگر خدا داد خان زندہ تھا۔وہ رینگتا ھوا پیچھے موجود اپنی رجمنٹ میں پہنچ گیا۔۔۔۔
              پورا دن جرمن فوج آگے نہ بڑھ پائ تھی۔جس کا نقصان ان کو یہ ھوا۔کہ برطانیہ اور ھندوستان کی تازہ دم فوج اس محاذ پر پہنچنے میں کامیاب ھو گئ۔
          خدا داد خان کو انگلینڈ بھیج دیا گیا ۔اور وہ تین ماہ ھسپتال میں زیر علاج رہا۔جنگ کے اختتام پر برطانیہ کے بادشاہ  جارج پنجم  نے سپاہی خدا داد خان کو وکٹوریہ کراس کے اعزاز سے نوازا۔۔۔وکٹوریہ کراس انگلینڈ کا سب سے بڑا فوجی نشان ھے۔جو اس فوجی کو دیا جاتا ھے جس نے بہادری کا حیرت انگیز کارنامہ سر انجام دیا ھو۔۔۔خدا داد خان برصغیر کا پہلا سپاہی تھا جس کو یہ اعزاز دیا گیا۔
  خدا داد خان فوج سے بطور صوبیدار ریٹائر ھوا۔۔۔فوج کی طرف سے اس کو منڈی بہاالدین میں زمین الاٹ کی گئ۔۔۔۔1971 میں صوبیدار خدا داد خان انتقال کر گیا۔۔۔۔اس کا اعزاز وکٹوریہ کراس اس کے آبائ گاوں ڈب ضلع چکوال میں اس کے گھر میں رکھا ھے۔ آرمی میوزیم راولپنڈی میں خداد داد خان کا مجسمہ نصب ھے۔۔1916 میں خدا دادخان پر ایک ڈرامہwipers  بھی بنایا گیا
ھائیڈ پارک لندن کے میموریل گیٹ پر خدا داد خان کا نام کندہ کیا گیا ھے۔
اس کے علاوہ خدا داد خان کو مندرجہ ذیل فوجی اعزازات بھی ملے۔

1- 1914 Star + clasp "5th Aug - 22nd Nov

2- 1914"British War Medal

3- ( 1914-19 )Victory Medal

 4- 1914-20 )India General Service Medal

5 - ( 1908-1935 )1 clasp:"Afghanistan NWF 1919"General Service Medal  

6-1918-1962 )1 clasp:"Iraq"

7-King George V Silver Jubilee Medal ( 1935 )

8-King George VI Coronation Medal(1937 )

9- Queen Elizabeth II Coronation Medal

Thursday, 29 March 2018

k2 the savage mountain ....قاتل پہاڑ

                                                            قاتل پہاڑ   K-2      

1-اگست 2008 کو    کے -ٹو چوٹی کو سر کرتے ھوۓ کوہ پیمائ کی تاریخ  کا سب المناک حادثہ رونما ھوا۔یہ اسی کی روداد ھے۔ 
                 
                     کے ٹو k-2 دنیا کی دوسری بڑی پہاڑی چوٹی ھے۔یہ پاکستان کے شمالی  علاقوں کے پہاڑی سلسلے   کوہ قراقرم میں واقع ھے۔اسکی بلندی 8611 میڑ ھے۔۔
                       کوہ پیماؤں کا کہنا ھے کہ ماونٹ ایورسٹ کے مقابلے میں کے ٹو پہاڑ  پر چڑھنا اور اسے سر کرنا زیادہ مشکل ھے۔  کے ٹو کو پہاڑوں کا پہاڑ ۔ یا کبھی وحشی پہاڑ   savage mountain بھی کہتے ھیں۔۔۔ ماونٹ ایورسٹ کو آج تک لگ بھگ تین ھزار بار سر کیا جا چکا ھے۔اس کے مقابلے میں کے ٹو کو تین سو بار سر کیا گیا ھے۔۔
                         کے ٹو کو ایک انگریز  جغرافیہ دان  Godwin Austen نے دریافت کیا۔لہذا اس  انگریز کے نام پر اس چوٹی  کا نام Godwin Austen رکھا گیا۔۔مگر یہ کے ٹو کے نام سے ھی مشہور ھے۔ کے ٹو پر چڑھنے کی بے شمار کوششیں ھوئ مگر پہلی بار یہ 31 جولائ 1954 میں سر ھوئ۔ ایک اطالوی کوہ پیماؤں کا گروپ اس پر چڑھنے میں کامیاب ھوا۔ جس میں ایک پاکستانی کرنل محمد عطااللہ بھی شامل تھے۔ .اگرچہ کرنل چوٹی پر نہ پہنچ سکا۔
                 ❤❤❤   کے ٹو پہاڑ  کے سب سے مشکل حصے کو بوتل نیک (bottle neck)   کہتے ھیں۔ یہ ایک سیدھی چڑھائ ھے۔ جو ھر وقت برف سے ڈھکی رھتی ھے۔یہاں برف کے بڑے بڑے تودے گرتے رہتے ھیں اور طوفانی ھوائیں چلتی ھیں جو برف کے تودوں کو لڑھکاتی رہتی ھیں۔۔انھیں avalaches کہتے ھیں۔ اگر کوئ کوہ پیما ان کی زد میں آ جاۓ تو وہ سیکنڑوں فٹ گہری کھائ میں جا گرتا ھے ۔اور پھر ھمیشہ کیلیۓ برف کے نیچے دفن ھو جاتا ھے۔
                       کےٹو پر چڑھنے کےلیۓ معتدل موسم کا انتظار کیا جاتا ھے۔عموماً جون تا اگست کے دوران موسم ٹھیک ھوتا ھے۔   کے ٹو پر ھونے والے حادثات میں سب سے خطرناک حادثہ 1 اگست 2008 کو ھوا ۔اس میں 11 کوہ پیما اپنی جان کی بازی ھار گۓ۔
              چوٹی پر کوہ پیمائ کرنے کیلیۓ جس مقام سے آغاز کیا جاتا ھے اُسے بیس کیمپ Base camp کہتے ھیں۔ اسی طرح مختلف فاصلوں پر بھی کیمپ لگاۓ جاتے ھیں۔۔ان کیمپوں میں کوہ پیما آرام کرتے ھیں۔۔۔تھکاؤٹ دور کرتے ھیں۔اور مہم کے اگلے حصے کے لیۓ خود کو تیار کرتے ھیں۔
 جولائ 2008  کے اختتام تک کوہ پیماؤں کے کچھ گروپ کیمپ فور پر اکھٹے ھو گۓ۔اس گروپ میں ایک امریکن ٹیم۔ ایک فرانسیسی ٹیم۔ ایک نارویجیئن ٹیم۔ایک سربیئن ٹیم  اور ایک کورین ٹیم کے کوہ پیما شامل تھے۔ تین آزاد کوہ پیما بھی اس سارے گروپ میں شامل تھے۔۔۔ان میں دو میاں بیوی بھی تھے۔ دو پاکستانی پورٹر جہان بیگ اور کریم مہربان بھی اس مہم میں حصہ لے رہے تھے۔ جو     کے ٹو اور دوسری بلند چوٹیوں پر چڑھنے کی مہارت رکھتے تھے۔
              جمعہ1- اگست 2008 کو مہم شروع ھوئ

                  کوہ پیماؤں نے اپنے مددگار شرپاؤں( Sherpas) کے ساتھ ملکر پہاڑ پر چڑھنے کیلیۓ رسیاں لگانی شروع کر دیں۔ چٹان کے اندر مخصوص قسم کے ھُک اور سکریو گاڑے جاتے ھیں۔رسیاں ان ہکُوں میں پھنسائ جاتی ھیں اور ان کے سہارے اوپر بڑھا جاتا ھے۔
              ایک سپینی کوہ پیماہ Alberto zerain بھی اس دوران  اُن سے آن ملا ۔ ایک پاکستانی پورٹر۔ شاہین بیگ۔  جو سربیا کی ٹیم کے ھمراہ تھا ۔وہ اچانک بیمار ھو گیا اور بیس کیمپ میں  واپس آگیا۔ وہ شاید بخار میں مبتلا تھا-   ایک بہت بڑی غلطی یہ ھوئ کہ  رسیاں ختم ھوگئ تھیں اور  ۔bottle neck تک رسیاں نہ باندھی جا سکیں۔ حالانکہ یہ چوٹی کا سب سے خطرناک حصہ ھے اور یہاں حفاظتی  رسوں کے بغیر چڑھنا بہت مشکل ھوتا ھے۔
                ان حالات میں سے گزرتے ھوۓ کوہ پیماؤں نے چوٹی کی جانب چڑھنا شروع کر دیا۔ انکی رفتار سست تھی۔کیونکہ بہت بڑی تعداد اس معرکے میں حصہ لے رہی تھی۔ لگ بھگ چوبیس کوہ پیما بیک وقت رسیوں کو تھامے چل رہے تھے۔  کسی ایک کو بھی کوئ مسلہ ھوتا تو سبھی کو رکنا پڑتا تھا۔یہ ایک تکلیف دہ مرحلہ تھا۔۔بہت سارے کوہ پیماؤں پر بیزاریت اور تھکاوٹ طاری ھونے لگی۔
                   
               ایک سربئین کوہ پیما Dren mendic نے اپنا سیفٹی کلپ حفاظتی رسے سے الگ کر دیا۔ وہ شائد نارویجئین ٹیم کو راستہ دینا چاھتا تھا۔ یہ اس کی ایک  بھیانک غلطی تھی ۔نیچیے مہیب چٹانیں منہ کھولے کھڑی تھیں۔اس کا  پاؤں  پھسلا اور وہ پہاڑ سے نیچے لڑھکنے  لگا۔اس کا بچنا ناممکن تھا۔ تقریباً  سو میڑ نیچے پہنچنے کے بعد اس کا جسم کسی چٹان سے لگ کر رک گیا۔۔۔۔کوہ پیماؤں کا کہنا تھا کہ اس کے جسم میں حرکت نظر آ رہی تھی۔ کچھ آدمیوں کو نیچے بھیجا گیا مگر معلوم ھوا کہ وہ مر چکا ھے۔ اس کے جسم کو کیمپ میں پہنچانے کا فیصلہ ھوا۔ایک  پاکستانی پورٹر جہان  بیگ بھی اس ریسکیو آپریشن میں شامل تھا
برف سے ڈھکی ھوئ برفانی چوٹی پر کسی دوسرے  زخمی کوہ پیما کو ریسکیو کرنا اور زخمی کو بیس کیمپ تک پہنچانا بہت مشکل کام ھوتا ھے۔۔برفانی ڈھلوانوں پر چپکے ھوۓ کوہ پیما اپنے آپ کو بڑے مشکل سے بیلنس رکھ پاتے ھیں۔
 یہاں بھی یہی ھوا۔۔ نیچے اترتے ھوۓ اچانک جہان بیگ  اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ اور وہ پہاڑی ڈھلوان پر گہری کھائ  کی طرف لڑھکنے لگا۔۔اس نے سنھبلنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ھو سکا۔ آن کی آن میں اس کا جسم گہری کھائ میں غائیب ھو گیا۔  یہ دوسری موت تھی جو اس دن کے ٹو پر ھوئ۔
             اوپر موجود کوہ پیماؤں نے  چوٹی کی طرف بڑھنا جاری رکھا۔۔مگر وہ بہت لیٹ ھو چکے تھے۔ رات ھو چکی تھی اور کے ٹو پر ایک مہیب اندھیرے کی چادر تن چکی تھی۔درجہ حرارت گر چکا تھا۔۔۔سردی کی وجہ سے خون رگوں میں جمتا ھوا محسوس ھو رہا تھا۔اس پر مزید ستم یہ کہ ایک ٹریفک جام کا منظر تھا۔
                         پہلا کوہ پیما جو چوٹی پر پہنچا وہ  Alberto Zerain تھا۔نارویجئن ٹیم کے دو کوہ پیما شام پانچ بجے کے قریب چوٹی پر پہنچے۔ڈچ ٹیم بھی چوٹی پر شام سات بجے کے قریب پہنچ گئ۔ کل ملا کر تقریباً 18 کوہ پیما چوٹی پر پہنچے۔
                      اب  نیچے اترنا تھا۔۔جب کوہ پیما بوتل نک  Bottle Neck کے پاس پہنچے تو  ایک کوہ پیما پھسلا اور برف میں انھدیروں میں غائیب ھو گیا۔۔وہ رالف با ۓ Rolf Bae تھا۔۔جو اپنی بیوی  Cecile Skog کے ساتھ چوٹی فتع کرنے کے بعد واپس آ رہا تھا۔
                    گرتی ھوئ برف نے رسوں کو توڑ پھوڑ دیا تھا۔واپسی ایک بہت مشکل مرحلہ ثابت ھو رہی تھی۔ Skog اپنی ٹیم کے ساتھ کیمپ فور میں پہنچ گئ۔لیکن بارہ کے قریب کوہ پیماہ ابھی بھی Death Zone  میں رسیوں میں جکڑے ھوۓ موجود تھے۔  درجہ حرارت منفی 40  ڈگری تک گر چکا تھا۔ اور ھوا میں آکسیجن کی مقدار خطرناک حد تک کم ھو چکی تھی۔سانس لینا بہت مشکل ثابت ھو رہا تھا۔
رسیوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت سارے کوہ پیما اپنا راستہ گم کر چکے تھے۔۔وہ نیچے تو آ رہے تھے مگر انھیں معلوم نہ تھا کہ کدھر کو جا رہے ہیں۔وہ بس اندھاد ھند نیچے اتر رہے تھے۔
اس شدید خطرناک صورتحال میں تین کوہ پیماؤں نے فیصلہ کیا کہ اب رک کر صبح کا انتظار کیا جاۓ۔یہ Van Rooijin ,  Confortola  ,  McDonnell  تھے۔
دوسری صبح جب وہ نیچے اتر رہے تھے ۔انھوں نے کورئین کوہ پیماؤں   کو رسیوں میں جکڑا ھوا دیکھا جو بھت بری حالت میں تھے ۔ وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رھے تھے۔Confortola اور McDonnell نے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔مگر دو گھنٹے کی جدو جہد کے بعد بھی ان کو آزاد نہ کرا سکے۔McDonnell نے ان کو چھوڑا اور نیچے اترنے لگا۔ وہ کچھ بیمار بھی لگ رہا تھا۔۔وہ اونچائ پر ھونے والے بخار میں مبتلا ھو چکا تھا۔۔وہ خود نہ سمجھ پایا کہ وہ کیا کر رہا ھے۔ مگر وہ کبھی کیمپ 4 تک نہ  پہنچ سکا ۔خیال یہ ھے کہ راستے میں کسی برفانے تودے کی زد میں آ کر وہ اپنی جان گنوا بیٹھا۔                confortola بھی نیچے اترتے ھوۓ راستے میں پھنس گیا ۔اس کی خوش قسمتی تھی کہ کیمپ میں موجود ایک پورٹر Pemba  نے اسے دیکھ لیا اور اسکی جان بچا لی۔ پھنسے ھۓ کورین کوہ پیما نہ بچ سکے۔۔Pemba نے ایک بار پھر بہادری کا مظاھرہ کیا اور Death زون میں موجود Rooijin کو بھی بحفاظت کیمپ 4  تک لے آیا۔۔وہاں سے پاکستان آرمی کے ھیلی کاپڑ کے ذریعے ان دونوں کو نیچے اتار لیا گیا۔…
   Pemba                       کو اسکی بہادری کی بنا پر ایک ہیرو کا اعزاز دیا گیا۔  ایک پاکستانی پورٹر مہربان کریم بھی اس مہم اپنی جان گنوا بیٹھا۔۔اسکی لاش کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ کل گیارہ کوہ پیماہ اس مہم میں مارے گۓ۔اس حادثے کو   کےٹو  پر ھونے والا سب سے ھلاکت خیز حادثہ کہا جاتا ھے

Tuesday, 13 March 2018

پیپل کا درخت ---- ---- Sacred fig


تحریر!!!!! راجہ ابرار عاجز
🌴🌴 پیپل کا درخت 🌴🌴
وہ پیپل کا بہت پرانا اور بوڑھا درخت تھا۔ایک بڑے سے کچے تالاب کے کنارے وہ درخت دور ایسے دکھای دیتا جیسے پانی کے اوپر چھتری سی تنی ھوی ھے۔۔۔گھنی شاخیں۔۔ چاروں طرف پھیلی ھوئ تھیں۔۔خوبصورت پتے اور اس پر بیٹھے طرح طرح کے پرندے۔۔۔۔۔ اپنی اپنی بولیاں بولتے۔۔
ھوا چلتی ْْْ تو پتوں سے یوں سرسرا کر گزرتی ۔معلوم ھوتاــ جیسے بوڑھے پیپل سے سرگوشیاں کر رہی ھے۔۔پھل آنے کے موسم میں پورا درخت گول گول سرخ رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھلوں سے لد جاتا۔
درخت کے قریب ھی ایک سڑک گزرتی ھے۔۔پاس والے گاؤں کے بچے سکول سے چھٹی کر کے آتے اور اس کی گھنی چھاؤں کے نیچے کچھ پل کے لیۓ سستاتے۔۔۔کچھ منچلے اس کی شاخوں سے پھل توڑتے ۔۔تالاب کا ٹھنڈا پانی پیتے اور پھر گاؤں کی طرف چل دیتے۔۔درخت بھی بچوں کو دیکھ کر مسرور ھوتا۔
پیپل کے اس درخت کے نیچے کسی نے کچھ چوڑے پتھر رکھ دیۓ تھے۔۔امتداد زمانہ سے وہ پتھر گھس گھس کر خوبصورت سلوں کی شکل اختیار کر گۓ تھے۔۔۔لوگ وہاں بیٹھتے اور اپنی تھکن اتارتے۔۔۔
کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ پیپل کتنا پرانا ھے۔۔لوگ اس کو ہمیشہ سے اسی طرح ھرا بھرا اور پھلتا پھولتا دیکھتے چلے آ رہے تھے۔۔اس کے نیچے پھیلی ھوی پانی کی بَن کا نام بھی پیپل والی بَن پڑ گیا تھا۔۔
پیپل کے قریب ہھی کچھ لوگوں نے اپنے ڈیرے بھی بنا لیۓ تھے۔۔وہ خود بھی اس بن کا پانی پیتے اور اردگرد کے گھروں سے آنے والے مویشی بھی اسی بن سے پانی پیتے۔۔
پھر یوں ھوا کہ کسی نے اس پانی کے تالاب کو گہرا کرانے کا سوچا۔۔۔تالاب گہرا کرا دیا گیا۔۔
مگر اب اس کا پانی جلدی سوکھ جاتا۔۔
سکول کے بچوں نے بھی پیپل کے نیچے بیٹھنا چھوڑ دیا۔۔اب وہ گاڑیوں پر سکول آنے جانے لگے۔۔پاس کے گھروں میں پانی کیلیۓ بورنگ ھو گئ۔۔
درخت مرجھانے لگا۔۔اس کے بڑے بڑے ٹہنے ایسے سوکھے کہ دوبارہ پھر ھرے نہ ھوۓ۔۔۔
۔۔کچھ عرصے تک ایک ٹنڈ مُنڈ سا ڈھانچہ کھڑا رہا ۔اور بدلتے ھوۓ زمانے اور لوگوں کے بدلتے ھوۓ چال چلن کو دیکھتا رہا۔۔۔اور پھر زمین بوس ھو گیا
اب وہاں نہ پیپل ھے اور نہ پیپل والی بَن۔۔۔۔بس ایک اجڑا ھوا۔۔۔۔ پتھروں اور مٹی سے اٹا ۔۔۔ویرانہ موجود ھے۔۔۔۔

Image result for Sacred fig